اردو تحاریراردو سفر نامے

رنگِ سوات

ایک اردو سفرنامہ از فاطمہ شیروانی

 

رنگِ سوات(سفرنامہ)

تحریر:فاطمہ شیروانی

پہلا خواب

یہ کوئی پہلی بار تو نہیں ہوا تھا میں تو اکثر خوابوں میں پہاڑوں کی ساتھ ہمکلام ہوتی ہوں۔مگر اب کی بار یہ سلسلہ تھوڑا عجیب تھا۔اب اکیلے پہاڑ مجھ سی ملنے نہیں آتی تھے۔اب دریاوں کی گیت بھی سُنائی دینے لگی تھے۔دریاوں کی ساتھ جُڑی پتھر وں پر میں اپنے قدموں کی نشان دیکھنے لگی تھے۔چشموں اور آبشاروں کی رنگوں سی میرا وجود رنگنے لگا تھا۔میں ان پتھروں پر چلتی تھے۔میں بادلوں کی سنگ اُڑتی ہوئی پہاڑوں کی بلندیوں کو چھونے لگتی تھے ۔مجھے جھیلیں اپنے پاس بُلاتی تھےں ۔اس سی پہلی کہ میں ان جھیلوں کی خوشبووں سی اپنے وجود کو بھر لیتی ۔میری آنکھ کُھل جاتی تھے۔شروع کی چند دن تو میں ان خوابوں کو نظرانداز کرتی رہی مگر اب یہ سلسلہ طویل ہونے لگا تھا ۔مجھے سمجھ نہیں آتی تھے کہ آخر یہ پہاڑ مجھ سی کیا کہنا چاہتی ہیں۔اس سی پہلی کہ پہاڑوں کی قافلی مجھے مزید پریشان کرتی کہ ایک روز علی بھائی کا فون آگیا ۔جو خبر علی بھائی نے مجھے سُنائی ۔اُسی سُن کر مجھے یوں لگا کہ جیسی پہاڑ میری سامنے کھڑی مُسکرانے لگی ہوں۔میری خوابوں کو تعبیر ملنے لگی تھے۔پہاڑ مجھے کتنے ہی دنوں سی آواز دی رہی تھے۔مجھے ان آوازوں پر لبیک کہنا ہی تھا۔کب جانا تھا کیسی جانا تھا ۔یہ ایک الگ بحث تھے۔بس مجھے پہاڑوں پر جانا تھا۔مجھے اُن سی ملنا تھا۔اُن راستوں کو اپنا ہمراز بنانا تھا۔اُن دنوں گرمی بھی اپنے عروج پر تھے۔یوں لگتا تھا کہ جیسی سورج ایک ہی بار اپنے اندر کی ساری آگ زمین کی حوالی کر دینا چاہتا تھا۔زمین پر سانس لینے والی تمام تر مخلوق اس آگ کی شدت سی کُملا کر رہ گئی تھے۔ایسی میں ٹھنڈی ہواوں کی دیس چلنے کی خبر نے دل کو خوشی سی بھر دیا تھا۔مگر یہ سب اتنا آسان تھوڑی تھا۔ابھی بہت کچھ کرنا تھا۔رمضان اختتام کی قریب تھا۔عید کی آمد آمد تھے مگر مجھے عید سی زیادہ خوشی پہاڑوں سی ملنے کی تھے۔دل تو تھا کہ عید ختم ہوتی ہی پہاڑوں کی پاس پہنچ جائیں۔مگر یہ ممکن نہیں تھا۔پہاڑوں کی سرگوشیاں صرف میری وجود نے تو نہیں سُننے تھےں۔میری ساتھ کچھ اور دیوانوں نے بھی ان پہاڑوں کو اپنا ہمراز بنانا تھا۔ہم سب نے مل کر ان آبشاروں پر پانےوں کا رنگوں بھرا رقص دیکھنا تھا۔اس لئی وقت کا انتخاب بھی سوچ سمجھ کر کرنا تھا۔میں بہت خوش تھے مگر اب عجیب بات یہ ہوئی تھے کہ پہاڑوں نے میری خوابوں پر دستک دینے چھوڑ دی تھے۔اب نہ وہ دریاوں کی گیت تھے،نہ ہی جھیلیں مسکراتی تھےں اور نہ ہی آبشاروں اور چشموں کا شور سُنائی دیتا تھا۔ایک عجیب سی خاموشی تھے۔اور اب اس خاموشی سی مجھے خوف آنے لگا تھا۔مجھے جانا تھا اور ہر صورت ان پہاڑوں سی ملنا تھا۔یہی میرا خواب تھا۔اور مجھے ہر صورت اپنے خواب کی تعبیر پانے تھے۔

کمراٹ یا پھر سوات

؛فاطمہ،کمراٹ کا ارادہ بن رہا ہی:

علی بھائی فون پر اپنے مخصوص انداز میں مجھ سی مخاطب تھے۔

:جی،بہت خوبصورت جگہ ہی۔۔میں ہوٹلز کی تفصیلات معلوم کرتی ہوں:

یہ کہہ کر میں علی بھائی سی ٹور کی دیگر تفصیلات معلوم کرنے لگی۔

ایم ایم علی جنہیں ہم سب علی بھائی کہتی ہیں۔ہماری تنظیم(اپووا) آل پاکستان رائٹرز ویلفئر ایسوسیشن کی سنےرنائب صدر ہیں۔لکھاریوں سی وابستہ یہ تنظیم جہاں لکھاریوں کی فلاح کی لئی دیگر کام کرتی رہتی ہی۔وہیں اُن کی لئی مختلف تفریحی ٹورز کا اہتمام بھی کرتی رہتی ہی۔کمراٹ سی پہلی ہم تین ٹورز کر چکی تھے۔اس لئی مطمعن تھے کہ اب کی بار بھی ایک زبردست ٹور کرکی ہی واپس آئیں گی۔

کمراٹ پھولوں سی بھری اک وادی ہی۔جہاں پر رنگوں،پھولوں اور خوشبووں کی علاوہ کچھ نہیں ہی۔کچھ سال پہلی چند دوستوں کی ساتھ کمراٹ جانے کا ارادہ بنا تھا۔مگر ہم وہاں نہیں جا سکی۔یہ پہاڑوں پر بھی نصیب والی ہی جاتی ہیں۔ہر ایک کی قسمت میں پہاڑوں کا ساتھ تھوڑی لکھا ہوتا ہی۔اب جو علی بھائی نے کمراٹ کا نام لیا تو محمد سجاد سی رابطہ کیا۔محمد سجاد لکھاری ہیں،اپووا کی ممبر ہیں۔کمراٹ سی میرا پہلا تعارف انہوں نے ہی کروایا تھا۔محمد سجاد نے مجھے اس علاقی کی دیگر تفصیلات فراہم کئیں۔علی بھائی سی بات کرکی میں مطمعن ہو گئی تھے کہ ہم کمراٹ ہی چلیں گی مگر دور کھڑی کمراٹ کی پہاڑ وں کا رُخ میری طرف نہیں تھا۔وہ میری قریب آنے سی کترا رہی تھے۔میں آنے والی وقت سی بی خبر کمراٹ کی راستوں پر اپنے خواب رکھنے لگی تھے۔میری یہ خواب ان راستوں میں آگی بڑھتی ہی نہیں تھے۔میں کمراٹ کی ساری پھولوں کو چھو لینا چاہتی تھے ۔مگر ان پھولوں نے اپنا رستہ ہی بدل لیا تھا۔میں اپنے ٹیم کی ساتھ کمراٹ کی خوابوں کا ذکر کرنا چاہتی تھے مگر اس کی نوبت ہی نہیں آئی کیونکہ میری خوابوں نے اپنا رستہ بدل لیا تھا۔اور کیوں نہ بدلتی تین سال سی میرا عشق مجھے بلا رہا تھا۔مہوڈند جہاں جانے کی ارادی جانے کتنے سالوں سی بن رہی تھے اور اب علی بھائی نے خود ہی سوات کا نام لی دیا۔سوات وہ جگہ ہی جہاں جانے کا ارادہ بہت بار بنا تھا مگر ہر بار ہم سوات چھوڑ کر دوسری علاقوں کی طرف نکل جاتی تھے۔اب کی بار ایسا نہیں ہونا تھا کیونکہ سوات کی پہاڑوں نے ہماری طرف دیکھ لیا تھا۔سوات کی آسمانوں پر ہمارا نام لکھا گیا تھا۔اب ہم نے سوات ہی جانا تھا کیونکہ ان راستوں نے ہماری خوابوں پر اپنے نام لکھنے شروع کر دئیی تھے۔

