اردو نظم میں ثروت حسین نے ایک الگ جزیرہ دریافت کیا۔ اس نے اپنی کومل سجل نظموں سے اس جزیرے کو اتنا سجا سنوار دیا کہ نظم کے سمندر میں تیرتی ہوئی بادبانی کشتیوں کو دور سے اس کی کشش کھینچ لیتی ہے۔ اسرار اور حیرت میں ڈوبا ہوا یہ جزیرہ بہت لبھاتا ہے۔ تحیر کے سفر میں نظم کی ملائم گرفت دامن کھینچتی ہوئی چلی جاتی ہے۔ ہلکے دھند لکے میں بہت دلکش مناظر دکھائی دیتے ہیں،قاری کھو سا جاتا ہے۔
ثروت حسین کی نظم احساس کی سطح پر چلتی ہے وہ اتنی سبک رو نظم کہتا ہے کہ قاری معانی کے سنگ بہتا چلا جاتا ہے۔ اس کی نظم میں منظردر منظر ایک تحرک ہے جیسے ایک منظر کی انگلی تھامے دوسرا ۔۔۔ اور پھر تیسرا ۔ مناظر کی اس زنجیر میں معنی کی سیال رو چلتی ہے جو بصری تمثال سازی میں اپنا ظہور کرتی ہے۔ مناظر سے معانی خود بخود یوں ٹپک پڑتے ہیں جیسے بے ساختگی سے پھول کھل جائے۔ Medlay ریس میں ٹیم کا ایک کھلاڑی Baton دوسرے کو پکڑا دیتا ہے جو اسے لے کر بھاگ پڑتا ہے اور اگلے چکر میں تیسرا کھلاڑی Baton پکڑے بھاگ رہا ہوتا ہے و علیٰ ہٰذاالقیاس ! اسی طرح ثروت کی نظم میں احساس کی رو ایک امیج سے دوسرے امیج کو منتقل ہوتی ہے جیسے تتلی ایک پھول سے اڑ کر دوسرے پر بیٹھ جائے۔ ثروت حسین امیج اتنا مکمل بناتا ہے کہ احساس‘ خیال اور جذبے کی واضح ترسیل ہوجاتی ہے۔ ثروت کی نظم امیجری کی نادر مثال ہے۔
روئے زمین پر دریا سے زیادہ محبت کرنے والا کوئی نہیں
دریا اپنے سمندر کی طرف بہتا رہتا ہے
یہ سپردگی ہے
سپردگی بچپن ہے اور بچپن بہشت (ایک پل بنایا جا رہا ہے، آدھے سیارے پر)
دریا کے سمندر کی طرف بہاؤ کے بعد صرف بچپن کا ایک لفظ استعمال کر کے ثروت نے بچے کا ماں کی طرف بہاؤ واضح کر دیاہے۔بچے کی کامل سپردگی اور صغر سنی میں فی الحقیقت بہتے ہوئے جانااور ماں کی آغوش میں جا گرنا ایسے مظاہر ہیں جن کو دریا اور سمندر کے تلازمے میں واضح کیا گیا ہے۔
متحرک امیجری کی ایک اور مثال نظم’’ اتنے بہت سے رنگ‘‘ ہے جس میں منظر کے بعد منظر بدلتے جاتے ہیں اور نظم کی چھوٹی سی کائنات رنگوں سے بھر جاتی ہے۔
ثروت کی نظم معانی کے گنجلک نظام پر یقین رکھتی ہے یعنی Linear رہتے ہوئے معنی کے دائرے کو زیادہ پھیلائے بغیرمعنی کی گہرائی پر اپنا فوکس رکھتی ہے۔ شجرِ معنی کی جڑیں بہت گہری جاتی ہیں لیکن اوپر کھلا ہوا پھول سب سے پہلے توجہ کھینچتا ہے۔ اس کی نظم شعور کی رو میں بہتے ہوئے خون میں گھل جاتی ہے۔ اس کی نظم کو دیکھا جاسکتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہمیں چھو لیتی ہے۔ ساتھی بن جاتی ہے۔ زمان و مکان میں اس دھیرج سے چلتی ہے کہ ہم ساتھ ساتھ وقت اور جگہ میں سفر کرتے ہیں اور تھکتے بھی نہیں ۔ اس نے جدید نظم میں لطفِ سخن کا ایسا اہتمام کیا ہے کہ جس میں عجب اسرار ہے، عجب انبساط ہے اور عجب احساس!
