- Advertisement -

نقشِ ماضی

شیخ الاسلام مفتی عبد الہادی خان صاحب کانَ اللہ لہ‘

نقشِ ماضی
شیخ الاسلام مفتی عبد الہادی خان صاحب کانَ اللہ لہ‘

شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی عبد الہادی خان صاحب علیہ الرحمہ مفتی اعظم قاضی القضاۃریاست بھوپال جیسی شخصیت پر ایسے شخص کا قلم اٹھانا جسے ان کو نزیک سے دیکھنے کی سعادت نصیب نہ ہوئی ہو، پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے۔بہر حال نام کی سعادت یعنی برائے نام سعادت کے سہارے میرے والد محترم مولانا محمد سعید خانصاحب ومشہور صحافی و ادیب انعام اللہ خاں لودھی صاحب سے ان کی شخصیت سے اکتساب فیض کی یہ کوشش نصیب ہوئی ہے۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی عبد الہادی خانصاحب علیہ الرحمہ۔ مفتی اعظم قاضی القضاۃ ریاست بھوپا ل کو فراموش کردیا گیاہے۔ ہماری آپ کی بد قسمتی ہے کہ ہم نے جانا نہیں کہ وہ کیسے باطنی مراتب پر فائز تھے، اس کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں جو اس کوچہ سے واقف ہوں اور جو اس کا احساس رکھتے ہوں، وقت کے عارفین اور اہل نظر کی زبان سے ان کے لئے بڑے بُلندکلمات سنے ہیں اِن سب کو اُن کی عظمت اور بُلندی کا معترف اور اُن کو مدح و توصیف میں رطب اللّسان پایا۔
حضرت مفتی صاحب ؒ بڑے قدامت پسند اور قدیم روایات اسلامی کے زبر دست دل دادہ تھے۔ جو علم و عمل کے حسین پیکر اور عارفین کے حلقہ کے لئے ہوتی تھیں۔ ان کی درسی تقریریں نہایت بسیط اور بڑی پھیلی ہوئی ہوتی تھیں، مذاہب کا بیان، احادیث کے نکات سند و رجال کی پُر مغز بحیثیں،جس میں تصوف کے اسرار و رموز، کلام و حکمت کی دقیق باتیں سب کچھ شامل ہوتی تھیں۔۰۴ سال تک مسجد ترجمہ والی ( پھوٹی مسجد) میں تفسیر قرآن پاک بیان کی۔جس کی وجہ سے یہ مسجد ترجمہ والی کے نام سے مشہور ہوئی۔حضر ت مفتی صاحب نے ہی اِس مسجد میں مکتب کی شکل میں مدرسہ کی بنیاد ڈالی۔
مفتی صاحبؒ قبلہ قرآن فہمی کی اعلیٰ صلاحیت کے مالک تھے۔اُن کی علمی صلاحیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے تفسیر ’مدارک‘ پر حاشیہ لگایا وہ بھی عربی زبان میں۔عربی زبان پر آپ کو عبور حاصل تھا۔”مدارک التنزیل“ علامہ ابوالبرکات عبداللہ بن احمد نسفی کی تفسیر ہے، یہ تفسیر نہایت عمدہ ہے، جامعیت اور پیرایہئ بیان کی دل کشی میں منفرد ہے، اس میں گم راہ فرقوں کے عقائد باطلہ کی بھی بھرپور تردید کی گئی ہے۔بہت جلد اس کا ترجمہ شائع کیا جائے گا۔
ْٓحاشیہ نگاری کا عمل سنجیدہ اور فنی تحریروں، نیز ترتیب متن کا ایک اہم اور لازمی جز وہے جس کے ذریعے نہ صرف مآخذ کی نشان دہی کی جاتی ہے بلکہ بہت سے توضیح طلب نکات کی وضاحت بھی کر دی جاتی ہے۔ ایسے بہت سے امور حاشیہ میں لکھے جاتے ہیں جو متن کا حصہ نہیں بن سکتے۔ اس کے علاوہ قدیم متن کی تدوین کے حوالے سے اختلافی قرأتوں کی نشان دہی کی جاتی ہے اور متن کے مقتضیات اور معروف حقائق کی روشنی میں توضیحی روایتوں اور تصدیقی دلائل کو حسب ضرورت شامل کیا جاتا ہے۔