آوارگی کا آغاز

:ہم سوات جا رہی ہیں:

میں نے گروپ میں میسج کر دیا تھا۔اب مجھے بہت کچھ کرنا تھا۔پچھلی ٹورز ہم تھوڑی قریب کی جگہوں پر لی کر گئی تھے مگر اب کی بار جس علاقی کا

انتخاب کیا گیا تھا ۔وہ نہ صرف بہت دور تھا بلکہ ہماری ٹور کا دورانےہ بھی تھوڑا طویل تھا۔سوات کا نام ذہن میں آتی ہی سب سی پہلی مجھے بلال عالم کا خیال ہی آیا تھا۔تین سال پہلی جب سوات اور مہوڈنڈ کی خواب اپنے تعبیریں ڈھونڈنے نکلی تھے۔تب بلال عالم نے ہی سوات کی راستوں کو ہماری آنے کی خبر دی تھے ۔یہ اور بات ہی کہ خوابوں کی تعبیر کا وقت وہ نہیں تھا۔اب جب وقت آیا تھا تو وہ دوست ساتھ نہیں تھے۔اب نئی مسافروں کی ساتھ ان راستوں کو کھوجنا تھا۔بلال عالم ایک صحافی ہیں۔سوات سی تعلق رکھتی ہیں۔میری ان سی جب بھی بات ہوئی ہی ۔انہوں نے ہمیشہ بہتر انداز میں رہنمائی کی ہی۔یہی وجہ تھے کہ رہائش کی انتظامات میں زیادہ دقت نہیں ہوئی۔اس سلسلی میں بلال عالم کی بہت مشکور ہوں۔رہائش کی ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ کی انتظامات کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں تھا۔یہ شعبہ علی بھائی نے اپنے ذمی لی لیا تھا۔اور نہایت کم بجٹ میں ہمیں بہترین ٹرانسپورٹ کی نوید سنا دی تھے۔اب کافی حد تک انتظامات مکمل ہو چکی تھے۔کہ ایک روز علی بھائی کا فون آیا۔

؛فاطمہ،وہ گاڑی والی سی میری بات ہوئی ہی،وہ کہہ رہا ہی کالام کی روڈ تو بہت خراب ہی۔آپ لوگ کشمیر چلی جاو ¾۔اتنے ہی بجٹ میں آپ لوگ سوات سی زیادہ خوبصورت جگہ چلی جاو گی؛

علی بھائی کی یہ بات سن کر میں بہت حیران ہوئی۔

:مگراب تو ہوٹلز کی بکنگ بھی ہو چکی ہی:

میں نے حیران کن لہجی میں کہا۔

علی بھائی نے جب کالام کی روڈ کی ساری تفصیلات بتائیں۔تو مجھے بھی ماننا ہی پڑا کہ وہاں جا کر ہم راستوں میں ہی کھو کر رہ جائیں گی۔ویسی بھی اگر مہوڈنڈ میرا عشق ہی تو رتی گلی جھیل سی بھی مجھے کم محبت نہیں ہی۔اس لئی میں نے اپنے خوابوں کا رخ کشمیر کی طرف موڑ لیا۔اب مجھے باقی ممبرز سی بات کرنے تھے۔میں جانتی تھے کہ ممبرز اعتراض کریں گی مگر مجھے لگتا تھا کہ میں اُنہیں سمجھا لوں گی ۔مگر میں غلط سوچ رہی تھے اور دور کھڑی سوات کی پہاڑ بھی مسکراتی ہوی میری طرف دیکھ رہی تھے کیونکہ سوات کی آسمانوں پر ہمارا نام لکھا گیا تھا اور اب تو یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ ہم سوات کی علاوہ کہیں اور چلی جاتی۔سو ممبرز نے جگہ کی تبدیلی پر خوب شور مچایا۔ایسی میں اچانک سی علی بھائی کا ایکسیڈنٹ بھی ہو گیا۔بہت کچھ ایسا ہوا جس سی یہ لگا کہ ہم نہیں جا پایئں گی مگر ہم کیسی نہ جاتی،ہم تو پہاڑوں کی مہمان بننے جا رہی تھے۔سوات کی ساری رنگ ہماری منتظر تھے۔ہمیں ان رنگوں میں بھیگنا تھا۔جولائی کی ایک حبس بھری رات میں ہماری آوارگی کا آغاز ہو گیا تھا۔

کوٹ مومن کی شہزادی

؛کوٹ مومن آنے میں اور کتنا وقت رہ گیا ہی:

میں نے زاہد بھائی سی پوچھا۔حافظ زاہد نہایت عمدہ لکھاری ہونے کی ساتھ ساتھ اپووا کی ممبر بھی ہیں۔ڈرائیور کی ساتھ والی نشست انہوں نے سنبھالی ہوئی تھے اور ہماری چہروں پر مُسکراہٹیں بکھیرنا بھی انہی کا خاصہ تھا۔ہماری گروپ میں زیادہ تر نوجوان لکھاری ہی تھے۔مگر ابھی ہمارا گروپ ادھورا تھا۔ابھی ایک شہزادی کی ہم منتظر تھے۔کوٹ مومن سی ہم نے اس شہزادی کو اپنے ساتھ شامل کرنا تھا۔مگر کوٹ مومن آنے میں ابھی کچھ وقت تھا اور زاہد بھائی نے بھی مجھے اشاری سی بتا دیا تھا کہ ابھی ایک گھنٹہ ہی۔میری ساتھ والی نشست پر ریحانہ عثمانے بیٹھی تھےں۔ریحانہ آپا ہماری سب سی سنئیر ممبر ہیں۔ریڈیو پاکستان سی کئی سالوں سی وابستہ ہیں ۔ شاعری بھی کرتی ہیں اور کیا کمال کی شاعری کرتی ہیں۔مگر اس وقت وہ خاموش تھےں اور جاتی ہوی لاہور کی خوبصورتی دیکھ رہی تھےں۔میری پیچھی والی سیٹ پر میری لاڈو رانے مہوش احسن بیٹھی تھے۔مہوش شاعرہ،کالم نگار تو ہی ہی مگر اس کی سب سی خوبی اس کا باادب ہونا ہی۔یہ میری اتنے عزت کرتی ہی کہ کبھی کبھی مجھے بہت شرمندگی ہونے لگتی ہی۔یہ سفر مہوش کی لئی بہت خاص تھا کیونکہ وہ یہ سفر اپنے ہمسفر احسن کی ساتھ کر رہی تھے۔سوات کی حسین راستی ہوں اور آپ کی محبت آپ کی ساتھ ہو۔اس سی زیادہ خوبصورت زندگی نہیں ہو سکتی۔مہوش کی ساتھ اپووا کی ہارر سپرسٹار فلک زاہد اپنے مخصوص انداز کی ساتھ کسی گہری سوچ میں گم تھے۔ہماری ساتھ اس سفر میں دو ٹایئگر گرلز بھی ہماری ساتھ تھےں۔حفظہ اور علینہ۔علینہ کو میں اس سفر سی پہلی بہت کم جانتی تھے مگر سوات کی ان راستوں نے مجھے جس علینہ سی ملوایا وہ بہت خوبصورت ہی ۔جو لمحوں میں میری دل کی قریب ہو گئی۔اس کی علاوہ ہماری جتنے ممبرز تھے سب کا ذکر میں ساتھ ساتھ کرتی رہوں گی۔مگر مجھے تو نایاب جیلانے کا انتظار تھا۔نجانے کوٹ مومن کیوں نہیں آ رہا۔وہ لڑکی جس کی منظرکشی سی مجھے عشق ہی۔جس کی لفظ مجھے باندھ لیتی ہیں۔اس کی ساتھ سفر کتنا خوبصورت ہو گا۔یہ سوچ کر ہی میں مسکرا اُٹھی۔

:لو جی،کوٹ مومن آ گیا۔:

علی بھائی کی کہتی ساتھ ہی ہماری کوسٹر رک گئی تھے۔ایک عجیب سی خوشبو ہماری راہوں میں آ کر بیٹھ گئی تھے۔مہوش اور فلک نےچی اُتر چکی تھےں۔میں منتظر تھے کہ کوٹ مومن کی شہزادی اب ہماری ہمسفر بنے۔

