ہماری کلاسیکی غزل کی شعریات
کچھ تنقیدی کچھ تاریخی باتیں
کلاسیکی اردو غزل کی شعریات جن تصورات پر قائم ہے انھیں موٹے طور پر دو انواع میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ جن کی نوعیت علمیاتی (Episternological) ہے، یعنی یہ تصورات اس سوال پر مبنی ہیں کہ شعر سے ہمیں کیا حاصل ہوتا ہے؟ دوسری نوع کے تصورات وہ ہیں جنھیں وجودیاتی (یعنی Ontological) کہا جا سکتا ہے، یہ وہ تصورات ہیں جن کا تعلق اس سوال سے ہے کہ شعر کا وجود کن چیزوں پر منحصر ہے؟
علمیاتی تصورات: مضمون آفرینی، معنی آفرینی، خیال بندی، کیفیت، شورانگیزی۔
وجودیاتی تصورات: با معنی لفظ (یا مضمون)، وزن وبحر، قافیہ، ربط۔
ظاہر ہے کہ وجودیاتی تصورات کی قائم کردہ شرطوں اور ضرورتوں کا لحاظ نہ رکھا جائے تو شعر وجود ہی میں نہ آئےگا۔ لیکن مندرجہ بالا چاروں تصورات کے کچھ ذیلی تصورات بھی ہیں جن کو شعر کے لئے لازمی نہیں قرار دے سکتے، ہاں اگر ان کی پابندی کی جائے تو شعر میں خوبی پیدا ہوگی، مثلاً بامعنی لفظ (یا مضمون) کے تصور کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ شعر کی بندش چست ہو، یعنی اس میں کوئی غیرضروری یا کم زور یا معنی کے لئے نامناسب لفظ نہ ہو۔ وزن و بحر کے تصور کا ایک تقاضا یہ ہے کہ شعر میں روانی ہو کیونکہ یہ ممکن ہے کہ کوئی عبارت موزوں ہو (یعنی بحر اور وزن کی شرطیں پوری کرتی ہو) لیکن اس میں روانی نہ ہو یا کم ہو۔
کلاسیکی زمانے میں مختلف شعرا کی درجہ بندی میں یہ سوال ہمیشہ زیر بحث آتا ہے کہ فلاں شاعر کے یہاں روانی زیادہ ہے یا کم ہے۔ فارسی کے سب سے بڑے غزل گویوں، یعنی خسرو اور حافظ، دونوں نے روانی پر بہت زور دیا ہے۔ قافیے کے ساتھ اگر ردیف ہو تو قافیے اور ردیف کا باہم مربوط ہونا اور ردیف کا قافیے کے معنی قائم کرنے میں کارگر ہونا، خاص اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔ ربط سے مراد یہ تھی کہ شعر کے دونوں مصرعے مل کر مکمل بیان بناتے ہیں کہ نہیں۔ ان تمام تصورات میں بڑی باریکیاں ہیں جن کے بیان کرنے کا موقع یہاں نہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ شعر کے وجود کے بارے میں جن افکار کا ہمارے یہاں فروغ ہوا، وہ دو طرح کے تھے، کچھ وہ جن کے بغیر شعر ممکن نہ تھا اور کچھ وہ جن کے ذریعے شعر میں خوبی پیدا ہونے کے امکانات تھے۔
جہاں تک سوال علمیاتی تصورات کا ہے، ان کے بھی بہت سے ذیلی تصورات تھے۔ خیال بندی کو مضمون آفرینی کا ذیلی تصور بھی کہہ سکتے ہیں، لیکن خیال بندی نے ایک زمانے میں اتنی مقبولیت حاصل کر لی کہ ایک پورا طرز سخن اس تصور سے وابستہ ہو گیا۔ معنی آفرینی کے ذیلی تصورات میں ایہام، رعایت اور مناسبت خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ کیفیت اور شور انگیزی کو علمیات شعر کے اس سرے پر فرض کر سکتے ہیں جس کا دوسرا سرا معنی آفرینی ہے۔ مضمون آفرینی کا ایک ذیلی تصور بیان کی صفائی بھی تھا۔ بیان کی صفائی سے مراد یہ تھی کہ مضمون ایسا نہ ہو، یا اسے ایسی طرح نہ بیان کیا جائے کہ اس کو سمجھنے میں محنت اور مشکل صرف ہو اور جب اسے سمجھ لیں تو محسوس ہو کہ یہ ساری محنت بےکار گئی۔
کلاسیکی غزل کی شعریات کے ارتقا کی پہلی اہم منزل یہ تھی کہ معنی اور مضمون کے درمیان فرق قائم ہوا جس کے باعث مضمون آفرینی کو مرکزی اہمیت حاصل ہوئی۔ پھر معنی آفرینی کی مہم میں ایہام، رعایت اور مناسبت کے تصورات کو بروئےکار لایا گیا۔ انیسویں صدی کے شروع یا اٹھارویں صدی کے آخری برسوں میں خیال بندی کو مقبولیت حاصل ہوئی۔ شعریات کے نقطۂ نظر سے کلاسیکی غزل کے سفر کی اہم منازل یہی ہیں۔
’’ایہام‘‘ کی تعریف عام طور پر یہ کی جاتی ہے کہ شاعر ایسا لفظ استعمال کرے جس کے دو معنی ہوں، ایک قریب کے اور ایک دور کے اور شاعر نے دور کے معنی مراد لیے ہوں۔ ایسی صورت میں شاعر کو ایسا کوئی قرینہ بھی رکھ دینا چاہئے جس سے معلوم ہو کہ اس نے کیا معنی مراد لیے تھے۔ یہ قرینہ خفیہ بھی ہو سکتا ہے اور واضح بھی۔ مندرجہ بالا تعریف کو ایہام کی ’’خالص‘‘ اور اقل (Minimum) تعریف کہہ سکتے ہیں۔ (’’اقل‘‘ میں نے اس لیے کہا کہ ایہام کی بحث میں بہت سی باریکیاں بھی ہیں اور بہت سے الجھاوے بھی۔) علاوہ بریں کلاسیکی اردو شعرا نے اظہار کی کچھ اور صورتیں اختیار کی ہیں اور انھیں بھی عام طور پر ایہام کا نام دیا ہے۔ مختصر طور پر کہیں تو ہمارے ایہام کی تین قسمیں نظر آتی ہیں۔
(۱) ایہام خالص۔۔۔ یعنی جہاں ایک لفظ کے دو معنی ہوں، ایک قریب کے اور ایک دور کے اور شاعر نے دور کے معنی مراد لیے ہوں۔
(۲) ایہام پیچیدہ۔۔۔ جہاں ایک لفظ کے دو یا دو سے زیادہ معنی ہوں اور تمام معنی کم وبیش مفید مطلب ہوں، عام اس سے کہ شاعر نے کون سے معنی مراد لیے تھے۔
(۳) ایہام مساوات۔۔۔ جہاں ایک لفظ کے دو معنی ہوں، دونوں برابر کے کم وبیش یا بالکل قوی ہوں اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو کہ شاعر نے کون سے معنی مراد لیے تھے۔
ایہام کو معنی آفرینی کی غرض سے استعمال کرنے والے شعرا نے یہ بھی محسوس کیا ہوگا کہ اردو میں نہ صرف کثیر المعنی الفاظ بہت ہیں، بلکہ ایسے الفاظ بھی بہت ہیں جن کے درمیان بظاہر معنی کا علاقہ ہے اور یہ بات بھی اردو الفاظ کی فطری کثیر المعنویت کے باعث ہے، لہٰذا اگر ایسا کلام بنایا جائے جس میں معنی کا آپس میں بظاہر علاقہ رکھنے والے الفاظ ہوں تو یہ معنی آفرینی تو نہ ہوگی لیکن معنی کے رشتوں کے التباس کے باعث ایک طرح کا ایہام تو پیدا ہی ہوگا۔ اس عمل کو کلام میں رعایت پیدا کرنے کا عمل کہہ سکتے ہیں۔