ثروت حسین اپنی نظم میں زیادہ تر اضافت سے گریز کر تا ہے۔ پابند اور آزادنظم میں بھی لیکن نثری نظم میں تو علامتِ اضافت نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ وہ خصوصیت ہے جس سے ثروت نے اپنی نظم میں سادگی سے پرکاری پیدا کی ہے۔ پھر اس کی سادہ، سبک اور دلنشین زبان۔۔۔ حسنِ اظہار سے لبالب بھری ہوئی۔ نظم نثری ہو، آزاد یا پابند، وہ زبان کی دلکشی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا۔ الفاظ کے آہنگ، مناسبت اور تلازمہ کاری کو خیال میں رکھتے ہوئے مصرعے کے آگے مصرعہ رکھتا چلا جاتا ہے اور یوں بہاؤ کی ایک کیفیت وجود میں آتی ہے۔
ثروت حسین نے تلازمہ کی تخلیق میں خاص مہارت دکھائی ہے۔ تلازمہ اگر خام ہو تو خیال معلق ہو کر رہ جاتا ہے۔۔ ۔ آگے نہیں چلتا۔ کہیں ابہام کا خلا رہ جاتا ہے تو کہیں نامکمل، غیر واضح اور مختلف النوع تلازمے قاری کے ذہن میں الجھن پیدا کر دیتے ہیں۔ثروت کے ہاں ایسا نہیں ۔ اس کے تلازمے اتنے واضح اور مکمل ہیں کہ ابلاغ کا عمل متاثر نہیں ہوتا ۔ ندرت کی حامل تلازمہ کاری میں یہ وصف مشکل ہی سے دستیاب ہوتا ہے۔ اس نے الفاظ پر بھی اپنا تخلیقی ہنر آزمایا ہے۔ وہ نظمیہ آہنگ میں رچے ہوئے الفاظ وتراکیب تخلیق کرتا چلا جا تا ہے۔
کوہ یارا، کوہ یارا
دیکھ پچھم کے کنارے
چیختے رنگوں کا دھارا (وائی، آدھے سیارے پر)
کیا طنبور کہے
مٹی کے اندھیاؤ اندر
کیا طنبور کہے (کافی، آدھے سیارے پر)
کارونجھر سے اونٹوں والے آئے ہیں
جھونپڑیاں مہک اٹھیں
چا نور کی مانی سے
کٹورا بھریں
پانی سے (دو رویہ خوشیوں میں، آدھے سیارے پر)
برس گئیں
عجوبہ بارشیں برس گئیں
رنگ اور سنگ پر
برس گئیں
عجوبہ بارشیں برس گئیں (بارشیں، خاکدان)
مددگار مٹی، مدد گار مٹی کے سینے پہ بادل، ہری کھیتیوں کے سمندر جزیرے، جہاں تک نظر جائے اودے افق پر پرندے، شرابور قریے (مٹی، خاکدان)
ثروت کی نظم اپنی زمیں، اپنی مٹی سے اٹوٹ سمبندھ رکھتی ہے۔ اس کی نظموں میں مقامیت ہے اور بہت وابستہ مقامیت۔ اس کی فطرت اورمظاہرِ فطرت سے وابستگی بھی مقامی رنگ میں رنگی ہوئی۔
اردو کے کئی نظم نگار طرزِ احساس اور نظم سازی میں انگریزی طریقِ نظم سے متاثر نظر آتے ہیں (علامہ اقبال کی ابتدائی نظموں کے بارے میں سر عبدالقادر نے کہیں لکھا ہے کہ انگریزی خیالات اردو میں نظم کیے گئے ہیں)۔ اسی طرح کچھ شعرا ایسے بھی ہیں جو نظم کا Locale اٹھا کر سمندر پار لے جاتے ہیں۔ یہ شعرا والہانہ عقیدت سے قرونِ وُسطیٰ کے مسلم شاہی عہد میں رہ کر نظم کی تعمیر کرتے ہیں۔ محل، فصیل، کنیز، غلام، شاہ، نیزہ اور تیر ایسے الفاظ کے سہارے ایسی فضا بناتے ہیں جو ہمیں اپنے ارد گرد سے بیگانہ کرتی ہے۔ اس سے شاید کچھ شکوہِ لفظی تو پیدا ہو جاتا ہے لیکن شاعری اپنی مٹی سے کٹ جاتی ہے۔ شاعری مشرقِ وُسطیٰ، وسطی ایشیا اور موصل و بغداد کی گلیوں میں چلتی پھرتی رہتی ہے اور اپنی مٹی نظر کو ترستی رہتی ہے۔ اسی ذہنی فضا میں حملہ آور، ہیرو بن جاتے ہیں اور تاخت و تاراج کرنے والے رحمتہ اللہ علیہ۔ لیکن ثروت حسین اپنے منطقے سے ٹوٹ کر پیار کرتا ہے اور اسی خاک کو سُرمہء چشم بناتا ہے۔ (منطقہ ثروت کی شعری لغت کا اہم لفظ ہے)۔
اُس کی نظمیں قدیم سکھر، ایک دراوڑ نظم، نیلی لکیر، گیت کے ایک کنارے پر ، ایک انسان کی موت، پھر وہی آگ، دشوار دن کے کنارے، درخت میرے دوست اور بہت سی دوسری نظمیں مقامیت کے گہرے رنگ سے جھانکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ثروت کی قوسِ نظر میں عجیب وسعت ہے۔ وہ نہ صرف خود کو اس سیارے (زمین) کا ایک باسی سمجھتا ہے بلکہ دوسرے سیاروں کو بھی اپنی دنیا میں شامل کرتا ہے۔ یہ رویہ فوق الذکر شعرا سے یکسر مختلف ہے۔ ثروت اپنی آنکھ سے دور دور تک دیکھتا ہے لیکن عہدِ وُسطیٰ میں رہنے والے شاعر تو آنکھیں ادھار لے لیتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ ثروت اپنے کنارے پر کھڑے ہو کر سمندر میں دور تک دیکھتا ہے اپنے زاویے سے۔۔۔ اپنی مٹی کے زاویے سے لیکن متذکرہ بالا شعرا خود کو وہیں کہیں دیکھتے ہیں اور اپنی مٹی سے، ذہنی طور پر، الگ ہو جاتے ہیں۔ ثروت کی نگاہ میں ایک ایسی کشاد گی ہے جو حدِ نگاہ تک جاتی ہے۔
یہاں مضافات میں اس وقت
ٹھیک اس وقت
جب زمینی گھڑیا ں صبح کے ساڑھے سات بجا رہی ہیں
ایک پہیہ بنا یا جا رہا ہے
لکڑی کے تختوں کو گولائی دینامعمولی کام نہیں
اپنی وسط سے باہر پھوٹتی ہوئی روشنی! (یہاں مضافات میں، آدھے سیارے پر)
آدھا پیڑ خزاں کی زد میں، جس پر پھول نہ پات
آدھے سیارے پر سورج، آدھے پر برسات (آدھے سیارے پر)
اس طرح کی نظمیں کہتے ہوئے ثروت کا متخیلہ اور لا شعور مل جل کر ایسا فضا بندی کرتے ہیں کہ تلازمہء خیال بصری تمثال میں اجاگر ہو جاتا ہے۔
ثروت کے ہاں سماجی شعور ایک بلند درجہ جمالیات اور پختہ فکر کے سانچے میں ڈھل کے آتا ہے۔وہ حساس، با شعور اور تیز نگاہ شاعر کی طرح عصری، سیاسی اور سماجی صورتحال کو پرکھتا اور اس کا شاعرانہ اظہار کرتا ہے۔
دارالحکومت میں
ایک ڈکٹیٹر جماہی لیتا ہے
وہ اونگھنا چاہتا ہے
جوابی انقلاب سے کچھ پہلے تک
وہ اونگھنا جاہتا ہے
مخیر عوام!
