چشمِ نم تیری حیرت میں سمٹی ہوئی مشعلِ خواب کی بے زبانی کا دکھ
راکھ ہوتا نہیں بوکھلائی ہوئی وحشتوں کی سلگتی کہانی کا دکھ
کربلائے اذیت سے لپٹی رہی اک تمنائے تشنہ لبی کی لپک
اونگھتی منزلوں کا سفر , پاؤں شل اور ستم پانیوں کی روانی کا دکھ
شب ہتھیلی پہ بے چہرگی کا فسوں , خستگی اور اک نیند کا آئنہ
صبحِ ابہام کی دستکوں سے پرے , خواب اور عکس کی لامکانی کا دکھ
تجھ چھلے ہونٹ کے واہمے , ذائقے , آنکھ میں جب اترنے کی کوشش کریں
مجھ تہی دست کے روبرو شعلگی سے الجھتا اکستی جوانی کا دکھ
زرد ہاتھوں سے کھینچی ہوئی ہجر کی ان غلیلوں کے کنکر پہ کھلتا نہیں
وصل کے شہر میں سبزگی سینچتا , ہانپتا اک محبت پرانی کا دکھ
ارشاد نیازی