رعایت کثیر الاطلاق اصطلاح ہے۔ الفاظ کے مابین معنوی علاقے کا التباس ہو، یا بعض صنعتیں ہوں، مثلاً ایہام تضاد، ایہام صوت، ایہام تناسب، لف ونشر کی بعض صورتیں، ضلع جگت، یہ سب رعایت کے تحت آتی ہیں۔ رعایت کی وجہ سے ہمیشہ کلام میں حسن پیدا ہوتا ہے۔ جو شخص رعایت کو نہیں سمجھتا، یا اسے غیراہم سمجھتا ہے، یا جسے رعایت میں لطف نہیں آتا، اسے کلاسیکی شاعری پڑھنا پڑھانا چھوڑکر کوئی اور دھندا کرنا چاہئے اور یہ کہنابھی غلط ہے کہ رعایت محض ’’لفظی بازی گری‘‘ ہے اور ہمیں کائنات کے بارے میں کچھ نہیں بتاتی۔ اول تو ’’لفظی بازی گری‘‘ کوئی ایسی بری چیز نہیں، جس چیز کو شیکسپیئر اور حافظ نے بڑے اہتمام سے روا رکھا ہو، جو کیٹس (Keats) سے لےکر بھرتری ہری اور امارو کے یہاں برابر کی شان سے جلوہ گر ہو، جسے خاقانی، خسرو اور ٹی ایس الیٹ نے اپنے اپنے طور پر حسن کلام کا وسیلہ بنایا ہو، اسے ’’لفظی بازی گری‘‘ کہنا شاعری کی روح کو جھٹلانا ہے۔
رعایت ہمیں زبان اور اس کے امکانات، زبان کی لطافتوں اور نزاکتوں، معنی کے غیرمتوقع پہلوؤں کے بارے میں بھی بہت کچھ بتاتی ہے اور زبان ہماری کائنات کا اہم ترین عنصر ہے، یعنی زبان نہیں تو کائنات نہیں۔ کائنات کے بارے میں بیانات زبان ہی کے ذریعے ممکن ہیں، اس لئے ساری کی ساری زبان ہمارے علم کائنات کی موجد ہے۔ جب ولیؔ کہتے ہیں،
نہ جا انکھیاں میں آ مجھ دل میں اے شوخ
کہ نئیں خلوت میں دل کی خوف مردم
تو وہ ’’مردم‘‘ بہ معنی’’ آنکھ کی پتلی‘‘ اور ’’مردم‘‘ بہ معنی ’’انسان‘‘ کے ذریعے ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ انسان کا وجود کسی نہ کسی سطح پر آنکھ کا مرہون منت ہے (مثلاً کسی تصویر میں سے آنکھیں مٹا دیجئے اور دیکھئے کیا بچتا ہے۔)
یہ خیال غلط ہے کہ میرؔ، غالبؔ، انیسؔ وغیرہ ’’سچے‘‘ شاعر تھے، لہٰذا انھیں رعایت، ایہام، یا کسی طرح کی صنعت گری سے کوئی سروکار نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان سب لوگوں کو اس بات کا احساس تھا کہ اردو زبان میں ایہام اور رعایت کے اس قدر توانگر امکانات ہیں کہ ان سے منفعت حاصل کرکے شاعر اپنے کلام کا دامن نئے نئے لعل وگہر سے مالا مال کر سکتا ہے۔ انھیں معلوم تھا کہ ہنرمندی اور فنی نزاکت اور لفظی باریکی ہر جگہ کام آتی ہے۔
اگر شیکسپیئر، رومیو اور جولیٹ میں خودکشی اور موت کے موقعے پر رعایت سے کام لیتا ہے تو میر انیسؔ اور میرؔ بھی بُکا اور حزن کے موقعے پر رعایت کو برتتے ہیں اور کلام کے حسن کو دوبالا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر Romeo and Juliet کے پانچوں ایکٹ کا وہ موقع ملاحظہ ہو جب جولیٹ کے مرنے کی خبر رومیو کو ملتی ہے۔ رومیو کا خادم بالتھزار (Balthasar) خبر لے کر آیا ہے۔
Romeo، How doth my lady? Is my father well?
How fares my lady? That I ask again.
For nothing can be ill if she be well.
Balthasar، Then she is well and nothing can be ill. (V. 1.4۔ 17)
رومیو How is my lady کی جگہ How doth my lady کہتا ہے۔ دونوں کے معنی ایک ہیں، لیکن to die بھی ہیں۔ دوسری سطر میں fares کے معنی وہی ہیں جو doth کے ہیں۔ لیکن fares کی آواز fair’s کی سی ہے، جو مخفف ہے fair is کا، یعنی، How fair is my lady اور fair کے کئی معنی ہیں ’’خوب صورت‘‘، ’’اچھی حالت میں‘‘، ’’تن درست‘‘، ’’انصاف پسند‘‘ وغیرہ۔ جولیٹ چونکہ مر چکی ہے اس لیے یہ معنی ایہام کی طنزیہ کیفیت کے حامل ہیں اور اگلی سطروں میں ill اور well سے مناسبت بھی رکھتے ہیں۔
خود ill کے کئی معنی ہیں ’’بیمار‘‘، ’’برا‘‘، ’’نامناسب‘‘ وغیرہ اور well کے معنی ہیں ’’تن درست، بخیرت‘‘، well بہ معنی ’’اچھا، اچھی‘‘ بھی ہے اور خادم کے جواب میں well کے معنی زیادہ نمایاں ہیں کہ (مر جانے کے باعث) وہ نیک ہے، معصوم ہے، اچھی ہے، یعنی اب اسے کوئی برائی، کوئی گناہ آلودہ نہیں کر سکتا، لہٰذا اب کوئی بھی شے بیمار یا خراب نہیں ہو سکتی۔
چونکہ تھوڑی سی ہی دیر میں رومیو فرط غم سے خودکشی کر لےگا، لہٰذا Nothing can be ill کے معنی ہوئے کہ جولیٹ کی موت کے نتیجے میں رومیو خود مر جائےگا اور مردہ کو مرض نہیں، وہ ہمیشہ کے لئے بیماری سے نجات پا جاتا ہے۔ اور آگے دیکھئے۔ رومیو بھاگا بھاگا جولیٹ کے مزار پر جاتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں زہر کی شیشی ہے۔ وہ جولیٹ کی قبر کھولتا ہے۔ تابوت کا ڈھکنا اٹھاتا ہے، جولیٹ کے مردہ سراپا پر نظر ڈالتا ہے۔ خودکشی کرتے وقت اس کے الفاظ ہیں،
Romeo، Eyes look your last.
Arms take your last embrace, and lips (you The doors of breath) seal with a righteous kiss. A cateless bargain on engrossing.
Death! Come bitter conduct. Come unsave’ry guide.
Thou desp’ rate pilot, now at once run on
The dashing rocks thy seasick weary bark.
Here’s to my love. O true apothecary.
Thy drugs are quick. Thus with a kiss I die.
(V. iii. 114۔ 121)
جہاں look کے بہت سے معنی ہیں، وہاں ایک (قدیمی) معنی ہیں، ’’دیکھنے کی قوت یا صلاحیت حاصل کرنا۔‘‘ لہٰذا رومیو کی بات کا ایک قوی مطلب یہ ہوا کہ ’’اے میری آنکھ اب آخری بار دیکھنے کی قوت حاصل کر لو، کیونکہ جب جولیٹ نہ دکھائی دے گی تو کچھ بھی دکھائی نہ دےگا۔‘‘ ان معنی کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ پورے ڈرامے میں رومیو نے جولیٹ کے لیے جگہ جگہ روشنی کے استعارے استعمال کیے ہیں۔ یہاں look ایہام کی عمدہ مثال ہے۔ Take کے معنی ہیں ’’لینا‘‘، ’’فتح کرنا‘‘ اور arms کے معنی ہیں ’’بازو‘‘، ’’ہتھیار‘‘ ان کی مناسبت ظاہر ہے۔ ایہام تب کھلتا ہے جب اس بات کو خیال میں لائیں کہ embrace کے ایک معنی ’’مباشرت کرنا‘‘ بھی ہیں اور جنسی عمل کو قلعہ فتح کرنے سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔
embrace کی ایک شکل embrase بھی ہے، جس کے معنی ہیں، ’’آگ لگا دینا۔‘‘ ان معنی کا تعلق جنسی جذبے کی شدت سے ظاہر ہے اور embrace سے لفظ embrasure حاصل ہوتاہے جس کے معنی ہیں قلعے کے بلند سوراخ دار برج جس میں بندوق رکھ کر اور جس کی آڑ لے کر دشمن پر نشانہ لگاتے ہیں۔ ان سب الفاظ میں جنسی جذبے کی شدت اور عمل کی طرف اشارے ہیں۔ بقیہ سطریں چھوڑتا ہوں کیونکہ تفصیل بہت لمبی ہو جائےگی۔ صرف آخری فقرے پر غور کیجئے، Thus with a kiss i die.
