کیا جانئے عاشق ہے کہ محبوب کوئی ہے
اِس دل کے در و بام سے منسوب کوئی ہے
آرام کہاں عشق و عبادت میں بھی دل کو
بت کوئی مقابل ہے تو مطلوب کوئی ہے
کیا کم ہے تعلق کے اس آشوب میں رہ کر
ہم جیسے خرابوں سے بھی منسوب کوئی ہے
پھر در پئے آزار ہیں فرقت کی ہوائیں
پھر بامِ شبِ ہجر پہ مصلوب کوئی ہے
تحریر بھی تصویر بنا دیتی ہے اس کی
ہاتھوں کی لکیروں سے جو منسوب کوئی ہے
پھرتے ہیں سعید اور سخنور یہاں کتنے
کب تجھ سا مگر صاحبِ اسلوب کوئی ہے