؛فاطمہ،آپ بھی اُتریں،آپ کا نایاب سی پردہ ہی؛

علی بھائی نے مسکراتی ہوی کہا۔چاروناچار مجھے اُترنا ہی پڑا۔اُترتی ساتھ ہی مہوش اور فلک کی ساتھ مجھے ایک بہت پیاری سی لڑکی نظر آئی۔جس کی ساتھ ایک چھوٹی سی گڑیا اجنبی نظروں سی سب کی طرف دیکھ رہی تھے۔نایاب آگی بڑھ کر مجھ سی ملیں اور یوں میری ساری جھجھک جاتی رہی۔شہزادیاں کبھی خالی ہاتھ نہیں آتیں۔سو ہماری یہ شہزادی بھی خالی ہاتھ نہیں آئی تھے۔اپنے ساتھ آم اور کولڈ ڈرنکس لائی تھے۔مسافروں کی پیاس بجھانے کا انتظام کرکی آئی تھے۔نایاب کی خوشبو ہماری ہمسفر تھے۔نایاب میری ساتھ والی چھوٹی سی سیٹ پر بیٹھ چکی تھےں۔ایک لمحی کو خیال آیا کہ نشست تبدیل کر لوں۔اتنے سنےر لکھاری کی شیانِ شان اتنے چھوٹی سیٹ۔۔۔۔نہیں یار۔۔۔میں ان سی بات کرتی ہوں۔۔۔مگر بات کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔نایاب کی آتی ساتھ ہی ہماری مشاعری کا آغاز ہو گیا۔سب اپنے اپنے انداز میں نظمیں،غزلیں سنا رہی تھے۔ماحول میں شوخی اور شرارت کی رنگ نمایاں ہو گئی تھے۔میں نے کھڑکی سی باہر دیکھا۔سوات کی پہاڑ وں کی ساتھ ساتھ مہوڈنڈ میری طرف مسکرا کر دیکھ رہی تھے۔میں ان رنگوں میں کھو گئی تھے۔میں نے بس کی مسافروں کی طرف نگاہ کی۔ہماری شہزادی سمیت مسافروں کی اکژیت نےندوں کی سفر پر گامزن تھے۔مگر نےند میری آنکھوں سی کوسوں دور تھے۔مجھے پہاڑوں سی ملنا تھا اور ان خوبصورت مناظر نے مجھے سونے کب دینا تھا۔

ہم واپس جا رہی ہیں

:فاطمہ،ایک پریشانے کی بات ہی:

یہ جملہ سنتی ہی میں نے چونک کر زاہد بھائی کی طرف دیکھا جو اچھی خاصی پریشان نظر آ رہی تھے۔میں جو آڑو کی باغ میں آڑو توڑنے میں مصروف تھے۔میرا ارادہ تھا کہ کم از کم آڑو کا ایک تھےلا تو بھر لیا جای۔یہ باغات کا سلسلہ سوات شہر میں داخل ہوتی ہی شروع ہو جاتا ہی۔ابھی ہم نے ناشتہ نہیں کیا تھا۔ارادہ تھا کہ کچھ دیر اس باغ میں گزارنے کی بعد پھر ناشتہ کی لئی کسی ہوٹل کا رخ کیا جای۔

:کیسی پریشانے: میں نے آڑو کھاتی ہوی سامنے دیکھا۔ہماری ممبرز کی اکژیت آڑووں کی ساتھ سلفیاں لینے میں مصروف تھے۔پھٹان لوگ حیرت سی دیکھ رہی تھے کہ یہ کون لوگ ہیں جو آڑو کو محبوبہ کی طرح سینے سی لگا لگا کر تصویریں بنوا رہی ہیں۔اب انہیں کیا خبر کہ ہماری دنےا میں کیا کیا نہیں ہوتا۔

:ہماری سپانسرز نے ہمیں دھوکہ دی دیا ہی۔۔۔۔ہم آج ہی لاہور واپس جا رہی ہیں:

ایک نہایت ہی کڑوا جملہ میری سماعتوں سی ٹکرایا تھا۔سوات کی آڑو اچانک سی بہت کڑوی لگنے لگی تھے۔

:کیا مطلب۔۔۔۔میں سمجھے نہیں:

میں نے حیرت سی پوچھا۔مجھے سمجھ ہی نہیں آ رہی تھے کہ زا ہد بھائی کیا کہہ رہی ہیں کیونکہ جو بھی تھا میری لئی تو ناقابل یقین تھا۔جواب میں زاہد بھائی نے جو کچھ مجھے بتایا اُس کی لئی پریشانے بہت چھوٹا لفظ تھا۔ مخٹصر یہ کہ ہماری ٹرانسپورٹرز نے اچانک سی ہماری مطلوبہ روٹس پر آگی لی جانے سی انکار کر دیا تھا۔مگر مجھے زیادہ غصہ زاہد بھائی پر آ رہا تھا جو اتنے جلدی ہار مان گئی تھے اور واپس جانے کی بات کر رہی تھے۔

:نہیں،نہیں ۔۔۔۔۔واپس نہیں جانا۔۔۔:

:واپس جانے کی لئی تھوڑی آی ہیں:

ایسی ہی نجانے کتنے ہی سوچییں میری دماغ میں گردش کر رہی تھےں۔مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔نہ سوات کی رنگ،نہ خوشبو،نہ پیڑ نہ پودی۔۔۔سب بی وفا لگ رہی تھے۔ابھی تو سوات شہر کی خوشبو سی ہم سب آشنا ہوی تھے۔تمام ممبرز کچھ ہی دیر میں ناشتہ کی لئی ایک دیسی ڈھابہ ہوٹل میں موجود تھے۔اور ممبرز کی سرگوشیاں بتا رہی تھےں کہ یہ راز اب راز نہیں رہا۔تمام ممبرز اس سی آگاہ ہو چکی ہیں۔

:فاطمہ،میری علی بھائی سی بات ہوئی ہی۔۔۔ہم مینج کر لیں گی:

یہ خوشبووں جیسا جملہ بولنے والی ہستی علینہ کی تھے۔میں نے مسکرا کر اپنے اس ٹائیگر دوست کی طرف دیکھا جو اس لمحی مجھے اس شہر محبت کی کسی پھول کی مانند ہی لگی تھے۔

تھوڑی ہی دیر میں ہم دریای سوات دیکھنے کی لئی گاڑی میں بیٹھ چکی تھے۔ایک بار پھر سی سوات کی خوبصورتی نے مجھے اپنے حصار میں لی لیا تھا گو کہ ابھی سوات کی اصل رنگ شروع نہیں ہوی تھے۔ابھی گرمی تھے،ہواوں کی سرگوشیوں میں بھی ابھی کوئی نئی بات نہیں تھے مگر پھر بھی سب اچھا لگ رہا تھا۔ہماری بس میں ایک بار پھر سی میوزک کی زبان گونج رہی تھے۔میری ساتھ بیٹھی چھوٹی سی گڑیا ذوئی کی آواز بھی ان آوازوں میں شامل ہو چکی تھے۔دریای سوات کی پانےوں نے اپنے جھلک دکھانے شروع کر دی تھے۔سفر ایک بار پھر سوات کی رنگوں میں رنگ گیا تھا۔

راستہ بتا دو بھائی۔۔۔۔

:بھائی،یہ کالام کی طرف کون سی روڈ جاتی ہی:

ہمارا ڈرائیور مسلسل تیسری دفعہ ایک راہگیر سی راستہ پوچھ رہا تھا اور جواب میں راہ چلتی پٹھان نے جس سڑک کی طرف اشارہ کیا تھا۔اس کی بھی پچھلی روڈ کی طرح شائد کوئی منزل نہیں تھے۔ہم تقریباً ایک گھنٹی سی راستہ راستہ کھیل رہی تھے مگر کالام کی طرف جانے والی سڑک ہماری نظروں سی اوجھل تھے۔سوات میں آنے سی پہلی بہتر ہوگا کہ آپ ان راستوں کی متعلق معلومات حاصل کرکی آیئیں کیونکہ اس معاملی میں مقامی لوگوں پر انحصار کرنا سردرد کی علاوہ کچھ نہیں ہی۔ہمارا ڈرایﺅر بھی مقامی نہیں تھا۔ایسی راستوں پر بہتر ہوگا کہ آپ کسی مقامی گاڑی والی کو ہی ساتھ لی کر چلیں۔دو گھنٹی کی مسلسل جدوجہد کی بعد بالاآخر ہمیں کالام والی روڈ مل ہی گئی۔یہ وہی سڑک تھے جس پر ہم پہلی بھی آ چکی تھے ۔مگر تب یہ سڑک بھی ہماری ساتھ شرارت کی موڈ میں تھے۔کالام جانے والی سڑک اب ہماری رہنما تھے۔مجھے لگتا ہی کالام جانے والی سڑک کو سڑک کہنا اس روڈ کی توہین ہی۔یہ سڑک نہیں ہی یہ کوئی پتھروں کا شہر ہی۔ایک ایسا شہر جہاں ہر چیز پتھر کی ہی۔یہ کوئی معمولی پتھر نہیں ہیں۔ان پتھروں سی خوف چھلکتا ہی۔اس سڑک پر گاڑی جیسی جیسی آگی بڑھتی ہی اسی حساب سی خوف کی رفتار بھی تیز ہوتی چلی جاتی ہی۔مجھے اس سڑک کی طوالت سی اب سخت بیزاری ہونے لگی تھے۔کالام جانے والی یہ سڑک ابھی زیرتعمیر ہی جو خود تو تعمیر کی مرحلی سی گزر رہی ہی مگر مجھے لگتا ہی یہ اس روڈ پر چلنے والی مسافروں کو بھی اس تعمیر میں اپنے ساتھ شریک کرنا چاہتی ہی تبھی تو یہ مسافر اس سفر کی دوران گر گر کر سنبھلتی ہیں۔میں اپنے سوچوں میں گم تھے کہ اچانک مجھے سسکیوں کی آواز آنے لگی۔میں نے بی اختیار پیچھی مُڑ کر دیکھا ۔میری آنکھیں جو منظر دیکھ رہی تھےں وہ میری لئی تکلیف دہ ہونے کی ساتھ ساتھ ناقابل یقین تھا۔

؛نایاب ، آپ رو رہی ہیں۔۔۔۔:

میں نے حیرت اور دکھ کی ملی جلی جذبات سی کہا۔

نایاب نے بغیر کچھ کہی نم آنکھوں سی میری طرف دیکھا ۔ان آنکھوں میں آنسووں کی ساتھ ساتھ غصہ بھی تھا۔مجھے یوں لگا کہ جیسی وہ کہہ رہی ہو کہ نہیں میں فٹبال کھیل رہی ہوں،نظر نہیں آ رہا کہ میں رو رہی ہوں ۔مجھے روتی ہوی لوگوں کو چپ کروانا نہیں آتا۔مگر دل سی قریب دوستوں کی آنسو بہت تکلیف بھی دیتی ہیں۔نایاب کی ساتھ ساتھ اب ذوئی بھی رونے لگی تھے۔نایاب کالام کی پتھریلی راستوں کی طوالت دیکھ کر رو پڑئی تھےں۔میں نے بہت کوشش کی کہ آنسووں کو مزید بہنے سی روکوں مگر نایاب کی آنکھوں سی بہتی پانے کی رفتار اب بڑھنے لگی تھے۔اب ہماری گاڑی کا ماحول تھوڑا عجیب ہو گیا تھا۔کالام کی پتھریلی راستی تھے،نایاب کی آنسو تھے اور ہم سب مسافروں کی پاس تسلی اور دلاسی تھے۔ہم اپنے باتوں سی ان کی اندر حوصلہ بھر رہی تھے۔ہماری کوششیں رنگ لی آئی تھےں۔کوٹ مومن کی شہزادی کی چہری پر مسکراہٹ لوٹ آئی تھے ساتھ ہی ہماری گڑیا پھر سی چہکنے لگی تھے۔کالام کی پتھر بھی ہمیں دیکھ کر اب مسکرانے لگی تھے۔گاڑی میں ایک بار پھر سوات کی رنگوں نے بسیرا کر لیا تھا۔

مہوڈنڈ۔۔۔۔میرا عشق

چند سال پہلی جب دوستوں کی ساتھ سوات جانے کا ارادہ بنا تھا تو سوچا کہ فیس بک کی کور پر سوات کی کوئی تصویر لگائی جای۔اس مقصد کی لئی گوگل کی مدد حاصل کی اور گوگل پر تلاش کی دوران ایک تصویر پر نظر ٹہر گئی۔یہ ایک جھیل کی تصویر تھے۔جس کی ٹہری پانےوں میں ایک عجیب سی کشش تھے۔بلندو بالا پہاڑوں کی سای میں پناہ لیتی وہ جھیل کسی اپسرا کی خدوخال جیسی تھے۔جھیل کی پانےوں پر کبھی سبز تو کبھی آسمانے رنگ کا گمان ہوتا تھا۔جھیل کی اوپر دو کشتیاں اپنے سواروں کی منتظر خاموش کھڑی تھےں۔مجھے لگا جیسی وہ جھیل مجھے آواز دی رہی ہو۔میرا دل میری پاس کہاں رہا تھا۔وہ تو ان سبز پانےوں کی پاس ہی کہیں کھو گیا تھا۔میری آنکھیں تو بس اس ایک منظر کی متمنے تھےں۔میری وجود نے بس ایک بار ان پانےوں کو چھونے کی تمنا کی تھے۔وہ تصویر میری دل میں اُتر گئی تھے۔گوگل نے بتایا کہ اس جھیل کا نام مہوڈنڈ ہی۔اور یہ کالام سی چند گھنٹوں کی فاصلی پر ہی۔دوستوں کی ساتھ سوات تو نہیں جا سکی ارادہ یہی تھا کہ جب بھی سوات جاوں گی مہوڈنڈ سی ملی بغیر واپس نہیں لوٹوں گی۔اب جبکہ ہم کالام میں موجود تھے۔مہوڈنڈ ہم سی زیادہ دور نہیں تھے۔ایک رات کالام میں گزار کر صبح ہم نے مہوڈنڈ چلی جانا تھا۔مہوڈنڈ کی پانےوں سی کھیلنا تھا۔مہوڈنڈ کی خوشبو کو اپنے اندر اُتارنا تھا۔میرا عشق میرا مہوڈنڈ میرا منتظر تھا۔مگر وہ عشق ہی کیا جو آسانے سی مل جای۔کالام میں دریای سوات کی پانےوں سی اٹکھلیاں کرتی ہوی میں نایاب کو دبی لفظوں میں کئی بار مہوڈنڈ کی خوبصورتی بیان کر چکی تھے۔مگر نایاب نے وہاں جانے سی انکار کر دیا تھا۔میری خواہش تھے کہ نایاب بھی ہماری ساتھ چلی مگر کالام کی پتھریلی راستوں کا خوف ابھی تک اس کی اندر سی نہیں نکلا تھا۔پھر یہی طی ہوا کہ جو ممبرز مہوڈنڈ جانا چاہتی ہیں وہ صبح چلی جائیں۔باقی جو نہیں جانا چاہتی وہ ان کی واپسی تک کالام میں ہی رکیں گی۔میری اندر مایوسی پھیل رہی تھے۔مجھے لگ رہا تھا کہ ابھی تھوڑی دیر میں کچھ مزید لوگ بھی انکار کر دیں گی۔میرا عشق ادھورا رہ جای گا۔رات کو جب ہم کالام کی مشہور چپلی کباب کھانے بیٹھی تو مہوش نے بھی چلنے سی انکار کر دیا۔ناجانے کی مختلف وجوہات بیان کی جا رہی تھےں۔میں نے ایک نظر ان تمام فلسفیوں پر ڈالی جن کی دلیلیں سن کر کالام کی پہاڑ بھی مسکرا اُٹھی تھے۔کیا ان میں کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو یہ ساری دلیلیں رد کر کی کہتا کہ ہم کل ہر صورت مہوڈنڈ جا رہی ہیں۔یہ سوچ کر دل کو اور تکلیف ہوئی اور پھر اچانک سی ہی دل نے ایک فیصلہ بھی کر ڈالا۔

؛ہم مہوڈنڈ نہیں جا رہی۔۔۔۔بس اب کھانا کھا کر بازار کی طرف نکلتی ہیں؛

میں نے اونچی آواز میں کہا۔تھوڑی ہی دیر میں سب کالام کی مشہور چپلی کباب کھاتی ہوی باتوں میں مگن ہو گئی۔میری اندر کچھ ٹوٹا تھا۔مگر میں نے مسکراہٹ کا دامن نہیں چھوڑا۔کالام کی پہاڑوں کی پیچھی مہوڈنڈ جھیل میری طرف مسکرا کر دیکھ رہی تھے۔مہوڈنڈ سی ملنے کا وقت ابھی نہیں آیا تھا۔ادھوری خواب ،ادھورا عشق دونوں ہی بہت تکلیف دیتی ہیں۔۔۔۔کالام کی آسمان پر چاند کی ڈوبتی ساتھ ہی میری خوابوں کا سفر بھی تمام ہوا۔