Kiss (بوسہ) اور جنسی عمل (embrace) دونوں کو موت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور چند سطریں پہلے جو لیٹ کی لاش کو دیکھ کر رومیو کہہ چکا ہے کہ موت نے تیری سانسوں کا شہد چوس لیا ہے۔ اس کے بعد زیر غور سطور میں وہ ہونٹوں کو doors of breath کہتاہے۔ جب بوسہ لیتے ہیں تو سانس رک جاتی ہیں یعنی سانس کے دروازے بند ہو جاتے ہیں لیکن جس طرح ’نفس‘‘ بہ معنی ’’سانس‘‘ بھی ہے اور بہ معنی ’’گفتگو‘‘ بھی، اسی طرح breath بھی بہ معنی ’’سانس‘‘ اور بہ معنی ’’گفتگو‘‘ ہے۔
بوسہ لیتے وقت ہونٹ بند ہو جاتے ہیں یعنی سانس اور گفتگو دونوں کا دروازہ بند ہو جاتا ہے، لہٰذا بوسہ برابر ہے موت کے، موت جس نے جولیٹ کے ہونٹوں سے شہد چوس کر اس کی جان لے لی ہے۔ پھر die کے معنی ’’مرنا‘‘ بھی ہیں اور go بھی، اور corneبھی۔ لہٰذا موت یا بوسہ، جانابھی ہے اور اپنے آپ میں آنا بھی۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ come کے ایک معنی جنسی عمل کی تکمیل بھی ہیں، لہٰذا رومیو کی موت اس کے لیے وصال بھی ہے اور وصل بھی۔
جیساکہ میں نے اوپر کہا، اگر ان سات آٹھ مصرعوں کا پورا تجزیہ کروں تو کئی صفحے لگیں گے لیکن اس ذرا سی مثال سے یہ واضح ہے کہ شیکسپیئر کو ان چیزوں سے کتنا شغف تھا جنھیں میں نے ایہام، رعایت، اور مناسبت سے تعبیر کیا ہے اور جنھیں ہمارے کتابی نقاد ’’لفظی بازی گری‘‘ قرار دیتے ہیں اور شرمناک چیز سمجھتے ہیں۔
اوپر میں نے یہ بھی کہا تھا کہ میر انیسؔ اور میرؔ بکا اور حزن کے موقعے پر بھی ایہام اور رعایتوں کا التزام رکھتے ہیں۔ یہاں ایک ایک مثال پر اکتفا کرتا ہوں۔ میر انیسؔ کے مرثیے ’’جب کربلا میں داخلۂ شاہِ دیں ہوا‘‘ میں جناب عباسؓ کی جنگ اور شہادت کے بیان میں بیت ہے،
رکھے ہوئے ہیں مشک پہ منھ پیار دیکھیے
شانے کٹے ہیں شانِ علم دار دیکھیے
علم دار حسینی کے دونوں شانے قلم ہیں لیکن وہ دانتوں سے مشک پکڑے ہوئے ہیں اور اسی عالم میں جامِ شہادت نوش کرتے ہیں۔ جناب علی اکبرؓ اور امام حسینؓ اپنے لشکر کے علم دار کی تلاش میں نکلے ہیں۔ حضرت علی اکبرؓ کی نگاہ لاشۂ جناب عباسؓ پر پڑتی ہے اور وہ پکار راٹھتے ہیں شانے کٹے ہیں شانے، علم دار دیکھیے۔ اصل مصرعے میں ’’شانِ علم دار‘‘ مضاف مضاف الیہ ہے۔ لیکن ’’شان‘‘ پر کسرہ کے باعث اسے ’’شانے‘‘ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ ایہام صوت کا موقع ہاتھ آیا تو میر انیسؔ نے اسے فوراً استعمال کر لیا۔ بکائیہ لمحہ اپنی جگہ، لیکن شاعر ہنر مندی اور فنکاری کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ میر انیسؔ کی نگاہ میں درد وغم کے بیان اور فن کاری کے اظہار میں کوئی تناقص نہیں۔
میرؔ کی مثال کے لیے میں محض ایک لفظ ’’واقعہ‘‘ کو پیش کرتا ہوں۔ ’واقعہ‘ کے حسب ذیل معنی اردو میں مستعمل ہیں، (۱) کوئی بات جو پیش آئے، event، (۲) حقیقت، (۳) خواب، (۴) موت۔ میرؔ نے لفظ ’’واقعہ‘‘ کئی بار استعمال کیا ہے۔ مندرجہ ذیل مثالیں دیکھیے کہ ان میں میرؔ نے اس لفظ کے مختلف امکانات کو کس کس طرح اجاگر کیا ہے،
دیوان اول
آیا جو واقعے میں در پیش عالمِ مرگ
یہ جاگنا ہمارا دیکھا تو خواب نکلا
دیوان دوم
ایسا نہ ہوا ہوگا کوئی واقعہ آگے
اک خواہش دل ساتھ مرے جیتی گڑی ہے
دیوان سوم
جہاں میں میرؔ سے کا ہے کو ہوتے ہیں پیدا
سنا یہ واقعہ جن نے اسے تأسف تھا
دیوان دوم
مرنے کے پیچھے تو راحت سچ ہے لیک
بیچ میں یہ واقعہ حائل ہیں یاں
ایہام اور رعایت کو ایک دوسرے کا عکس کہہ سکتے ہیں۔ جیساکہ میں نے اوپر کہا، ایہام کی اقل شرطیں دو ہیں۔ اول یہ کہ کسی لفظ کے دو معنی ہوں، ایک قریب اور ایک بعید۔ اور دوم یہ کہ شاعر نے بعید معنی مراد لیے ہوں۔ اسی طرح، رعایت کی کم سے کم شرطیں دو ہیں۔ اول یہ کہ کسی لفظ یا فقرے کے دو معنی ہوں، ایک قریب اور ایک بعید۔ دوسری شرط یہ کہ قریب کے معنی بیان کے مناسب ہوں، لیکن بعید معنی اس جگہ کے کسی اور لفظ یا فقرے سے مناسبت رکھتے ہوں۔ ظاہر ہے کہ ایہام کے مقابلے میں رعایت زیادہ مشکل ہے۔ ایہام کا تقاضا یہ ہے کہ ایسا لفظ یا فقرہ لایا جائے جس کے دو معنی ہوں اور رعایت کا تقاضا یہ ہے کہ ایسا لفظ یا فقرہ لایا جائے جس کے دو معنی بھی ہوں اور ایک معنی کا علاقہ اسی عبارت میں وہیں کہیں کسی اور لفظ یا فقرے سے بھی ہو۔ اسی اعتبار سے یہ نکتہ بھی ہے کہ جس لفظ یا فقرے پر ایہام کی بنا رکھی گئی ہے اسے بدل کر کوئی دوسرا بامعنی مرادف رکھ دیں تو کلام بے معنی نہ ہوگا، لیکن اس کی قوت کم ہو جائےگی۔
رعایت کی اس بحث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ رعایت بھی ایک طرح کا ایہام ہے۔ ’’مناسبت‘‘ کو بھی پرانے لوگ رعایت کے عالم سے سمجھتے تھے، کیونکہ مناسبت کی بھی شرط یہی ہے کہ کلام میں الفاظ یا فقرے ایسے ہوں جن کا آپس میں معنوی علاقہ ہو۔ لیکن ان دونوں میں ایک بنیادی فرق بھی ہے۔ رعایت میں الفاظ یا فقرہ کے مابین معنی کے علاقے کا محض گمان گزرتا ہے اور مناسبت میں معنی کا علاقہ واقعی ہوتا ہے۔ مناسبت کے ذریعے شعر کے معنی میں جو افزائش اور استحکام وجود میں آتا ہے، وہ رعایت کے بس کا نہیں، یعنی مناسبت کے معنی ہیں کلام میں ایسے الفاظ کا استعمال جو آپس میں معنوی علاقہ رکھتے ہوں اور جو کلام کے معنی میں اضافہ کریں یا اسے مزید قوت یا وسعت یا گہرائی عطا کریں۔