حاشیہ کے ساتھ حضرت والا کے لئے ’ہدایتہ المسالک فی حل تفسیر المدارک لجامع العلوم العقلیتہ و النقلیتہ الحافظ، القاری ابی العلم محمد عبد الہادی خاں عفا عنہ اللہ الحنان و المنان جل ثناؤہ البوبالی مولد اوالفشاری(پشاوری) ابا و جداً۔کہی الباقی الوالی، الحنفی مذہباً۔کہیں مذہبا و النقشبندی طریقتہ ابن العلامتہ عبد الاحد الفشاری رحمتہ اللہ تعالیٰ ابن العلامتہ الفہامتہ عبد الرب الفشاری رحمہ اللہ تعالی۔کہیں للعالم ربانی، الطبیب الحاذق، نائب الرسول کئی جگہ پڑھا جاسکتا ہے۔
حضرت مفتی صاحب رحمتہ اللہ علیہ بہت ہی سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ لباس میں اپنی شان کے شایاں کوئی کرو فر نہیں ہو تا تھا۔رفتار اللہ تعالیٰ کے منکسر المزج بندوں کی سی ہوتی تھی۔ گفتار میں کوئی متکبرانہ طرز نہیں ہوتا تھا۔خوش اخلاق اور مرنجان مرنج تھے۔ ہر حال میں خوش رہنے اور دوسروں کو خوش رکھنے کے عادی تھے۔ مزاج معتدل۔ غصہ بہت کم۔ علمی مجالس میں کمال حاصل تھا۔ مشتعل آدمی کو چند باتوں میں ٹھنڈا کر دینا ان کے لیے اللہ کے حکم سے ایک معمولی بات تھی۔بے شک مفتی صاحب بہت گہرے عالم دین تھے مگر کبھی کبھی ماحول کی شدت بڑے بڑے دانشور کو متاثر کردیتی ہے۔ہر جگہ آپ اپنا ایک خاص مجلسی ماحول پیدا کر لیتے تھے۔خط نہایت عمدہ اور دلفریب تھا۔ آپ کا کمال خوشنویسی محض عطیہ ربانی تھا۔ خوش نویسی کی مشق آپ نے کبھی نہیں کی۔ حساب میں بڑی عمدہ مہارت تھی۔ جب خطبہ دیتے تھے تو ہاتھ میں چاندی کی شام والا عصا ہوتا تھا۔
حضرت مفتی صاحب فتاویٰ نویسی میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ بروقت جواب تحریر کردینا حضرت والا کی عادت ثانیہ تھی۔ راستہ چلتے اگر کوئی فتویٰ معلوم کرنے آجاتا تو آپ کسی مناسب جگہ بیٹھ کراس کا جواب مرحمت فرما دیتے۔ فتاویٰ میں اصابت رائے آپ کا طرہئ امتیاز تھا۔آپ کی یہ خصوصیت تھی کہ آپ کا فتویٰ ہمیشہ مختصر اور جامع ہوتا تھا۔
میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سعید خانصاحب فرماتے ہیں کہ”بچپن سے ہی ہم حضرت مفتی صاحب(نانامیاں) کی خدمت میں جایا کرتے تھے اور حضرت مفتی صاحب بروز جمعہ ہمارے گھر(شمسی دواخانہ) والد صاحب حکیم عبد الحمید خان ؒکی دعوت پر ناشتہ پر تشریف لاتے تھے،والد صاحب اکثرمجھ سے مفتی صاحب کو نا شتے پر بلانے کے لئے بھیجا کرتے تھے۔ والد صاحب سے علمی اور طبی گفتگو بھی ہوتی تھی اور جاتے وقت اُس زمانے کی دو انّی(دو آنہ) دے کر جا تے تھے۔جب بھی ہم حضرت مفتی صاحب سے کہتے تھے کہ آج ہمارا یک سپارہ ختم ہوگیاتو اُس زمانے کی کچھ رقم عنایت فرماتے اور دُعاؤں سے نواز تے تھے۔میں نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے آپ کو مسجد کے آغوش میں پایا۔ ایک بار حضرت مفتی صاحب ؒنے فر مایا کہ’مسجد ترجمہ والی کو مت چھوڑنا‘۔ہمیشہ اس میں جاتے رہنا۔ اس کے کچھ رموز ہیں جو سر آنکھوں پر۔والد صاحب حکیم عبد الحمید علیہ الرحمہ نے مسجد ترجمہ میں لمبے عرصے تک امامت کے فرائض بھی انجام دئے۔میرے والد صاحب کی تمام اولادوں نے مسجد ترجمہ میں والی میں بیٹھ کر کنز الدقائق، قدوری و دیگرکُتب کی تعلیم والد صاحب سے ہی حاصل کی۔
راقم کے والد محترم نے تقریباً ۵۴ سال مسجد کی خدمت میں صرف کئے۔جس کا تفصیلی ذکر زیر ترتیب کتاب ”میرے والد کے ۵۴ سال“انشاء اللہ بہت جلد منظر عام پر آنے والی ہے۔