جب موت ہماری قریب ہوئی

سوات کی اس سفر کی تمام مسافروں میں سی سب سی زیادہ عجیب شخصیت ہماری ڈرایﺅر کی تھے اور بلاشبہ اس کی ہمت دیکھ کر لگتا تھا کہ شائد یہ کوئی انسان نہیں ہی۔یہ ڈرایﺅر نہ سگریٹ سی شغف رکھتا تھا اور نہ موصوف چای کی شوقین تھے۔اٹھارہ سی بیس گھنٹی تک پہاڑی علاقوں میں مسلسل گاڑی بھگا نا کوئی آسان کام تھوڑی ہی۔ہم کالام سی نکلی تو ہمارا اگلا پڑاو ایک آبشار تھے۔سوات میں آپ کو جگہ جگہ آبشاریں اور چشمی نظر آیئں گی۔دریا کی ساتھ تو ہم نے دوستی کر لی تھے۔آبشار شفا تک جانے کی لئی ڈولی کا استعمال کیا جاتا ہی۔ڈولی چیرلفٹ کا کام دیتی ہی۔ایک ڈولی میں بیک وقت چار لوگ بیٹھ سکتی ہیں۔ڈولی میں پراعتماد انداز میں نایاب کو بیٹھتی دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اب کالام کا خوف ان کی اندر سی رخصت ہو چکا ہی اور اب بہادری سی ہی ان راستوں کو تسخیر کریں گی اور ایسا ہی ہوا تھا۔آبشار شفا کی باری میں کہا جاتا ہی کہ اس کا پانے ہر قسم کی بیماری میں شفا کا کام دیتا ہی۔ریحانہ آپا نے تو ایک بوتل بھر بھی لی تھے۔ریحانہ آپا ہم سب میں سب سی زیادہ سنےر تھےں۔یہ ہماری واحد ممبر تھےں جنہوں نے کوئی نماز نہیں چھوڑی تھے۔جمعی کا دن تھا جب ہم بحرین کی طرف جا رہی تھے کہ اچانک سی ہماری گاڑی کا توازن تھوڑا بگڑ گیا۔ہم جو گاڑی کی اندر مشاعرہ کرنے میں مصروف تھے۔اچانک سی خاموش ہو گئی۔

؛فاطمہ،گاڑی کا ایک ٹائر آدھی سی زیادہ نےچی ہی یار۔۔۔۔نےچی مت دیکھو؛

میری ساتھ بیٹھی علینہ نے ہلکی سی سرگوشی کی۔یہ سنتی ہی میرا وجود کانپ اُٹھا تھا۔میں نے باقی مسافروں کی طرف دیکھا۔تمام مسافر اب خاموش تھے۔خوف اب ہماری درمیان خاموشی سی آکر بیٹھ گیا تھا۔میں نے ریحانہ آپا کی طرف دیکھا۔انہوں نے کچھ دیر پہلی ہی گاڑی کی اندر ہی نماز ادا کی تھے۔میری ذہن میں آیا کہ ان کی نماز ہمیں بچا لی گی۔ہماری گاڑی کا توازن تھوڑا سنبھلنے لگا تھا۔باہر روڈ پر لوگوں کی اچھی خاصی تعداد ہمیں اس مشکل سی نکالنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔پھر ہماری دعایئں قبول ہو گئی تھےں۔باہر لوگوں نے نعرہ تکبیر کی صدا لگائی۔اندر بیٹھی مسافروں کی مسکراہٹیں بھی لوٹ آیئں تھےں۔زندگی بھی کتنے خوبصورت چیز ہی۔رب نے ہمیں مثکل سی نکال لیا تھا۔ایسی میں ڈرایﺅر کا یہ کہنا کہ اس کی ذہن میں خیال آیا تھا کہ وہ چھلانگ لگا لی مجھے بہت عجیب لگا۔یہ ڈرایﺅر اتنے ڈھیروں مسافروں کی رہنما ہوتی ہیں اور اگر آپ کا رہنما ہی مشکل وقت میں چھلانگ لگانے کا سوچنے لگی تو مسافروں کو مشکل سی کون نکالی گا۔ہماری منزل بحرین آنے میں ابھی کچھ وقت تھا اور گاڑی آگی لینڈسلایڈنگ کی وجہ سی ایک بار پھر رک گئی تھے۔

؛یہ گاڑی بند کیوں نہیں کر دیتی۔۔۔۔پیٹرول ضائع ہو رہا ہی:

یہ سیانے آواز ذوئی کی تھے۔اس نے ہر جگہ ثابت کیا تھا کہ یہ اپنے ماما سی زیادہ سیانے ہی۔

:اس لئی کہ جیسی ہی رش ختم ہو۔۔۔گاڑی کو فوراً نکال لیں:

میں نے اپنے طرف سی اسی مطمعن کرنے کی کوشش کی تھے۔

؛پھر پٹرول ضائع ہو گا۔۔۔۔پھر پیسی کم پڑ جائیں گی۔۔۔پھر بجٹ ڈسٹرب ہو جای گا:

ذوئی نے سر پر ہاتھ مار کر کہا۔میں خاموش ہو گئی۔میری پاس اس سیانے کی سوالوں کی جواب نہیں تھے۔کہہ تو ویسی سیانے ٹھیک ہی رہی تھے۔میں نے ایک لمحی کو سوچا اور پھر مسکرانے لگی۔کچھ ہی دیر میں ہم بحرین میں تھے۔دریا کی سای میں پناہ لیتا شہر بحرین۔۔۔۔جہاں سوات کی رنگ ایک نئی روپ میں ہماری منتظر تھے۔

چشمہ شفا کہاں پر ہی

؛مہوش تھک جاو گی،کچھ دیر رک جاو۔۔۔۔سانس لی لو؛

میں نے مہوش کا ہاتھ پکڑ کر اسی بیٹھا دیا۔ہم لوگ چشمہ شفا کی تلاش میں نکلی تھے۔ہمیں ہماری ہوٹل والی نے بتایا تھا کہ بحرین میں آپ گرم چشمہ یا پھر چشمہ شفا دیکھ لو،اچھی جگہ ہی اور قریب ہی ہی۔آپ کو اگر سوات میں کوئی مقامی یہ کہی کہ یہ جگہ قریب ہی ہی تو ہرگز اس کی باتوں میں نہ آئیں۔کیونکہ ان کی قریب اور ہماری قریب میں بہت فرق ہی۔بحرین میں ہمارا سٹی سٹار ہوٹل میں قیام تھا۔خیر ہم کچھ دیر سستانے کی بعدچشمی کی تلاش میں نکل پڑی۔یہ کافی زیادہ چڑھائی تھے۔جو ممبرز تیز چلتی تھے۔وہ آگی نکل گئی تھے۔میں اور مہوش سستانے کی لئی رک گئی تھے۔مہوش کی آگی اس کی دوست فلک اپنے بہن فضا کی قدم سی قدم ملا کر چل رہی تھے۔ہم سب نکلی تو ایک ساتھ تھے مگر اب بکھر گئی تھے۔

؛میم،آپ چلیں۔۔۔میں آ جاتی ہوں؛

مہوش نے پھولی ہوئی سانس کی ساتھ جواب دیا۔ابھی ہم دونوں اپنے سانسوں کو درست کر رہی تھے،کہ کچھ اور ممبرز بھی ہماری پاس آ گئی۔ایسی میں احسن مہوش کو توانائی بحال کرنے کی مختلف تکنےکس سمجھا رہا تھا۔مہوش اور احسن دونوں کو دیکھ کر لگتا تھا کہ دونوں ایک دوسری کی لئی ہی بنے ہیں۔ان دونوں کی ہلکی پھلکی نوک جھوک ان پرخطر راستوں کی تسخیر کی دوران بہت لطف دیتی تھے۔خیر ہم اس چشمی کی تلاش میں چلتی جا رہی تھے۔مجھے تو لگتا تھا کہ چلتی چلتی ہم دوبارہ کالام نہ پہنچ جائیں۔آخر ہماری بھی بس ہو گئی۔ہم ایک جگہ بیزار ہو کر بیٹھ گئی۔ہماری کچھ دوست اوپر ایک چوٹی پر چلی گئی۔اب جو نےچی بیٹھی تھے۔وہ سخت بیزار اور دوسری دوستوں سی ناراض بھی تھے۔