حالی اور آزاد کے زیر اثر جو شاعری پیدا ہوئی، اس کے رد عمل کے طور پر (یا بزعم خود اس کی اصلاح کرکے، اور اس میں ’’نئی‘‘ خوبیوں کا اضافہ کرکے) نظم جدید کے دوسرے تیسرے دور کے جو شعرا سامنے آئے مثلاً جوش، سیماب وغیرہ، وہ کلاسیکی تصورات سے ناواقف تھے اور مغربی اقدار سے بھی بے بہرہ تھے، لہٰذا ان کا نقصان سب سے زیادہ ہوا۔ ان شعرا کو مناسبت کی خوبیوں کی کچھ خبر نہ تھی۔ حسرتؔ موہانی نے ’’محاسن سخن‘‘ میں مناسبت کا ذکر ضرور کیا تھا، لیکن نہ مثالیں دی تھیں اور نہ تفصیل بیان کی تھی۔
متذکرہ بالا شعرا اور ان کے ساتھیوں کا خیال تھا کہ ’’خیال‘‘ مکمل طور پر ادا ہو جائے تو کافی ہے۔ وہ اس نکتے کو نہ جانتے تھے کہ خیال جتنی خوبی سے بیان کیا جائے، وہ اتنا ہی عمدہ ہوگا یعنی حسن بیان کے بغیر حسن خیال نہیں۔ وہ عام طور پر حسن بیان کو حسن خیال سے الگ سمجھتے تھے۔ یہ لوگ رعایت کو سرسری قسم کی ضلع جگت سے زیادہ نہ سمجھتے تھے۔ ایہام کی صرف اقل تعریف سے وہ واقف تھے اور بہرحال وہ ایہام کو باعث شرم سمجھتے تھے، بلکہ وہ لوگ ایہام خالص کو بھی برتنے پر قادر نہ تھے۔ عدم مناسبت الفاظ، زبان کے امکانات کو تخلیقی طورپر بروئے کار لانے سے گریز، زبان کا میکانکی اور بے روح استعمال، یہ جوش صاحب کے خاص صفات ہیں اور جوش ہی کیوں، اس زمانے کے تمام شعرا کا کم وبیش یہی حال تھا۔ فرق صرف درجے کا تھا، نوع کا نہیں۔
رعایت اور ایہام جیسے تصورات کے زوال اور ان پر عمل کم وبیش متروک ہو جانے سے ہماری شاعری کو جو نقصان پہنچا اس کی تلافی تھوڑی بہت تو یوں ہوئی کہ آزاد و حالی کے زیر اثر ’’حقیقت نگاری‘‘ اور ’’جذبات نگاری‘‘ کو فروغ ہوا اور ایسی شاعری کم ہو گئی جس میں ذہن پر زور دینا پڑے۔ لیکن مناسبت کا تصور غائب ہو جانے، یا مناسبت کا لحاظ نہ رکھنے کے باعث جو نقصان پہنچا، اس کی محدود تلافی اسی وقت ہو سکی جب جدیدیت پرمبنی شاعری اور خاص کر جدیدیت پسند نظم کا بول بالا ہوا۔ جدیدیت کی شعریات میں بھی ایہام وغیرہ کی گنجائش ہے۔ لیکن اس کا کام اس کے بغیر بھی چل سکتا تھا اور چلا۔ جدیدیت پسند نظم چونکہ زیادہ تر ذاتی تاثرات پر مبنی تھی، اس لیے اس نے مناسب تشبیہات، استعارات اور علامات کو تو اختیار کیا، لیکن الگ سے مناسبت وغیرہ پر کوئی خاص توجہ نہ دی۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جدیدیت کا زمانے آتے آتے کلاسیکی شعریات کی قدر ومنزلت بالکل جاتی رہی تھی۔ جدیدیت نے اپنا جواز زیادہ تر غالب کے یہاں سے حاصل کیا، یا پھر مغربی غیرافلاطونی نظریاتِ ادب سے، جن میں علامت پرستی اور رومانیت سب سے زیادہ نمایاں تھیں۔ جدیدیت کو کلاسیکی ادب سے محبت تھی، لیکن ابھی اسے کلاسیکی شعریات کو دریافت کرنا تھا جس کی روشنی میں صرف غالبؔ ہی نہیں، بلکہ تمام کلاسیکی ادب کو اور خود غالبؔ کو بھی، انھیں تقاضوں کی روشنی میں پڑھنا ممکن ہوتا جن تقاضوں نے کلاسیکی ادب کو جنم دیا تھا۔
جدیدیت پسند نظم میں تجربہ اور اظہار کی آزادی پر زور سب سے زیادہ تھا، لہٰذا کلاسیکی تصورات شعر اس کی فوری ضرورت نہ تھے۔ اقبال نے اپنی نظم میں قدیم طرز کو بہت کچھ باقی رکھا تھا، اس لیے ان کے یہاں مناسبت خوب کارفرما ہے، رعایت بھی موجود ہے، حتی کہ وہ ایہام بھی برت لیتے ہیں۔ حالی اور آزاد کے زیر اثر اقبال بھی شاعری کو ’’پیغام‘‘ کا مرادف قرار دیتے تھے اور عام طور پر وہ اس بات سے انکار بھی کرتے تھے کہ وہ شاعر ’’یا فنکار‘‘ بھی ہیں۔
لیکن واقعہ یہ ہے کہ اقبال کے یہاں ’’فنکاری‘‘ یاکلاسیکی طرز کی شعر گوئی جگہ جگہ کارفرما ہے۔ اقبال کے خیال کی جدت (یا اس کا معاصر حقیقت سے مربوط ہونا) اور پیغمبرانہ حکیمانہ لہجے کے باعث اور اس باعث کہ ان کا کلام بعض سیاسی سماجی ضرورتوں کو پورا کرتا ہوا نظر آتا تھا، لوگوں نے ان کے ’’پیغام‘‘ پر فوری توجہ دی اور دل کھول کر اس کی داد دی، یا پھر سیاسی وجوہ کی بنا پر ان کے ’’پیغام‘‘ کی دل کھول کر مخالفت بھی ہوئی۔ اس شور غل میں اقبال کے فن کی طرف دھیان کم دیا گیا۔
اقبال کے ساتھ دوسری بات یہ ہوئی کہ ان کے اولین ناقد سب کے سب حالی وآزاد کے معنوی شاگرد تھے اور بعد میں آنے والے بھی یعنی ترقی پسند اور مکتبی ناقدین، دونوں اس بات پر متفق تھے کہ شاعری بحز خیالات کچھ نہیں، لہٰذا اقبال کے ادبی محاسن پر اور خاص کر ان محاسن پر کوئی توجہ نہ ہوئی جو کلاسیکی شعریات کے مرہون منت تھے اور کیوں ہوتی، جب کلاسیکی شعریات کے بارے میں یہ خیال عام تھا کہ وہ زیادہ تر انحطاط پذیر تصورات پر مبنی ہے اور اس میں ’’لفظی بازی گری‘‘ کے سوا کسی چیز کی اہمیت نہیں۔
ورنہ کلیات اقبال کا کوئی صفحہ کھولیے، آپ کو رعایت، مناسبت اور کہیں کہیں ایہام کی بھی جلوہ گری نظر آئےگی۔ ممکن ہے (بلکہ اغلب ہے) کہ اقبال نے ان چیزوں کو شعوری طور پر نہ اختیار کیا ہو، لیکن ہر اچھے شاعر کی طرح (اور اقبال اچھے ہی نہیں، بڑے شاعر بھی ہیں) زبان کے امکانات کو بروئے کار لانا اور معنی کو بالقوۃ سے بالفعل میں منتقل کرنا ان کا فطری رجحان تھا۔ میں نے ابھی کلیات اقبال کو فہرست دیکھے بغیر بس یوں ہی کھولا تو ’’شمع اور شاعر‘‘ کا آٹھواں بند سامنے تھا۔ اس کے ہر شعر میں مناسبتیں اور رعایتیں ہیں۔ میں شروع کے صرف تین شعر نقل کرتا ہوں،
