ہجر نے تاک لیا مجھ کو ، کہا! ایک ہی پھول
زندگی! میں ترے ہاتھوں میں فنا ، ایک ہی پھول
میں پیا میں ترے کالر پہ سجی سرخ کلی
تو پیا تو مرے جوڑے میں سجا ایک ہی پھول
میرے اطراف امڈتا ہوا بے انت ہجوم
میں خزاں بار درختوں میں گھرا ایک ہی پھول
بعدِ فرقت خس و خاشاک کی ساجھی ہوئی میں
دربدر گاتی پھری گیت ہوا , ایک ہی پھول
اس کی خوشبو نے بہت دور سے اعلان کیا
نقرئی پھولوں میں وہ سرخ قبا ، ایک ہی پھول
میں ہوں غالب کی غزل کا کوئی کھلتا مصرع
وہ ہے گلزار کی نظموں سا جدا ، ایک ہی پھول
آج بخشش میں اسے لمس عطا کر اپنا
تھام لے پھول ، وہ رستے میں پڑا ، ایک ہی پھول
تو تو قادر ہے ، تجھے کون سی مشکل ہے بتا ؟
میں نے مانگا بھی تو کیا میرے خدا ، ایک ہی پھول ؟
فرح گوندل