؛بیٹا،یہ آب شفا گرم چشمہ کس طرف ہی؛

میں نے ایک پٹھان لڑکی سی پوچھا۔

؛آبِ شفا چشمہ۔۔۔۔؛

لڑکی نے حیران کن نظروں سی ہماری طرف دیکھا،

؛ہاں،ہاں،وہی۔۔۔تمہیں کچھ معلوم ہی اس کی تلاش میں ہم بہت دیر سی نکلی ہوی ہیں؛

؛ٓاماری ساتھ آو؛

اس لڑکی کی کہنے پر ہم تھوڑا نےچی اُتری تو ایک چھوٹا سا تالاب نظر آیا۔وہ بھی گندی پانے کا جوہڑ ہی لگ رہا تھا۔

؛یہ آبِ شفا ہی؛

میں نے حیرت سی پوچھا۔مجھے لگا اس لڑکی سی کوئی غلطی ہوئی ہی۔وہ کسی غلط جگہ لی آیا ہی۔

:ہاں۔۔۔ہم سب اسی پیتا ہی۔۔۔:

اس سی پہلی کہ وہ اس گندی پانے کی گلاس بھر کر ہمیں پیش کرتا۔ہم سب نے وہاں سی واپسی میں ہی عافیت جانے۔۔۔۔چشمہ دیکھ کر ہم دریا کی طرف چلی گئی،جہاں ہم نے دریا کی کناری بیٹھ کر آم کھائی۔دریا کی کناری کچھ ناراض دوستوں کو منانے کا کام بھی کیا۔دریا کی کناری بیٹھ کر یوں لگتا ہی جیسی کچھ لمحوں کی لئی زندگی ٹہر سی گئی ہو۔دریا کی لہروں کا شور،ڈوبتا سورج اور کچھ دل سی قریب دوستوں کا ساتھ۔۔۔۔۔۔زندگی کتنے مکمل ہی مگر ہم نجانے کیا کچھ پانے کی دوڑ میں مکمل زندگی کو خود سی دور کر لیتی ہیں۔۔۔۔کتنے ناشکری ہیں ہم۔۔۔رات کو بہت دیر تک میں،نایاب اور علینہ بحرین کی بازاروں میں گھومتی رہی۔ہم نے آپس میں تحائف کا تبادلہ بھی کیا۔سوات کی اس سفر نے مجھے دو دوستوں سی ملوا دیا اور بلاشبہ دوستی ایک انمول رشتہ ہی۔ہم تمام وقت اسی رشتی کی پھوار میں بھیگتی رہی۔

گبن جبہ یا بھول بھلیاں

اگلی روز ہمارا پڑاو گبن جبہ تھا۔ہمارا گوگل آگی بیٹھا تھا۔علینہ نے اس پوری سفر میں گائیڈ کا کام کیا۔اسی لئی اُسی ہم نے گوگل کا خطاب دی دیا تھا۔اب ہم بحرین سی گبن جبہ کی طرف جا رہی تھے۔گبن جبہ کی باری میں مجھے نکلنے سی کچھ دن پہلی ہی کسی نے بتایا تھا۔گبن جبہ کی تصویریں دیکھ کر کسی نخلستان کا گمان ہوتا تھا ۔ایسی جگہ جہاں حدِ نظر سبزہ ہی سبزہ ہو۔ہمارا خیال تھا کہ ہم چند گھنٹوں میں گبن جبہ پہنچ جایئں گی۔مجھے لگتا ہی سوات کی راستی ہماری ان خیالوں پر خوب ہنستی ہوں گی۔ہمارا ارادہ اُسی روز لاہور واپس جانے کا بھی تھا۔اس لئی یہی منصوبہ تھا کہ کچھ وقت گبن جبہ میں گزار کر لاہور واپسی کی راہ لی جای۔گبن جبہ اگر ہمیں جلدی مل بھی جاتا تب بھی ہم لاہور نہ پہنچ پاتی۔ہمیں بحرین سی نکلی دو گھنٹی سی زائد ہو چکی تھے ۔مگر گبن جبہ تا حال ہماری نظروں سی اوجھل تھا۔ایک موڑ پر ہماری گاڑی نے چلنے سی انکار کر دیا۔معلوم ہوا کہ وزن زیادہ ہی۔کچھ مسافروں کو اُترنا پڑی گا۔مجھ سمیت آدھی سی زیادہ ممبرز پیدل چڑھائی چڑھ رہی تھے کہ اچانک سی ہمیں ایک ٹرک نظر آیا اور ہمیں یوں لگا جیسی کسی نے غیبی مدد بھیج دی ہو۔بس چند ہی لمحی لگی ہمیں اور ہم اس ٹرک کی سوار بن گئی۔ٹرک والا بھی اتنے مسافروں کو دیکھ کر بہت خوش تھا۔اب سوات کی راستی تھے اور ہم ٹرک کی اوپر بیٹھی ان راستوں کو تسخیر کرتی جا رہی تھے۔نایاب،ذوئی،فلک۔علینہ سمیت دیگر ممبرز ٹرک پر بیٹھ کر اتنے خوش تھے گویا وہ کسی ایف سیکسٹین طیاری پر بیٹھی ہوں۔وہ تو ٹرک والی نے درخواست کی کہ اُتر جایئں ورنہ یہ ٹرک آپ کو کابل پہنچا دی گا۔گاڑی میں بیٹھی مہوش بھی اب نےچی اتر آئی تھے۔ریحانہ آپا گاڑی میں ہی موجود تھےں۔آس پاس کی لوگوں نے بتایا کہ یہ جگہ لال کھوہ ہی اور گبن جبہ یہاں سی کافی آگی ہی۔اُدھر ویسی بھی جیپ جاتی ہی۔سو ہم نے لال کھوہ کو ہی دریافت کرنے کا فیصلہ کر لیا۔لال کھوہ ایک خوبصورت جگہ ہی۔یہاں پر موجود جنگل،آبشاریں سب کچھ دیکھنے والا ہی۔یہاں پر مجھے دریا کی دوسری طرف جانے کا طریقہ خاصا خطرناک لگا۔صرف ایک لکڑی کا پھٹا تھا جس پر سی گزر کر ہمیں دوسری طرف جانا تھا۔یہاں پر میں حفظہ کی تعریف کروں گی۔جس نے ہاتھ پکڑ پکڑ کر جس طرح مجھے پر خطر راستوں سی گزارا ہی اس پر میں اس کی ہمیشہ ممنون رہوں گی۔ہماری نایاب بھی اب بہت بہادر ہو گئی تھے۔اس نے جس طرح زوئی کا ہاتھ پکڑ کر بغیر کسی کی مدد کی ان راستوں کو عبور کیا ہی اس سی ثابت ہوا ہی کہ وہ اب کی ٹو پر بھی جا سکتی ہی۔دریا کی اس پار ایک چھوٹا سا جنگل ہی جہاں پر سیب اور دیگر پھلوں کی درخت موجود ہیں۔ہم نے اس جنگل میں خوب تصویریں کھینچیں۔یہاں سی واپسی پر کچھ ممبرز آگی آبشار کی طرف چلی گئی جبکہ میں اور نایاب ایک گھر میں کچھ وقت گزارنے چلی گئی۔گھروں میں جانے کا کام ہم نے یہاں بہت بار کیا۔مقصد صرف یہی تھا کہ ہمیں یہاں کی کلچر سی آگہی ہو۔اب کی بار جس گھر میں گئی تھے وہاں کی مکینوں کو اُردو نہیں آتی تھے جبکہ ہم پشتو سی ناواقف تھے۔یہاں لوگوں کی اکژیت اُردو زبان سی نابلد ہی۔اس گھر میں ایک چار دن کی دلہن بھی تھے۔جس کی آنکھوں میں حیا کی نئی رنگ بہت انوکھی سی تھے۔جس کی باتوں سی چھلکتی شرمیلی مسکراہٹ بہت خوبصورت تھے۔وہ دلہن ہمیں اپنے کمری میں لی گئی اور تب تو اس نے ہمیں مزید حیران کیا جب وہ اپنا زیور لی کر آ گئی۔ہم جس جنونے انداز میں تصویریں بنوا رہی تھے۔اسی دیکھ کر دلہن کو احساس ہو گیا تھا کہ باجیاں عقل سی پیدل ہیں اور یقیناً زیور کی ساتھ تصویریں بنوا کر بہت خوش ہوں گی۔ایسا ہی ہوا ہم نے زیور ماڈلنگ کرنے کی بعد اجازت چاہی تھے۔یہاں پر میں اتنا ضرور کہوں گی کہ یہ لوگ بہت مہمان نواز اور بہت محبت کرنے والی لوگ ہیں۔ان کی محبتوں کی قرض چکانے بہت مشکل ہیں۔لال کھوہ میں ہی ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم مالم جبہ ضرور جایئں گی۔ہم نے اپنا پروگرام ایک دن بڑھا دیا تھا۔واپسی پر ایک بار پھر ہم نے ٹرک کی لفٹ کی آفر قبول کر لی۔یہاں پر نوید سمیت دیگر ممبرز نے گلی پھاڑ پھاڑ کر وہ گیت گای کہ لال کھوہ کی پہاڑ بھی ڈر گئی۔ٹرک سی اُتر کر اب ہم واپس گاڑی میں بیٹھ چکی تھے۔اب ہمارا اگلا پڑاو مالم جبہ تھا۔گبن جبہ نے تو ہم سی پردہ کر لیا تھا مگر مجھے معلوم تھا کہ مالم جبہ کی پہاڑ ایسا کچھ نہیں کریں گی۔وہ ہمیں خوش آمدید کہنے کو تیار بیٹھی ہیں۔مالم جبہ جہاں رنگ مسکراتی ہیں اور زندگی رقص کرتی ہی۔