پردۂ دل میں محبت کو ابھی مستور رکھ
یعنی اپنی مے کو رسوا صورتِ مینا نہ کر
’’مستور‘‘ کے معنی ہیں ’’چھپا ہوا۔‘‘ عورتوں کو اسی لیے ’’مستورات‘‘ کہتے ہیں کہ وہ پردے میں چھپی رہتی ہیں، لہٰذا ’’پردہ‘‘ اور ’’مستور‘‘ رعایت ہے، خاص کر جب خیال کریں کہ لفظ ’’محبت‘‘ خود مونث ہے۔ ’’دل‘‘ کو ’’مینا‘‘ سے اور دل کے خون کو شراب سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ’’رسوا‘‘ کے ایک معنی ہیں ’’کھلا ہوا، بے پردہ۔‘‘ وہ جسے سب کے سامنے کر دیا جائے، خاص کر اہانت کی غرض سے۔ اب ’’دل‘‘، ’’مینا‘‘، ’’رسوا‘‘، ’’پردہ‘‘ اور ’’مے‘‘ کی مناسبت واضح ہے۔
خیمہ زن ہو وادی سینا میں مانندِ کلیم
شعلۂ تحقیق کو غارت گر کا شانہ کر
حضرت موسیٰ طغریٰ کو وادی سینا میں اللہ تعالیٰ کی تجلی شعلے کی شکل میں دکھائی گئی تھی۔ اس شعلے نے کوہِ طور کو جلاکر غارت کر دیا تھا۔ حضرت موسیٰ طغریٰ اس وقت ایک گھریلو آدمی تھے۔ وہ اپنی حاملہ بیوی حضرت صفورہ کو لے کر کہیں جا رہے تھے۔ رات کا وقت تھا، حضرت صفورہ کی طبیعت خراب ہوئی تو کوہِ طور پر وہ آگ لینے گئے تھے اور شعلۂ جمالِ الٰہی نے ان کو پیغمبر بنا دیا، یعنی اب وہ گھریلو آدمی نہ رہ گئے۔ اللہ کے رسول بن گئے۔ اب انھیں گھر اور گھر والوں سے وہ مطلب نہ رہا جو کسی عام شخص کا ہوتا ہے۔ ان مناسبتوں کی روشنی میں ’’وادی سینا‘‘، ’’کلیم‘‘، ’’شعلہ‘‘ اور ’’غارت گر کا شانہ‘‘ کی معنویت اور لطف دوبالا ہو جاتے ہیں۔
شمع کو بھی ہو ذرا معلوم انجام ستم
صرفِ تعمیر سحر خاکستر پروانہ کر
’’شمع‘‘ اور ’’خاکستر پروانہ‘‘ میں مراعات النظیر تو ہے ہی، جو مناسبت کی ادنیٰ صورت ہے۔ ’’شمع‘‘ اور ’’ستم‘‘ میں بھی مناسبت ہے۔ ایک تو یہ کہ شمع کے شعلے کو تلوار سے تشبیہ دیتے ہیں اور دوسری یہ کہ پروانے کی موت شمع کے عشق میں ہوتی ہے لیکن شمع اس قربانی کے باوجود پروانے کا کچھ خیال نہیں کرتی۔ باریک بات یہ ہے کہ تعمیر کے لئے خاک استعمال کرتے ہیں، لہٰذا ’’تعمیر‘‘ اور ’’خاکستر‘‘ میں مناسبت ہے۔ مزیدار باریکی یہ ہے کہ ’’خاکستر‘‘ کا رنگ بھورا (gray) ہوتا ہے اور سحر کو سفید فرض کرتے ہیں۔ لیکن اس سفیدی کے نمودار ہونے سے پہلے آسمان کا رنگ خاکستری (gray) ہوتا ہے، لہٰذا ’’سحر‘‘ اور ’’خاکستر‘‘ میں بھی مناسبت ہے۔ میں نے اوپر کہا ہے کہ اقبال کے کلام میں ایہام بھی نظر آتا ہے۔ یہ دعویٰ دلیل چاہتا ہے، لہٰذا چند مثالیں پیش خدمت ہیں،
مردمِ چشم زمیں یعنی وہ کالی دنیا
وہ تمہارے شہدا پالنے والی دنیا
گرمیِ مہر کی پروردہ ہلالی دنیا
عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا
تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح
غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح
(جواب شکوہ)
’’مردم چشم‘‘ (یعنی آنکھ کی پتلی، جو کالی ہوتی ہے) اور ’’کالی‘‘ میں مناسبت ظاہر ہے۔ لیکن ’’کالی‘‘ میں ایہام بھی ہے، کہ اس کے ایک معنی ہیں black جو قریب کے معنی ہیں اور دوسرے معنی ہیں ’’کالے رنگ والوں کی‘‘، یہ بعید معنی ہیں اور یہی معنی شاعر نے مراد لیے ہیں۔ ’’پالنے والی‘‘ میں بھی ایہام ہے۔ ایک معنی ہیں ’’پرورش کرنے والی۔‘‘ اور ایک معنی ہیں ’’گود میں لیے رہنے والی‘‘ اول الذکر معنی قریب کے ہیں، مؤخر الذکر معنی بعید ہیں اور وہی مراد شاعر ہیں، یعنی افریقا کی زمین مسلمانوں کے شہدا کو آغوش میں لیے ہوئے ہے۔ اول الذکر معنی بھی نامناسب نہیں، یعنی یہ وہ زمین ہے جو ایسے لوگوں کو پالتی پوستی ہے جو بڑے ہوکر شہید ہوں گے۔ (افریقی مسلمانوں اور مغرب کے سامراجی حاکموں کے درمیان جہاد کی تاریخ بہت پرانی اور خونی ہے۔ یہاں فوری حوالہ الجیریا، مراکش اور سوڈان کے مسلمانوں کے جہاد کا معلوم ہوتا ہے۔)
’’مہر‘‘ بہ معنی ’’سورج‘‘ ہے۔ یہ معنی قریب کے ہیں، لیکن بعید معنی (مہر = محبت، عشق) بھی کارآمد ہیں، جیساکہ اگلے مصرعے سے معلوم ہوتا ہے۔ ’’ہلالی‘‘ میں بھی ایہام ہے۔ اس کے قریبی معنی ہیں ’’ہلالی شکل کی۔‘‘ لیکن یہ معنی مراد نہیں۔ بعید معنی (اسلامی) مراد ہیں، کہ ہلال کو تمام دنیا میں اسلام کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔ ’’بلالی‘‘ میں پھر ایہام ہے۔ قریب کے معنی ہیں ’’حضرت بلالؒ کا دیس (حضرت بلالؒ جہاں سے آئے وہ خطۂ زمین) یہ معنی مناسب ہیں، لیکن مراد شاعر ہے ’’وہ دنیا جس کے باسیوں میں حضرت بلالؓ جیسی صفاتِ عشقیہ پائی جاتی ہیں۔‘‘ بیت کے مصرعوں میں ایہام نہیں، لیکن گزشتہ چار مصرعوں کے کلیدی الفاظ سے مناسبت رکھنے والے الفاظ بہت ہیں (’’آنکھ کا تارا‘‘ محاورہ ہے لہٰذا اس کو شاعر کا بنایا ہوا ایہام نہیں کہہ سکتے، مگر ایہام اس میں بہرحال موجود ہے کہ آنکھ کی پتلی جو سیاہ ہوتی ہے، اسے ’’تارا‘‘ یعنی روشن شے کہا جا رہا ہے۔)
ہر چیز ہے محوِ خود نمائی
ہر ذرہ شہید کبریائی
تیری قندیل ہے ترا دل
تو آپ ہے اپنی روشنائی
اک تو ہے کہ حق ہے اس جہاں میں
باقی ہے نمود سیمیائی
