بجز تمہارے کسی سے کوئی سوال نہیں
ایک اردو غزل از قمر جلال آبادی
بجز تمہارے کسی سے کوئی سوال نہیں
کہ جیسے سارے زمانے سے بول چال نہیں
یہ سوچتا ہوں کہ تو کیوں نظر نہیں آتا
مری نگاہ نہیں یا ترا جمال نہیں
تجاہل اپنی جفاؤں پہ اور محشر میں
خدا کے سامنے کہتے ہو تم خیال نہیں
یہ کہہ کے جلوے سے بے ہوش ہو گئے موسیٰ
نگاہ تجھ سے ملاؤں مری مجال نہیں
میں ہر بہارِ گلستاں پہ غور کرتا ہوں
جلا نہ ہو مرا گھر ایسا کوئی سال نہیں
خطا معاف کہ سرکار منہ پہ کہتا ہوں
بغیر آئینہ کہہ لو مری مثال نہیں
میں چاندنی میں بلاتا ہوں تو وہ کہہ دیں گے
قمرؔ تمہیں مری رسوائی کا خیال نہیں
۔۔۔۔
شیخ آخر یہ صراحی ہے کوئی خم تو نہیں
اور بھی بیٹھے ہیں محفل میں تمہی تم تو نہیں
ناخدا ہوش میں آ ہوش ترے گم تو نہیں
یہ تو ساحل کے ہیں آثار تلاطم تو نہیں
ناز و انداز و ادا ہونٹوں پہ ہلکی سی ہنسی
تیری تصویر میں سب کچھ ہے تکلم تو نہیں
دیکھ انجام محبت کا برا ہوتا ہے
مجھ سے دنیا یہی کہتی ہے بس اک تم تو نہیں
مسکراتے ہیں سلیقے سے چمن میں غنچے
تم سے سیکھا ہوا اندازِ تبسم تو نہیں
اب یہ منصور کو دی جاتی ہے نا حق سولی
حق کی پوچھو تو وہ اندازِ تکلم تو نہیں
چاندنی رات کا کیا لطف قمرؔ کو آئے
لاکھ تاروں کی ہو بہتات مگر تم تو نہیں
قمر جلال آبادی