مالم جبہ۔۔۔۔سبزی سی بنا شہر

؛بھائی،یہاں کوئی آتا ہی:

نایاب مسلسل تیسری بار یہ سوال ایک گاڑی کو روک کر پوچھ رہی تھے۔اور ہر گاڑی والی اور راہگیر کا ایک ہی جواب تھا کہ یہاں لوگ آتی ہیں اور اوپر ٹاپ تک ضرور جاتی ہیں۔مالم جبہ پہنچ کر مجھے یوں لگا کہ جیسی میں سبزی سی بھری کسی شہر میں آ گئی ہوں،یہاں بھی ہماری گاڑی نے زیادہ وزن کی وجہ سی آگی چلنے سی انکار کر دیا تھا۔یہی وجہ تھے کہ ہم ایک بار پھر گاڑی سی باہر نکل کر پیدل ان راستوں کو کھوج رہی تھے۔ہم اس خاموشی سی ہم کلام تھے۔یہاں آواز گونجتی ہی۔یہ تجربہ میں نے اور علینہ نے کیا اور ہم یہ کرکی کتنے ہی دیر ہنستی رہی۔کبھی کبھی بچوں کی طرح اُلٹی سیدھی حرکتیں کرنے کو دل کرتا ہی۔مالم جبہ میں جب گاڑی کو بریک نہیں لگتی تھے اور نہایت تیزی سی سب ممبرز نےچی اُترتی تھے۔تو نہایت دلچسپ صورتحال پیدا ہو جاتی تھے۔جسی اب سوچتی ہوں تو بی اختیا ر ہنسی آ جاتی ہی۔مالم جبہ کی سبزی سی جھانکتی محبت کئی رنگوں میں ہماری سامنے آ رہی تھے۔میں نے سبزی سی بھری اس شہر کی پہاڑوں کو دیکھا جو بانہیں پھیلا کر ہمیں خوش آمدید کہہ رہی تھے۔ہم شہرِمحبت میں داخل ہو چکی تھے۔جہاں کی درخت،پھول،پودی،درخت سب محبت کی زبان گنگنا رہی تھے۔چند لمحوں کی لئی دل چاہا کہ باقی مسافروں کو جانے دوں اور ان پہاڑوں کی خوشبو کو اپنے اندر اُتار لوں۔مگر یہ ممکن نہیں تھا ہمیں جلدازجلد ہوٹل پہنچنا تھا ´کیونکہ شام کی سای گہری ہو رہی تھے اور یہاں جنگلی جانوروں کی اکژیت ہی۔اس لئی گاڑی میں بیٹھ کر ہی ہم آگی جا سکتی تھے۔اب ہوٹل والی سی رابطہ کرنا تھا مگر سوات پہنچتی ہی میری فون کی سگنلز آنے بند ہو گئی تھے۔آپ لوگ اگر ان علاقوں میں موبائل سروس سی فائدہ اُٹھانا چاہتی ہیں توپھر فور جی سم لیں۔تھری جی یہاں بہت کم چلتا ہی۔زونگ کی سروس ان علاقوں میں زیادہ فائدہ مند ہیں۔جن ممبرز کی دوسری نےٹ ورک تھے،ان سی ہوٹل والی سی رابطہ کیا گیا۔ہمیں ہمارا کوئی ہوٹل آسانے سی نہیں ملا مگر مالم جبہ میں تو ہوٹل کی تلاش میں جتنے جدوجہد کی تھے اس پر تو ایک اور پیراگراف لکھا جا سکتا ہی۔نجانے کیسی ایک راستی سی دوسری راستی کو کھوجتی ہم اپنے منزل کی جانب گامزن تھے۔منزل بھی ایسی جو آکی ہی نہیں دی رہی تھے۔رات کی سرمئی چادر ہر طرف پھیل رہی تھے۔اب ہمارا خوف بڑھنے لگا تھا۔اب تک ہم سب کو پہنچ جانا چاہئی تھے۔یہاں مجھے ڈرائیور پر بھی بہت غصہ آ رہا تھا۔وہ جس طرح گاڑی چلا رہا تھا۔اس سی لگ رہا تھا وہ ہمیں دو دن بعد ہی ہوٹل پہنچای گا۔ڈرائیور صاحب مزاج کی بھی نواب ہی تھے۔کب محترم کی مزاج بگڑ جایئں پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔اس لئی بہتر یہی تھا کہ ان صاحب سی نرمی سی بات کی جای ورنہ اُن سی کچھ بعید نہیں تھا کہ ہمیں پہاڑوں پر چھوڑ کر خود واپس چلی جاتی۔ہم راستی میں ملنے والی ہر مقامی سی ہوٹل مرینہ کا پتا پوچھتی پھر رہی تھے۔ایسی میں احسن نے ایک پٹھان سی جب پوچھا کہ ہوٹل مرینہ کہاں ہی تو احسن کی سوال کی جواب میں وہ مسلسل ایک ہی بات کہہ رہا تھا کہ مرینہ نہ بولو۔۔۔۔۔پپینگ گیسٹ بولو۔۔۔۔پینگ گیسٹ بولو۔۔۔۔پینگ گیسٹ۔۔۔بات کرتی ہوئی وہ پٹھان غصی میں آ گیا۔پٹھان کو غصی میں چھوڑ کر ہم نے وہاں سی گاڑی بھگانے میں ہی بہتری سمجھے۔مجھے لگا شائد ہماری ہوٹل یا پھر مرینہ نام کی ساتھ پٹھان کی کوئی تلخ یاد وابستہ تھے۔تھوڑی ہی دیر بعد ہم اپنے ہوٹل پہنچ گئی۔مالم جبہ کا ہوٹل ہماری دوستوں کو کچھ خاص پسند نہیں آیا تھا۔یہ ہوٹل ایمرجینسی میں بُک کروایا گیا تھا۔غنےمت تھے کہ ہمیں کمری مل گئی تھے ۔مالم جبہ خاصی اونچائی پر ہی۔اس لئی رات کو یہاں درجہ حرارت کافی گر جاتا ہی۔کچھ دیر آرام کرنے کی بعد ہم نے یہاں کی راستوں کو اپنا ہمراز بنا یا۔رات کو احسن نے ایک بار پھر ایک مزیدار کڑاہی تیار کی۔احسن نے ہمیں بحرین میں بھی مزیدار چکن کڑاہی تیار کھلائی تھے۔شکر ہی ہماری ساتھ احسن تھا جس نے ہوٹل والوں کی ساتھ مل کر ہماری کھانوں کو منفرد ذائقوں سی روشناس کروایا۔مالم جبہ میں ہماری باقی دوست تو رات کو بہت دیر تک جاگتی رہی تھے مگر ہمارا گروپ جلدی نےند کی آغوش میں چلا گیا تھا۔میرا ارادہ تو سونے کا نہیں تھا مگر نایاب کو ریکی کرتی وقت کب نےند آئی پتا ہی نہیں چلا۔شاہد یہی وجہ تھے کہ میں صبح اذانوں کی ساتھ ہی اُٹھ گئی تھے۔فجر کی نماز ادا کرنے کی بعد جب میں باہر نکلی تو تمام مسافر سو رہی تھے۔مالم جبہ کی صبح اتنے خوبصورت اور دلنشیں تھے کہ لمحی بھر کو میں ٹہر گئی تھے۔میں نے اس سی پہلی شوگران میں ایسی ہی ایک صبح دیکھی تھے۔ابھی سورج نکلنے میں کچھ وقت تھا۔صبح کی ساری پرندی لگتا تھا کہ اس شہر محبت میں لوٹ آی ہیں۔اس وقت تمام سبزہ،درخت،پھول میری ساتھ ہمکلام تھے۔مجھے لگا میں بھی کسی منظر کا حصہ بن گئی ہوں۔میرا تخیل،میری خواب سب اس خوبصورت منظر کا حصہ بن گئی تھے۔میں اس منظر میں گم تھے جب کسی نے آکر مجھے پکارا کہ سورج نکل چکا ہی اب مالم جبہ سی نکلنے کی تیاری کی جای۔اُس لمحی دل کسی ضدی بچی کی طرح یہاں سی نہ جانے کی ضد کرنے لگا ۔ابھی تو ان مناظر کا جادو اثر کرنے لگا تھا۔ابھی تو یہ خوشبو اس دل کی مکین بننے لگی تھے۔مگر ضدی دل کی ضد کو کسی خاطر میں نہ لاتی ہوی واپسی کی تیاری کی۔ارادہ یہی تھا کہ مالم جبہ سی باہر نکل کر فضاگٹ میں ناشتہ کیا جای۔میری خواہش تھے کہ واپسی پر میں نایاب اور علینہ تینوں ایک ساتھ بیٹھیں۔ویسی بھی نایاب نے تو پہلی اُتر جانا تھا۔مگر مجھے معلوم تھا کہ علی بھائی کا پاوں ٹھیک نہیں ہی اور پاوں کی تکلیف کی وجہ سی ہی وہ آگی بیٹھی ہیں۔اس لئی اس خواہش کا دوستوں سی تو اظہار کر دیا مگر علی بھائی سی کہنے کی ہمت نہیں پڑی۔میری اس خواہش کی تکمیل تو ہو گئی مگر ہلکی سی بدمزگی کی ساتھ۔۔۔۔جس پر یہی احساس حاوی رہا کہ مجھے یہ خواہش کرنے ہی نہیں چاہئی تھے۔ناشتہ ہم نے فضہ گٹ کی ایک ریسٹورنٹ میں کیا۔ہم مسافر آتی وقت جتنے خوش اور پرجوش تھے۔اب جب جا رہی تھے تو یوں لگ رہا تھا جیسی سب ایک دوسری سی ناراض ہوں۔ویسی میرا یہ تجربہ ہی کہ سفر کی دوران چھوٹی موٹی بدمزگیاں ہو جاتی ہیں مگر یہ زیادہ دیر رہتی نہیں ہیں۔محبت ان سب ناراضگیوں کو دھو ڈالتی ہی۔فضاگٹ کی پھولوں کی ساتھ ہم نے بہت سی تصویریں بنوایئں۔فضا گٹ سی نکلتی ساتھ ہی ہمارا واپسی کا سفر شروع ہو گیا تھا۔