(بال جبریل)
’’شہید‘‘ کے قریب معنی ہیں ’’اللہ کی راہ میں جان دینے والا‘‘ جو مراد شاعر نہیں۔ مراد شاعر ہے ’’گواہ‘‘ جو بعید معنی ہیں۔ ’’روشنائی‘‘ کے قریب معنی مراد نہیں، بلکہ دور کے معنی (روشنی) مراد ہیں۔ ’’باقی‘‘ کے قریبی معنی ہیں ’’وہ جس کو بقا ہے‘‘ اور مصرع اولیٰ میں ’’حق‘‘ کی وجہ سے خیال آتا ہے کہ یہی معنی مراد ہوں گے، لیکن جب مصرع پورا ہوتا ہے تو معلوم ہوتا کہ ’’باقی‘‘ بہ معنی ’’بقیہ چیزیں‘‘ ہے۔
عشق و مستی نے کیا ضبطِ نفس مجھ پر حرام
کہ گرہ غنچے کی کھلتی نہیں بے موج نسیم
(فقروملوکیت۔ ضرب کلیم)
’’نفس‘‘ کے معنی قریب ہیں، ’’سانس‘‘ اور معنی بعید ہیں ’’گفتگو، تکلم‘‘۔ یہاں یہی بعید معنی مراد ہیں۔ لیکن معنی اول بھی بالکل بے کار نہیں۔ ’’نفس‘‘ بہ معنی ’’سانس‘‘ اور ’’موج نسیم‘‘ میں لطیف رعایت ہے۔
یہ مثالیں اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ اقبال کے یہاں رعایت، مناسبت اور ایہام کا اہتمام موجود ہے، چاہے اس کثرت اور تسلسل سے نہ ہو جو ہمیں میرؔ، غالبؔ، میر انیسؔ وغیرہ کے یہاں نظر آتا ہے۔ شاعری کے منصب اور شعر کے تفاعل کے بارے میں اقبال کے خیالات سے ہمیں اتفاق ہو یا نہ ہو، لیکن ان کی شاعری عمل آوری (practice) سے کم وبیش پورا اتفاق کرنا پڑتا ہے۔ اقبال کو کلاسیکی طور طریقوں سے پوری آگاہی تھی اور وہ جدید مغربی تصورات سے بھی اچھی طرح آشنا تھے۔ ان کے برخلاف جوش جیسے شعرا جو ’’کلاسیکی رکھ رکھاؤ‘‘ کے ساتھ ’’جدید خیالات‘‘ کو بیان کرنے کے دعوے دار تھے، نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم کے مصداق ہوکر رہ گئے۔
’’کلاسیکی رکھ رکھاؤ‘‘ سے ان کی آشنائی آزاد، حالی، طباطبائی، حسرت موہانی اور حد سے حد شیلی کی تحریروں کے ذریعے تھی۔ تمام علمیت اور سنجیدگی اور خلوص نیت کے باوجود اردوکی کلاسیکی شعریات سے ان حضرات کی واقفیت بعض تعصبات اور بعض نقصان دہ مغربی اثرات کی بنا پر ناقص رہ گئی۔ جب شبلی جیسے لوگ بعض مغربی خیالات سے اثر پذیری اور ’’ایرانی مذاق‘‘ کو سبک ہندی پر فوقیت دینے کے باعث کلاسیکی اردو غزل کے سچے مزاج شناس نہ بن سکے تو پھر جوش جیسے لوگوں سے کہاں ممکن تھا کہ وہ ہماری کلاسیکی روایت سے واقف بھی ہوں، اسے سمجھنا تو بڑی بات ہے۔
’’جدید خیالات‘‘ سے ان لوگوں کی ملاقات انٹر اور حد سے حد بی اے میں پڑھائی جانے والی انگریزی نظموں تک محدود تھی اور یہ نظمیں انھیں جس طرح پڑھائی گئی تھیں اور جس نظریۂ شعر کی تربیت انھیں تھی، اس کی رو سے شیلی، ٹینی سن، ٹامس گرے، ٹامس مور اور ورڈز ورتھ وغیرہ سب ایک ہی طرح کے شاعر تھے (یعنی سب ایک درجے کے اچھے شاعر تھے۔)
مثال کے طور پر گرے کی Elegy کا ترجمہ طباطبائی نے کیا، اگرچہ وہ انگریزی بہت کم جانتے تھے۔ پھر ان کی دیکھا دیکھی اس نظم کے متعدد تراجم ہوئے اور ایک سے ایک خراب۔ لیکن ان تمام تراجم کے ذریعے جس ہوش مندی (sensibility) کا اظہار ہوتا تھا (بلکہ جن مختلف ہوش مندیوں کا اظہار ہوتا تھا) ان سب کو سچی مغربی یا انگریزی ہوش مندی سمجھ لیا گیا۔ نادر کاکوروی نے جو تراجم انگریزی سے کیے وہ بھی ایسی ہی نظموں کے تھے جو کالجوں میں پڑھائی جاتی تھیں، بلکہ ان کے بعض تراجم تو ایسی نظموں کے تھے جو چھٹے ساتویں درجے سے زیادہ کے معیار کی نہ تھیں۔ انگریزی سے نادر کاکوروی کی واقفیت کا یہ عالم تھا کہ وہ Rose Hurtwick Thorpe نامی شاعر کو مرد سمجھتے تھے، حالانکہ وہ عورت تھی۔
نادر کاکوروی کے تراجم بھی اصل سے اتنی ہی دور تھے، جتنے طباطبائی اور ان کے مقلدوں کے تراجم تھے۔ لیکن ان کو بھی انگریزی ہوش مندی کا مظہر سمجھ لیا گیا اور کہا گیا کہ ان اور اس طرح کے تراجم کی بنا پر اردو ادب میں انگریزی شاعری کی حسیت عام ہونے لگی ہے۔ چنانچہ ’’جذبات نادر‘‘ (مطبوعہ 1910) کی تقریظ میں عبدالحلیم شرر نے لکھا ہے، ’’حضرت نادر نے کوشش کی ہے کہ انگریزی شاعری کے لطیف مذاق کو اردو میں پیدا کریں۔۔۔ حضرت نادر نے شعرائے اردو کی ایک نئے میدان میں رہبری کی ہے۔‘‘ مرزا محمد ہادی رسوا نے لکھا کہ نادر کا مذاق شعر جس انداز کا ہے وہ ’’ہمارے ملکی شعرا میں کم تر اور شعرائے یورپ میں بیش تر ہے۔‘‘
مولوی عزیز مرزا نے فیصلہ دیا کہ ’’نادر اچھی طرح جانتے ہیں کہ مغرب کے خیالات کو مشرق کی شان دار زبان میں کیوں کر ادا کریں۔‘‘ لیکن ایمان کی بات یہ ہے کہ نادر کاکوروی ہی کیوں، اس زمانے کے تقریباً تمام مترجمین کو انگریزی شاعری کی بالکل مبتدیانہ شدبد تھی۔ زبان وہ بہت کم جانتے تھے اور اس شعریات اور تصور کائنات سے وہ بالکل بےخبر تھے جس نے انگریزی شاعری کو جنم دیا تھا۔ لیکن یہی لوگ اور ان کے تراجم ہمارے عام پڑھنے والوں اور معمولی انگریزی داں شاعروں کے لیے ’’جدید مغربی خیالات‘‘ کے پیامبر بنے۔
انگریزی سے جو نظمیں ہمارے یہاں ترجمہ کی گئیں ان میں کچھ ایسی نظمیں تھیں جن میں شاعر کی مختصر سی ملاقات کسی لڑکی یا بچے، یا پُراثر شخصیت سے ہوتی ہے۔ جوش کی نظم ’’جنگل کی شاہزادی‘‘ اسی طرح کی نظموں کے اتباع میں لکھی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ جوش صاحب انگریزی نظموں کی اصل روح سے بےخبر تھے اور اردو کے کلاسیکی طور طریقوں سے ناآشنا تھے، مثلاً انھوں نے ’’جنگل کی شاہزادی‘‘ میں ایک دیہاتی لڑکی سے اپنی ملاقات افسانوی (اور اپنے خیال میں رومانی) انداز میں بیان کی۔ گویا انھوں نے ظاہر کیا کہ انگریز شعرا کی طرح انھیں بھی اس بات کا احساس ہے کہ حسن فطرت یا وہ حسن جو فطرت سے قریب ہو، زیادہ مؤثر اور ’’فطری‘‘ اور ’’سچا‘‘ ہوتا ہے۔
