تم نے تو جان مار لی پر گر نہیں رہا
قائم ہے اپنے قول پہ وہ پھر نہیں رہا
بھوکے ہیں چار دن سے تو کیا یہ بھی مان لیں
چارہ گری کا فیض بھی آخر نہیں رہا
کیوں اس طرح سے کر رہے ہو مجھ کو الوداع
کیا رب کسی کا حافظ و ناصر نہیں رہا
ملتے نہیں ہیں حرف بھی غم کی مثال میں
حاضر مرے خیال سے شاعر نہیں رہا
لہجہ ہے میر سا ،مرا غالب سا رنگ ہے
کہتا ہے کون آج کہ ناصر نہیں رہا ؟
تم جب سے چھوڑ کر گئے ہم کو جہان میں
حاضر ذرا سی دیر بھی حاضر نہیں رہا
احمد رضا حاضؔر