- Advertisement -

ہذیان

ذوالقرنین حسنی کی اردو نظم

ہذیان

ایک تو ہے رحمان کا سچ اور اک حضرت شیطان کا سچ
پھر ہم جنس کی بات کریں تو ٹانگوں اور پستان کا سچ
خون کے رنگ سے کب چھپتا ہے نسل کا اور بہتان کا سچ
جب شجرے کھنگال رہا ہو ڈی این اے فرمان کا سچ
یہ تو کتنی بار سنا ہے ہونے کے۔ امکان کا سچ
پھر اس پہ تلوار اٹھائے مولودہ ایمان۔ کا۔ سچ
یہ بھی سچ ہے ہم نے میت روندی بھی دفنائی بھی
یہ بھی سچ ہے مرنے والے کی قیمت۔ لگوائی بھی
قسمت میں لکھی تھی یعنی عرضی اور شنوائی بھی
اسی لیے تو ہم کو پیاری ذلت بھی رسوائی۔ بھی
مندر مسجد اور کلیسا کے۔ وحشی دربان کا سچ
پھر اپنی تعجیل کا سچ اور ہادی کے اعلان کا سچ
سچ تو یہ ہے جھوٹ ہے میرا رونا بھی خودداری بھی
سچ تو یہ ہے صاف دکھائی دے گی یہ مکاری ۔ بھی
سچ ہے بستر کی بیداری سونے کی دشواری بھی
سچ ہے تجھ سے لپٹے لپٹے مرنے کی فنکاری۔ بھی
ذیادہ پی کر۔ وجد میں آئے وعدوں اور پیمان کا سچ
سننے والوں کی حیرانی اور میرے ہیجان کا ۔ سچ
اپنا تھوکا چاٹنے والے کم درجہ۔ انسان کا ۔ سچ
اور مسند پہ بھوکنے والے ہر اشرف حیوان۔ کا سچ
کیا لگتا ہے۔ چھان پھٹک کر یہ سنساراٹھا۔ لوں گا
یا بکری کی چھینک برابر وزن کے۔ سکے ڈالوں۔ گا
مجھ کو لگتا ہے میں پھر سے کوئی طوطا پالوں گا
جب وہ سیکھ گیا تو اس دنیا کی فال نکالوں ۔ گا

ذوالقرنین حسنی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ذوالقرنین حسنی کی اردو نظم