آپ کا سلاماختصاریئےاردو تحاریرانور علی

غزہ کی پکار

خون آلود راستوں پر چلتے مظلوم مسلمان

دنیا کی اس بے حس خاموشی میں، جہاں انسانیت کی روح بھی کانپ رہی ہے، غزہ کی زمین پر معصوم لاشیں، خون میں لتھڑے ہوئے کھلونے، اور ایک ماں کے بچھڑنے پر روتا ہوا بچہ، دل کی ہر دھڑکن کو زخمی کرتا ہے۔ آج غزہ نہ صرف جنگ کا میدان ہے، بلکہ انسانیت کے امتحان کا بھی مرکز ہے۔ تاریخ جب فرعون کو دیکھتی ہے تو اسے اپنی طاقت پر غرور تھا، مگر اللہ نے اس غرور کو ایک ہی لہر سے غرق کر دیا۔ جب ابو لہب نے اپنی زبان سے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کی، تو قرآن نے اس کے ہاتھ توڑ دیے اور اسے ہمیشہ کے لیے لعنت کا نشان بنا دیا۔ جب یزید نے اپنی سلطنت کے نشے میں امام حسین علیہ السلام پر ظلم کیا، تو کربلا میں خون بہایا گیا، مگر حق کا پرچم آج بھی بلند ہے۔ ظلم حسین کے جسم پر نیزوں سے ہوا، لیکن وقت نے ثابت کر دیا کہ قاتل کبھی سرخرو نہیں ہوئے۔

آج بھی غزہ کربلا بن چکا ہے، ہر گھر ایک خیمہ لگتا ہے، ہر ماں ایک زینب بن چکی ہے، اور ہر شہید ایک حسین بن چکا ہے، مگر دنیا خاموش ہے، جہاں زبانوں پر "انسانی حقوق” کے نعرے ہیں، مگر دلوں میں جذبہ نہیں۔ یہودی ظلم کی حد تک پہنچ چکے ہیں، کہ جب بم پھٹتا ہے تو انسانوں کے جسم کے ٹکڑے 200 میٹر تک ہوا میں اڑتے ہیں، اور صرف لوہا نہیں بلکہ گوشت، خون اور گوشت کی بارش ہوتی ہے۔ یہ منظر صرف ٹی وی پر نہیں، بلکہ ہر باضمیر دل کے سامنے گزر رہا ہے۔ میں روتا ہوں، میری دل ہر شہید بچے کی خاموش زبان پر نوحہ پڑھتی ہے، ان کی آنکھیں جو ہمیشہ کے لیے بند ہو گئیں، اور ہماری آنکھوں کے سامنے بے حسی کا کفن اوڑھ رہی ہیں۔ میں دنیا سے سوال کرتا ہوں، کیا ہمارے جذبات مردہ ہو چکے ہیں؟ کیا ہماری دعائیں بھی سیاسی ریکارڈز میں پھنس گئی ہیں؟ اللہ! تو سن، تو دیکھ، تو ہی قادر مطلق ہے، پھر کیوں نہیں آتا تیرا قہر ان ظالموں پر؟ اے ربِ قدیر، اے مظلوموں کے پناہ دہندہ، اے کربلا کے حسین کے پالنے والے، اے بیت المقدس کے راستوں پر سجدہ کرنے والے نبی کے خالق، ہمارے ہاتھ خالی ہیں، مگر دل خون کے آنسو رو رہے ہیں، ہمارے پاس تیر تلوار نہیں، مگر دعاؤں کی طاقت ہے، تو غزہ کے مظلوموں کی مدد کر، ان کے دلوں کو صبر دے، ان کے دشمنوں کو ذلت دے، اور ان کے شہیدوں کو جنت الفردوس میں مقام عطا کر، آمین۔ میں یہ بھی سوال کرتا ہوں کہ کیا ہمارے بچے صرف اس لیے شہید ہوتے رہیں گے کہ وہ مسلمان ہیں؟ کیا ان کا خون سستا ہے؟ اگر آج غزہ کی آواز دبا دی جائے، تو کل شام، کشمیر، یا کہیں اور کوئی نیا غزہ بن سکتا ہے۔ اس لیے آج کے درد کو صرف نوحہ نہیں، بلکہ حوصلہ بنانا ہوگا۔ یہ تحریک، یہ جدوجہد، صرف الفاظ سے نہیں بلکہ جذبات سے زندہ رہے گی، وقت کے ستمگروں کو سمجھانا ہوگا کہ غزہ کے ہر شہید کا خون تاریخ کے صفحات پر لکھا گیا ہے کہ ظلم کبھی بھی دائمی نہیں رہتا، حق ہر دور میں اپنا سر بلند رکھتا ہے۔ میں خاموش نہیں رہ سکتا، میری خاموشی بھی گناہ بن جائے گی، میں لکھتا رہوں گا، چیختا رہوں گا، اور غزہ کے معصوموں کے لیے دنیا کے کانوں تک آواز پہنچاتا رہوں گا، کیونکہ حق کے لیے لکھا ایک لفظ، ظلم کی بندوقوں سے بھی زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔

انور علی

انور علی

انور علی — عزم اور خدمت کا سفر انور علی کا تعلق لاڑکانہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں، خیر محمد آریجا تحصیل باقرانی سے ہے۔ بچپن سے ہی تعلیم کے لیے جدوجہد کی، جہاں وسائل کی کمی اور معاشرتی ناانصافیاں تھیں۔ علامہ اقبال کے فکر اور خودی کے تصور نے انہیں زندگی کا نیا مقصد دیا۔ آج، انور علی اپنے وسائل سے ایک تعلیمی فاؤنڈیشن چلا رہے ہیں، جو 275 غریب بچوں کو مفت تعلیم فراہم کر رہی ہے۔ ان کا خواب ہے کہ یہ بچے معاشرے کے قابل اور ذمہ دار فرد بنیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کا اصل مقصد دوسروں کے لیے جینا ہے، اور انہوں نے اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button