جسم محفوظ ہے ۔۔۔
برف برزخ ہے، چیزیں بدلتی نہیں
وقت سے ماورا ۔۔
جسم ٹھنڈی سفیدی میں جکڑا ہوا
جسم اکڑا ہوا
ریشے ریشے سے ٹھنڈک ابلتی ہوئی
خون پتھر ہوا
خشک لکڑی سی اکڑی ہوئی انگلیاں
ہونٹ یاقوت کی منجمد ٹکڑیاں
برف چہرے پہ بے جان آنکھیں جمیں
باز پلکوں میں دو منجمد پتلیاں
پتلیوں میں کئی حیرتیں منجمد!
جسم سردی کے اژدر کا نگلا ہوا
کتنی صدیوں کی برفوں کا اگلا ہوا
ٹھنڈ کے زہر سے نیل گوں
منجمد پارہء سنگ تھا بے لچک
جیسے اس میں کبھی جوڑ تھے ہی نہیں
برف شیشہ کہیں کرچیوں میں بٹا
"جسم محفوظ ہے”
شہزاد نیّرؔ
خاک : برفاب