اُسے مہلت دو (ماندگی کا وقفہ، خاکدان)
آخری سطروں میں طنز کی کاٹ ہمارے سماجی رویّوں کی سرجری کر کے رکھ دیتی ہے۔
آگ۔۔۔۔
نان پز کے ہاتھ مت جلا
ظالموں کی کھیتیوں میں پھیل جا (آگ مجھ کو سبز کر، خاکدان)
اُس کی نظم ’’پکاسو کے مسخرے‘‘ سماج کی زور آور قوّتوں کے ہاتھوں تقدیر کے نام پر مجبور بنائے گئے عام انسانوں کا نوحہ ہے ۔ اسی طرح نظم’’ میں ایک آدمی کی موت مرنا چاہتا ہوں ‘‘ بہت واضح اور نکھرے ہوئے سماجی شعور کی حامل ہے۔ اس شاندار نظم کی صرف دو لائنیں دیکھیئے۔
میں ایک لڑکے کو جانتا ہوں جس کی انگلیاں قالین پر پھول کاڑھتی ہیں
اور قالین سے اڑنے والا اُون اُس کے پھیپھڑوں پر پھول کاڑھتا ہے۔۔۔۔
میں دکھی ہوں اُس مریض کے لیے جس کی بیل گاڑی اسپتال کے
دروازے تک نہیں پہنچ پائے گی۔ میں دکھی ہوں اس عورت کے لیے جو اس بیل گاڑی کو جاتا ہوا دیکھتی ہے!
ثروت حسین کی شاعری میں جا بجا اُس کا تاریخی، ثقافتی، کائناتی اور سماجی شعور متاثر کرتا ہے۔ یہ شعور مکمل طور پر شاعری میں حل ہو کر آتا ہے اور قطعاً سطح پر نہیں تیرتا۔ اُس کے ہاں معنی کی کئی سطحیں چلتی ہیں جو ذرا غور کرنے پر ہی کھلتی ہیں اور ثروت کے فکری قرینے سے آشنا کرتی ہیں۔ اُس نے عام سی لفظیا ت میں عام مناظر بیان کر کے سطح در سطح معانی تخلیق کیے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ بو قلمون اور گو ناگوں معنی برآمد کرنے کے لیے سادگی بھی بروئے کار لائی جا سکتی ہے۔
ثروت حسین نے اپنے پیش رو نظم گوؤں سے ہٹ کر اپنے لیے ایک خاص اسلوب چنا جو نظم میں رچاؤ، گھلاوٹ اور حُسن کاری کے ساتھ ساتھ رفعتِ فکر کا علم بردار بھی ٹھہرا۔ اُس کی نظم فکر، جذبہ، احساس، امیج اور حسنِ شعری کا حسین و نادر مرقع ہے۔
آخر میں ثروت حسین کی ایک مختصر شاہکار نظم ملاحظہ کیجئے۔ اس میں قدیم یونانی فلسفی تھیلز (Thales ) کے قول ’’زندگی پانی سے پیدا ہوئی‘‘ اور قدیم ہندی دیو مالا کے الفاظ ’’سب سے پہلے مچھ اوتار تھا، پھر کچھ اوتار۔۔۔۔۔‘‘ کو دیکھیئے اور بعد میں’’ہم نے ہر چیز کو پانی سے زندہ کیا‘‘ (القرآن) تک آیئے اور پھر جدید سائنسی نظریہ برائے ابتدائے حیات کو ذہن میں رکھئے جس کے مطابق اوّلیں جاندار نامیاتی مواد سے بھرے سمندر میں پیدا ہوا۔نظم میں شاعری کا حسن بھی دیکھئے اور کُرّوں کی تخلیق کا منظر بھی۔
مری موجودگی کا پھول پانی پر کھلا ہے ، سلطنت
صبحِ بہاراں کی بہت نزدیک سے آواز دیتی ہے
سبک رفتار ، پیہم گھومتے پہیئے گراں خوابی سے
جاگے آفتابی پیرہن کا گھیر دیواروں کو چھوتا
پیار کرتا رقص فرماتا
ارے سورج نکل آیا!
(موجودگی کا پھول، خاکدان)
شہزاد نیرّ