- Advertisement -

یہی تو بھول ہو گئی قطار میں نہیں رہے

سعد ضؔیغم کی ایک اردو غزل

یہی تو بھول ہو گئی قطار میں نہیں رہے
شُمار جب ہوا تو ہم شُمار میں نہیں رہے

سنا ہے رات اُن کے آگے بے لباس ہو گئی
جو آنے والے دن کے انتظار میں نہیں رہے

میں کیوں نہ اپنی روشنی خلاؤں میں بکھیر دُوں
مَرے ستارے تو مَرے مدار میں نہیں رہے

خِزاں میں رونقِ چمن انہی کے دم قدم سے تھی
وہ زرد پات جو بھری بہار میں نہیں رہے

تری نگاہ چشم و دل پہ کیسا جادو کر گئی
مرے خزانے میرے اختیار میں نہیں رہے

ہمارے اور اس کے درمیان آسمان تھا
ہم ایک دوسرے کے انتظار میں نہیں رہے

سعد ضؔیغم

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
افسانہ از منشی پریم چند