انہیں یہ تو معلوم نہ تھا کہ ایسے حسن کو انگریزی والے بیان کس طرح کرتے ہیں، لیکن یہ بات وہ ضرور جانتے تھے کہ اردو میں سراپا نگاری کی رسم ہے، لہٰذا انھوں نے جھٹ ایک سراپا بزعم خود نظم کر دیا۔ سراپا یا کسی بھی کلاسیکی صنف (یا ذیلی کلاسیکی صنف) میں مناسبت الفاظ کی مرکزی اہمیت ہوتی ہے تاکہ بیان مربوط ہو اور معشوق (یا حسین شخص جس کا سراپا لکھا جا رہا ہے) کی جسمانی شخصیت کا نامیاتی اور مصورانہ بیان ہو سکے۔ سراپا نگاری کے کچھ رسومیات بھی تھے۔
وہ شاعر جو تخیل کی زیادہ بلندی یا پیکر کی رنگا رنگی پر قدرت نہ رکھتے تھے، انھیں رسومیات کے سہارے اپنا کام چلا لیتے تھے۔ جوش صاحب کو مناسبت الفاظ کے فن سے واقفیت نہ تھی اور نہ وہ سراپا نگاری کی رسومیات جانتے تھے (یا اگر وہ جانتے بھی تھے تو اسے سال خوردہ، ’’غیرحقیقی‘‘ اور اَن نیچرل شاعری کا طور قرار دیتے ہوں گے۔) اب دیکھیے انھوں نے ’’جنگل کی شاہزادی‘‘ میں سراپا نگاری کے نام پر اردو شاعری کو کس طرح رسوا کیا ہے۔ پورا سراپا ناقابل برداشت ہے، لہٰذا صرف پانچ شعرنقل کرتا ہوں،
زاہد فریب، گل رخ، کافر، دراز مژگاں
سیمیں بدن، پری رخ، نوخیز، حشر ساماں
خوش چشم، خوب صورت، خوش وضع، ماہ پیکر
نازک بدن، شکر لب، شیریں ادا، فسوں گر
کافر ادا، شگفتہ، گل پیرہن، سمن بو
سروِچمن، سہی قد، رنگیں جمال، خوش رو
گیسو کمند، مہوش، کافور فام، قاتل
نظارہ سوز، دل کش، سرمست، شمع محفل
ابرو ہلال، مے گوں، جاں بخش، روح پرور
نسریں بدن، پری رخ، سیمیں عذار، دلبر
یوں تو مندرجہ بالا اشعار کو شاعری سے زیادہ موزوں تُک بندی ہی کہنا چاہئے، لیکن اس سے تنقید کا حق ادا نہیں ہوتا۔ اگر بقول فرینک کرموڈ (Frank Kermode) کسی نظم پر بہترین رائے زنی کسی اور نظم سے ہی ہوتی ہے، تو اس سراپا کی سب سے آسان تنقید یہ ہے کہ کسی اوسط درجے کے کلاسیکی شاعر کے یہاں سے کوئی سراپا نقل کر دیا جائے۔ زیادہ دور نہ جائیں تو ’’داستان امیر حمزہ‘‘ ہی میں سے کوئی نمائندہ سراپا اٹھالیں۔ لہٰذا ملاحظہ ہو ’’طلسم ہوش ربا‘‘ جلد سوم (مصنف احمد حسین قمر، مطبوعہ 1892) کے صفحہ 200 پر ہے،
کیا خوب جبیں ہے مطلعِ نور
رنگِ رخِ صبح جس سے کافور
شیرازہ پے کتاب ہر ناز
فہرست جریدہ ہائے اعجاز
صحبت میں جو باریاب ہو جائے
آئینہ حیا سے آب ہو جائے
دونوں رخِ صاف باغ امید
گویا ہے قرانِ ماہ و خورشید
سینے کے بیان کیا ہوں اوصاف
ڈبیاں معجونِ باہ کی صاف
کیا نورِ ابد ملا ازل میں
سینہ ہے کہ آئنہ بغل میں
پُرنور شکم ہے آئنہ صاف
ہے چاہ ذقن کا عکس وہ ناف
چیتے کی کمر بہت ہے مشہور
نازک ہے یہ اس سے چشمِ بد دور
توصیف ہو زانوؤں کی کیوں کر
دو پلۂ حسن ہیں برابر
سب سے پہلی بات تو یہ کہ جوشؔ صاحب صرف فوں فاں کرتے رہے ہیں۔ وہ دور ہی دور سے جسم کا طواف کرتے رہے ہیں، ورنہ کوئی واقعی عضو بدن انھوں نے نہ دیکھا ہے اور نہ ہمیں دکھا سکتے ہیں۔ موٹی موٹی تعلیمی باتوں سے آگے جانے کی ہمت ان میں نہیں۔ ’’طلسم ہوشربا‘‘ سے جو سراپا میں نے بالکل یوں ہی سرسری تلاش کے بعد اخذ کیا ہے، وہ اس داستان کے عام معیار سے ذرا کمتر ہے اور میں نے ایسا جان بوجھ کر کیا ہے کہ جوڑی کچھ تو برابر کی ہو۔ لیکن شاعری تو دور رہی، بدن کے بیان میں یہ سراپا ’’جنگل کی شاہزادی‘‘ سے بہت آگے ہے۔ اس میں جبیں، رخسار، سینہ، بغل، شکم، ذقن، ناف، کمر، زانو، اتنے اعضا سے ہم دوچار ہوتے ہیں۔ جوشؔ صاحب مژگاں، لب، گیسو، ابرو، عذار سے آگے نہیں جاتے اور ان کا ذکر بھی وہ الگ الگ، ٹھٹک ٹھٹک کر، اِٹھلا اِٹھلا کر، رکتے رکتے کرتے ہیں اور ذکر بھی صرف نام کی حد تک۔ صفت یا ثنا کچھ نہیں بیان کرتے (بلکہ بیان کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔) محمد حسین جاہ نے اپنے سراپا میں تمام اعضا کی صفات بیان کی ہیں اور زیادہ تر ایسے الفاظ ہیں جن میں پیکر کا انداز نمایاں ہے۔
ممکن ہے کہا جائے کہ جوشؔ صاحب سراپا نہیں لکھ رہے ہیں، وہ تو لڑکی کے حسن کا بیان شاعرانہ لہجے میں کر رہے ہیں، یعنی وہ اپنی ہی طرح کی نظم لکھ رہے ہیں، سراپا کی رسومیات سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں اور نہ انھیں مغربی شاعری سے کوئی خاص تمتع حاصل کرنے کا دعویٰ ہے، لہٰذا آئیے جوش صاحب کے اشعار کا محاکمہ شاعری کے معیار سے کریں۔
ایک ہی نظر میں بات کھل جاتی ہے کہ اگر بےجا تکرار، بے جوڑ اجتماع الفاظ، بے معنی اور رسمی صفاتی الفاظ کے مجموعے کا نام شاعری ہے تو اور بات ہے، ورنہ جوشؔ صاحب کے منقولہ بالا اشعار کسی طرح شاعری کہلانے کے مستحق نہیں اور ان کا سب سے بڑا عیب الفاظ کی عدم مناسبت ہے اور جب عدم مناسبت ہو تو تکرار بھی اکثر پیدا ہو جاتی ہے۔ بہرحال، مصرع مصرع کرکے دیکھتے ہیں۔
(۱) زاہد فریب، گل رخ، کافر دراز مژگاں