حضرت علامہ قاضی وجدی الحسینی ؒ تاریخ قضاۃ و مفتیان بھوپال میں رقم طراز ہیں:
”حضرت مفتی صاحب ۲۰۳۱ء؁ بمقام چھاونی ولا یتان بھوپال میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کرکے شوقِ علمی کی بناء پر جس عالم کی مہارت ِ فن کی خبر ملتی اس کی خدمت میں حاضر ہوتے اور استفادہ کرتے اور جب تک اس علم کی تکمیل نہ کرلیتے تو دامن نہ چھوڑتے درسی تعلیم کے دوران ایک کم سن بچہ کو تراویح پڑھاتے ہوئے دیکھ کر حفظ قرآن کا شوق پیدا ہو ا چپکے چپکے حفظ کرنا شروع کردیا پھر ایک سال خالص حفظ میں لگایا ۷۲۳۱ء؁ میں پہلی محراب مسجد باجوڑیان چھاونی ولایتیان میں سنائی حدیث و فقہ حافظ عبد العزیز صاحب اور منطق و فلسفہ علامہ فضل حق رام پوری شاگرد علامہ فضل حق خیر آبادی اور پیر محمد قندھاری اور ریاضی مفتی عنایت اللہ خلف مفتی لطف اللہ علی گڈھی سے پڑھی سند حدیث علامہ شیخ حسین عرب نور اللہ مرقدہ‘ سے حاصل کی حافظ عبد العزیز ؒ نے ان کو شوقِ علمی کو دیکھ کر طالب علمی کے زمانہ ہی میں اپنی فرزندی میں لے لیا شادی کے بعد طب کا شوق ہوا اول حکیم نور الحسن صاحب سے طب کا آغاز کیا پھر حکیم محمد احسن حاجی پوری کی خدمت میں او رنگ آباد پہونچ کر تکمیل کی جب دکن سے بھوپال واپس ہوئے تو حافظ صاحب کا انتقال ہوچکا تھا تو سرکارِ عالیہ نے ۶۲۳۱ء؁ میں مدرسہ سلیمانیہ میں مدرس دوم مقرر فرمایا مولانا فتح اللہ مہتمم تھے اس دور میں ہر فن کی کتابیں ان کے زیر درس رہیں۔ ۹۱۹۱ء؁ ۷۳۳۱ء؁ھ مفتی قاری عبد الہادی خاں ؒ کے نائب ہوئے۔ اور قاری صاحب نے فتویٰ نویسی کا کام سیکھا پھر مہتمم ہوئے ان مراحل سے گذرنے کے بعد ۶۲۹۱ء؁ میں مہتمم عبیدیہ مدرسہ و احمدیہ اور رکنِ مجلس العلماء بنائے گئے یکم ستمبر ۱۳۹۱ء؁ میں مفتی بھوپال کے منصبِ جلیل پر فائز ہوئے۔ جس کا سلسلہ انقلاب ۷۴؁ کے بعد تک جاری رہا۔ قاضی شعیب صاحب کے استعفیٰ کے بعد قاضی القضاۃ کے عہدہ پر فائز ہوئے۔حضرت مفتی صاحب علم و حلم کے پیکر و قار و تحمل کے پہاڑ جامع العلوم انسان تھے مفتی صاحب ذوق تالیف سے بہرہ ور تھے چنانچہ مولانا ذوالفقار صاحب کے مشورہ سے تفسیر مدارک کے تحشیّہ کا کام انجام دیا۔ جس کا پہلا پارہ اصح المطالعہ ۴۳۳۱؁ میں شائع ہوا۔ پھر اس کو کامل و مکمل کیا جس کے چودہ پارے طبع ہو سکے اس علمی خدمت پر ریاست حید ر آباد سے ایک عرصہ تک و ظیفہ ملتا رہا۔ اور چالیس سال تک ترجمہ بیان کیا“۔
یہ عظیم المرتبت انسان۸۸۳۱ء۔ ۵۱/ اگست ۱۶۹۱ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگیا۔آپ کے کمالات و فضائل کی شرح و تفصیل مجھے جیسے ہیچ مداں کے امکان سے باہر ہے۔ ا بھی آپ کے کمالات و فضائل اور آپ کی علمی و دینی خدمات پر بہت کچھ لکھا جائے گا۔ حضرت مفتی صاحب ؒ انبیاء علیہم السلام کی سادگی و استغناء خود داری و تحمل، دیانت و امانت، صبر و قناعت اور عزم و استقلال کا نمونہ پیش کرگئے۔
اللھم اغفر لہ و متعنا باسوتہ اِنّک اَرحم الرحمین۔
M-9302371816 -9907771816ادارہ بابِ ادب بھوپال
68ٹول والی مسجد روڈ موتیا پارک بھوپال (ایم۔پی)01۔ ای میل baabeadab@gmail.com

فرید سعیدی، بھوپال

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ستیا پال آنند کی ایک اردو نظم