قیامت خود بتائے گی قیامت کیوں ضروری تھی
اویس خالد کا ایک اردو کالم
قیامت خود بتائے گی قیامت کیوں ضروری تھی
دل دہلا دینے والے پے در پے سانحات نے پوری قوم کو انسانیت کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ ظلم کے ایسے واقعات وقوع پذیر ہو رہے ہیں کہ بحیثیت قوم ہمیں آئے روز اپنی انسانیت کو ثابت کرنا پڑجاتا ہے۔ بات اب تواچھے برے کی یا برے برے کی رہی نہیں بلکہ اب تو بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کیا ہمارے ہاتھ میں انسانیت کا کوئی آخری درجہ بھی بچا ہے کہ نہیں؟؟
سورۃ فرقان:44 میں ارشاد ہے جس کا مفہوم ہے کہ "کیا آپ اس خیال میں ہیں کہ اکثر ان میں سنتے یا سمجھتے ہیں۔وہ تو نرے جانوروں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی ذیادہ بدتر”۔ترمذی :2032 میں ہے۔مفہوم حدیث ہے کہ” کعبے کی عظمت بڑی ہے لیکن مومن کی حرمت ذیادہ عظیم ہے”۔ترمذی:2030 میں مفہوم ہے کہ” ظلم کرنا قیامت میں تاریکی کا سبب ہے”۔
انسان صرف شکل و صورت سے ہی انسان نہیں ہوتا بلکہ کردار کی خوبصورتی اور اس کی بے ضرر شخصیت اسے انسان بناتی ہے۔دیکھنے میں فرعون، نمرود، ہامان، شداد، چنگیز،ہلاکو،ہٹلر اور یزید سب انسان ہی تھے لیکن اپنے منفی،گھٹیا اور باغیانہ کردار کی وجہ سے فہرست انسانیت میں سے خارج ہو چکے تھے۔ان سب کرداروں میں ان کی بد ترین صفت جو آپ کو نظر آئے گی وہ انسانیت پر ظلم ہے۔ ماضی کے اچھے برے کردارآج کے زمانہ کی انسانیت کو جانچنے کے لیے ایک کسوٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ماضی کے ان اچھے برے کرداروں کی جھلک آج بھی آپ کو موجود نظر آئے گی۔ہمارا معاشرہ دن بدن اخلاقی طور پر پستی کا شکار ہوتا چلا جا رہا ہے۔اس کے متعدد اسباب ہیں۔اگر قوم کی رہی سہی ساکھ کو بچانا ہے اور قوم کی جان مال اور آبرو کا تحفظ کرنا ہے توان اسباب کو فوری طور پر تلاش کرنا اوران کا سد باب کرنا اشد ضروری ہے لیکن اس کی ابتدابلا امتیاز و تفریق اس طرح کے گھناؤنے جرائم کے مرتکب مجرموں کی عبرت ناک سزاؤں سے ہونی چاہیے۔ خدا جانتا ہے کہ آئے روز اس طرح کے واقعات سن سن کر اور انسانیت کے جنازے نکلتے دیکھ دیکھ کرایک عجیب سا خوف و ہراس دل میں سرائیت کر گیا ہے۔ان واقعات کا سیدھا سا ایک مطلب یہ ہے کہ کسی کے ساتھ کہیں بھی کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے اورپکارنے کے باوجود کوئی مدد کو بھی نہیں پہنچے گا۔الامان۔کہیں اولاد کی ماں باپ کو مارنے کی ویڈیو وائرل ہو رہی ہے توکہیں کسی وڈیرے کی اپنے ڈیرے پر چند ٹکوں کی خاطرکسی غریب مظلوم پر بہیمانہ تشدد کی ویڈیو کا چرچا سنائی دیتا ہے۔کہیں کوئی مالک چھوٹے سے مزدور بچے پر چوری کا الزام لگا کر اپنی خودساختہ چنگیزی عدالت میں اس پر انسانیت سوز ظلم کر رہا ہے تو کہیں معصوم، بھولی بھالی،متقی، پرہیز گار،تہجد گزار،تذکیۃ الشھود ایماندار عوام کسی چور کو آٹا چوری کے الزام میں سرعام اینٹوں سے مارتی ہوئی انصاف کے تقاضے پوری کرتے ہوئے نظر آتی ہے۔5,6 سال کی بچی سے ذیادتی کر کے اسے قتل کر کے لاش کھیتوں میں پھینک دی جاتی ہے۔4,5 سال کے بچوں کی بعد از ذیادتی لاش کسی گٹر سے برآمد ہوتی ہے۔ایک لمحے کے لیے بندہ سوچے کہ آخر ان ظالموں کو ہو کیا گیا ہے۔آپ ظلم و ذیادتی کرنے والے کی ذہنی پستی اور اندھے پن کا اندازہ لگائیں کہ وہ یہ تک بھول جاتا ہے کہ جسے وہ بے دردی سے مار رہا ہے وہ بھی اسی کی طرح گوشت پوست کا ہی ایک انسان ہے۔اسے بھی درد ہوتا ہے،اور یہ تمام ویڈیوز خود اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسے چھپا کر نہیں بلکہ بتا کر بنایا جا رہا ہے۔اسے چھپانے کے لیے نہیں بلکہ چھاپنے کے لیے بنایا جا رہا ہے۔اس ویڈیو کو وہ اپنے اندر کے حیوانیت کی گندی تسکین کے لیے بنایا جا رہا ہے۔اور اس کا ایک سیدھا سا مطلب ہے کہ ان لوگوں کو قانون اور سزا کا کوئی خوف ہی نہیں رہا۔
آج یہاں ان ظالموں کی دیدہ دلیری اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ایک چھوٹے بچے اور بچی سے لے کر بوڑھوں بلکہ مُردوں تک پر ظلم کرنے سے ان کا ہاتھ نہیں رکتا۔ اگر سرعام ظلم کرنے والوں اور دوسروں کی عزتیں لوٹنے والوں کو بھی سزائیں نہیں دینی اوران ظالموں نے یونہی قانون کو للکارتے رہنا ہے تو پھر کیا فائدہ۔وہ لبرلز جو کہ اسلامی سزاؤں کے خلاف پروپیگنڈے کرتے نہیں تھکتے۔وہ ذرا یہ بتائیں کہ خدانخواستہ ان کی بہن بیٹی کے ساتھ کچھ ایسا ظلم ہوا ہو تو کیا پھر بھی ان کا یہی موقف رہے گا کہ نہیں اتنی سخت سزائیں نہیں دینی چاہییں،سب کو جینے کا حق ہے۔سب کو آزادی ہے۔یہ کون سی آزادی ہے جو دوسروں کی آزادی کو برباد کر رہی ہے؟یہ کون سی آزادی ہے جو پوری قوم کے لیے سبکی اور ندامت کا باعث بن رہی ہے؟ہم لوگ تو اس سانحے کا بھی چار دن ذکر کریں گے پھر بھول جائیں گے۔خدا نہ کرے کہ پھر ایسا کوئی اور سانحہ ہو۔لیکن خدارا اس قوم کو مزید ظلم کا شکار ہونے سے بچا لیں۔اس قوم کے بچوں،بیٹیوں اور بوڑھوں پر ظلم کرنے والوں کو لگام دے دیں۔انھیں علامت عبرت بنا دیں۔ایک کوا مار کے ایسا لٹکائیں کہ پوری کوا برادری کسی پر ظلم کرنا تو دور کی بات ہے، اونچا سانس لیتے ہوئے بھی ڈرے۔ورنہ قیامت تو پھر خود بتائے گی کہ وہ کتنی ضروری تھی۔
اویس خالد