مرا جنوں مری وحشت بدلتی رہتی ہے
ترے مریض کی حالت بدلتی رہتی ہے
مجھے یہ غم نہیں کوئی نہیں ہے ساتھ مرے
مجھے یہ غم ہے محبت بدلتی رہتی ہے
یہان پہ کون کسی کا یقیں کرے کہ یہاں
قدم قدم پہ حقیقت بدلتی رہتی ہے
میں آئینہ بنا تو پھر کسی کا بھی نہ ہوا
کہ آئینے میں تو صورت بدلتی رہتی ہے
کبھی سحر تو کبھی رات بن کے آتی ہے
دیارِ شر میں قیامت بدلتی رہتی ہے
وصال دیر تلک ایک سا نہیں رہتا
کہ اِ س شراب کی لذت بدلتی رہتی ہے
گِلہ نہیں مجھے قسمت سے اس لیے بھی شاذ
میں جانتا ہوں کہ قسمت بدلتی رہتی ہے
شجاع شاذ