الوداع سوات

رنگوں،پھولوں،خوشبووں کی دیس سی واپسی کا سفر جاری تھا۔سوات کی پہاڑ ہماری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھے۔واپسی کا سفر ہمیشہ سی ہی بہت تکلیف دہ ہوتا ہی اور پہاڑوں اور دریاوں سی واپسی تو اپنے ساتھ صرف اور صرف اُداسی لاتی ہی۔ہمارا دل کا ایک حصہ تو انہی پہاڑوں کی پاس ہی کہیں رہ جاتا ہی۔ادھوری دل کی ساتھ واپس میدانوں میں جانا کتنا مشکل ہوتا ہی یہ توکوئی میری دل سی پوچھتا۔اس سفر سی میں نے بہت کچھ سیکھا۔سوات کی ان رنگوں نے میری اپنے وجود کو کتنے نئی رنگوں سی روشنا س کروایا یہ تو کوئی میری دل سی پوچھتا۔میں نے اپنے ساتھ بیٹھی نایاب اور ذوئی گڑیا کی طرف دیکھا۔مجھے لگا کہ اس سفر کی سب سی خوشگوار یادیں ہماری دوستی کی ہی تو تھےں۔آگی بیٹھی علینہ جس کی محبت کی نجانے کتنے ہی رنگ میں نے اس سفر میں دیکھ ڈالی تھے۔علی بھائی جن کا پاوں زخمی تھا۔اس کی باوجود ہم سب کو لی کر آی اور اسی زخمی پاوں کی ساتھ راستوں کو اپنا ہمنوا بنایا۔مہوش جس کی ساتھ اس سفر میں میرا زیادہ وقت نہیں گزرا جتنا بھی گزرا وہ میری لئی بہت قیمتی ہی ۔فلک اور فضا دونوں ہماری اس سفر کی جان تھےں خاص طور پر فلک جس کا مہوش نے کسی بچی کی طرح خیال رکھا تھا۔حضظہ نے تو اس سفر میں بہت بار مجھے گرنے سی بچایا۔حافظ زاہد بھی مسکراہٹیں بکھیرتی رہی۔ریحانہ آپا اپنے خاموش طبعیت کی وجہ سی مجھے اپنے جیسی ہی لگیں ۔مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں نے اخلاقی لحاظ سی انہیں سب سی اوپر ہی دیکھا ہی۔حسنےن کمیانہ،نوید،سفیان،اسلم بھائی سب مسافروں کی یادیں اس سفر کا حصہ تھےں۔ہم سوات کی راستوں سی نکل آی تھے۔اُس روز مقدس کی سالگرہ تھے۔مقدس ہماری بڑی پیاری دوست ہی۔گو کہ مقدس سی میری اتنے بات نہیں ہوتی مگر ہم جب بھی ملتی ہیں ہماری لئی وہ دن ایک نےا دن ہی ہوتا ہی۔علی بھائی نے مقدس کی سالگرہ منا کر ہم سب کو واقعی میں سرپرائیز دیا تھا۔

کوٹ مومن آ گیا ہی

ہماری گاڑی کا رخ اب کوٹ مومن کی طرف تھا۔وہی کوٹ مومن جس کا آتی وقت مجھے انتظار تھا۔اب دل کہہ رہا تھا کہ کچھ وقت اور گزر جای۔مگر اب سب نے اپنے اپنے گھروں کو جانا تھا سو شہزادی کی رخصتی کا وقت بھی آن پہنچا تھا۔

؛اُتریں نایاب۔۔۔۔کوٹ مومن آ گیا ہی؛

علی بھائی نے نایاب کا بیگ اُتار کر نےچی رکھا۔میں اور علینہ بھی ساتھ ہی نےچی اُتری تھے۔ہم ایک دوسری سی مل رہی تھے۔اب کی بار پہلی سی زیادہ اپنائیت اور بی تکلفی تھے۔زوئی ایک طرف کھڑی اُداس نظروں سی سب کو دیکھ رہی تھے۔میں نے بی اختیار اس سیانے کو گلی لگایا جس نے چند ہی دنوں میں اپنے معصومیت سی سب کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ہم نے اب ملتی رہنا تھا کیونکہ محبت بھری جس رشتی میں ہم سب بندھ گئی تھے۔اُس نے اب ہمیں ایک دوسری سی دور کہاں دہنے دینا تھا۔

لاہور لاہور ہی

ہماری گاڑی تیزی سی اپنے منزل کی جانب گامزن تھے۔مسافر پھر سی چارج ہو چکے تھے۔ایک بار مشاعرہ کرنے کی بعد اب تیز میوزک کی ساتھ سفر کو مزید خوشگوار بنا رہی تھے۔لاہور قریب ہی تھا۔آوارہ گردوں کو اپنے ٹھکانوں پر اب واپس جانا تھا۔گھر یاد بھی آ رہا تھا۔سچ تھا گھر جیسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ہماری گاڑی جیسی ہی لاہور میں داخل ہوئی۔دل کسی مانوس سی خوشبو کی زیراثر آ گیا۔اب سب اپنے اپنے ٹھکانوں پر اُتر رہی تھے۔میری منزل بھی آ چکی تھے۔سب کو الوداع کہنے کی بعد اب میں گھر کی طرف جا رہی تھے۔مگر میری ساتھ کتنے ہی یادیں تھےں جو کہ میرا سرمایہ ہیں۔گو کہ اب اس سفر کو بہت دن گزر چکی ہیں۔مگر سوات کی رنگ اتنے گہری ہیں کہ میں ابھی بھی ان کی حصار میں ہوں ۔آپ بھی مشرق کی اس سوئیزلینڈ ضرور جائیں پھر آپ بھی کہیں گی کہ ان رنگوں سی زیادہ خوبصورت رنگ آپ نے نہیں دیکھی۔یقین نہیں آتا تو آزما کر دیکھ لیں۔

(ختم شد)

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button