شکستہ جسم مسلسل خراب ہوتے ہوئے
میں دیکھتی ہوں اسے لاجواب ہوتے ہوئے
خراب حال فریبی نگاہ سے اکثر
اتر رہی ہے اداسی سراب ہوتے ہوئے
ستم کے باب کھلے اور اس طرح سے کھلے
زمانہ دیکھنے آیا عذاب ہوتے ہوئے
غلام ذادے فقیران_ دشت و صحرا میں
نکل کے آئے ہیں سب آب آب ہوتے ہوئے
خوشی کی آخری سرحد عبور کرتے ہیں
یہ چند لوگ محبت میں خواب ہوتے ہوئے
مرا حوالہ اداسی ہے اور اس میں ،میں
بڑے سکون سے ہوں لاجواب ہوتے ہوئے
نگاہِ عشق مقدم ہوئی تھی جب تسلیم
میں آگئی تھی وہاں ماہتاب ہوتے ہوئے
تسلیم اکرام