زاہد فریب اور کافر میں ایک حد تک مناسبت ہے۔ لیکن زاہد فریب اور گل رخ میں کوئی مناسبت نہیں۔ گل رخ اور دراز مژگاں میں بھی کوئی مناسبت نہیں۔ لیکن خیر، پہلا ہی مصرع ہے۔ ممکن ہے کوئی بات نکلے۔ اس وقت تو اتنا ہی ہے کہ گل رخ انسان کی صفت مانی جاتی ہے۔ دراز مژگاں انسانوں کے علاوہ آہوؤں وغیرہ کی صفت بھی ہے۔ لیکن چلئے دراز مژگانی (نازک، گلابی، شاداب، وغیرہ) چہرہ ہے اور ’’دراز مژگاں‘‘ کسی اور ہی عالم کی چیز ہے۔ دونوں میں کوئی ربط ومناسبت نہیں۔
(۲) سیمیں بدن، پری رخ، نوخیز، حشر ساماں
سیمیں بدن کا گزشتہ مصرعے سے کوئی تعلق نہیں کہ وہاں بات گل رخی اور درازی مژگاں کی تھی۔ گل رخ کے بعد پری رخ میں رخ کی تکرار بھی ہے اور مضمون کی پستی بھی کہ پورے بدن کو سیمیں کہا، لیکن صرف چہرے کو پری کا چہرہ بتایا۔ نوخیز میں تکراردرتکرار ہے، کہ جو گل رخ اور سیمیں بدن ہے، وہ نوخیز ہوگا ہی (اس سے پہلے کہہ بھی چکے ہیں)، دیکھاہے کہ ایک لڑکی میدان میں کھڑی ہے۔ (اگر لڑکیاں نوخیز نہیں ہوتیں تو کیا بوڑھی عورتیں نوخیز ہوتی ہیں؟)
یہ تینوں فقرے انتہائی رسمی ہیں، بلکہ مصرعۂ اولیٰ کے بھی چاروں فقرے بالکل رسمی اور معنی باختہ ہیں۔ لیکن ان میں سے اکثر کا تعلق لڑکی کے ظاہری سراپا سے تو ہے۔ جسمانی اور حسیاتی بیان نہ سہی، موضوع سے متعلق بیان تو ہے۔ اگلے فقرے میں جوشؔ صاحب اسے بھی ترک کر دیتے ہیں۔ اب اچانک ایک بالکل رسمی اور ساتھ ہی ساتھ نامناسب فقرہ (حشر ساماں) سامنے آتا ہے۔
’’حشر ساماں‘‘ سے زیادہ نامناسب فقرہ یہاں مشکل ہی سے ہوگا۔ حشر ساماں کے پہلے جو کچھ اب تک کہا گیا تھا وہ محض bombast محض لندھور بن سعدان کی بے لطف داستان تھی، لیکن کم وبیش سراپے سے متعلق تھی۔ اب وہاں سے کھسکا کر ایک اور بھی عمومی لیکن جسم کو صورت سے زیادہ عمل سے متعلق بات پر اٹکا دیا۔ بہرحال چلیے، یہ شعر کا آخری لفظ ہے، ممکن ہے اگلے شعر میں اس سے مربوط کوئی مضمون ہو (ملحوظ رہے کہ جوش صاحب غزل کے خلاف اس لیے تھے کہ اس کے اشعار میں ربط نہیں ہوتا۔)
(۳) خوش چشم خوب صورت خوش وضع ماہ پیکر
سخت مایوسی ہوتی ہے کہ حشر سامانی کی تفصیل کے بجائے خوش۔۔۔ خوش۔۔۔ خوش کی تکرار سننی پڑتی ہے۔ چلیے خوش چشم کاتھوڑا سا جواز ہے، لیکن جو گل رخ، پری رخ، اسے پھر خوب صورت کہہ کر مضمون کو پست کرنا اور تکرار کے ذریعے ذلیل کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ اور لڑکی خوب صورت، سیمیں بدن ہے، نوخیز ہے، وہ خوش وضع تو ہوگی ہی۔ کیا خوش وضع ہونا، سیمیں بدن ہونے سے بڑھ کر ہے؟ اور پھر جب وہ سیمیں بدن ہے تو پھر اسے ماہ پیکر کیوں کہا؟ سیمیں بدن اور ماہ پیکر تقریباً ہم معنی ہیں، انتہائی رسمی ہیں اور اثر کے لحاظ سے برابر ہیں۔
(۴) نازک بدن، شکر لب، شیریں ادا، فسوں گر
نازک بدن اگر بیر کے پھل کے معنی میں ہے تو اور بات ہے۔ ورنہ جو شخص خوب صورت، سیمیں بدن، گل رخ، پری رخ وغیرہ وغیرہ ہو، اسے نازک بدن کہنا، رتبۂ معشوقی سے گرا دینا اور تکرار کے باسی بدبودار پھولوں کا ہار پہنانا ہے۔ بہرحال نازک بدن اور ماہ پیکر میں تھوڑی سی مناسبت تھی، شکر لب کہہ کر اسے بھی ضائع کر دیا۔ شکر لب تو اس وقت مناسب تھا جب بوسہ لے کر دیکھا ہوتا۔ دور سے کیسے کہہ دیا کہ شکر لب ہے؟ چلیے مان لیا کہ دور ہی سے میٹھے لبوں والی لگ رہی تھی لیکن اس کی شیریں ادائی کیسے معلوم کر لی؟ ابھی تو پاس بھی نہیں گئے ہیں، بات بھی نہیں کی ہے۔
شکر لب اور شیریں ادا یہ پہلی صحیح مناسبت تھی جو ہمارے شاعر نے دریافت کی تھی۔ لیکن افسوس کہ دونوں فقرے صحیح جگہ پر نہیں ہیں۔ پھر غضب یہ کیا کہ فسوں گر لکھ دیا۔ اگر شیریں ادائی کو فسوں گری مان بھی لیں تو بقیہ سب فقروں کو کدھر لے جائیں؟ چلیے خوش چشم کو فسوں گر فرض کر لیا، لیکن خوش وضع، خوب صورت، نازک بدن، یہ سب فسوں گری کی شان ہیں یا ان سب میں شانِ فسوں گری ہے، لہٰذا فسوں گری بے معنی ہے یا یہ فقرے بے معنی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ فقرے ہی اس قدر رسمی اور بےروح ہیں اور اس میکانیکی ڈھنگ سے برتے گئے ہیں کہ بے معنی ہی لگتے ہیں۔
(۵) کافر ادا، شگفتہ، گل پیرہن، سمن بو
ابھی ابھی اسے شیریں ادا اور کافر کہہ چکے تھے، اب کافر ادا کہا، گویا ان کے خیال میں کافر ادائی کوئی اور چیز ہے اور کافری اور شیریں ادائی اور چیز ہے۔ ہوگا، لیکن ان میں اتناکم فرق ہے اور یہ سب فقرے اتنے رسمی اور مشینی ہیں کہ یہاں تک آتے آتے دماغ چکرانے لگتا ہے۔ پھر ابھی گل رخ، نوخیز، نازک بدن، سب کچھ کہہ چکے تھے، مگر قادر الکلامی کی شہرت کے باوجود، جوشؔ صاحب کے یہاں دراصل الفاظ کی اس قدر کمی ہے اور تخیل کی ناکامی اس قدر زبردست ہے کہ پھر شگفتہ کہہ دیا۔ گل رخ اور پری رخ کو گل پیرہن کہہ دیا اور ابھی لڑکی کے قریب بھی نہیں پہنچے لیکن اسے سمن بو کہہ دیا۔
تکرار اور عدم مناسبت کا بازار گرم ہے۔ شگفتہ اور گل پیرہن اور سمن بو میں مناسبت ہے۔ لیکن کافر ادائی سے ان کا ربط نہیں اور یہ صفات کافر ادا کے بعد لائی گئی ہیں، لہٰذا انھیں کافر ادائی کی وضاحت کرنا چاہیے تھی۔ لیکن جو چیز محض رسمی، فرضی اور مشینی طور پر لائی گئی ہو، اس کی وضاحت کہاں ممکن تھی؟ چار رسمی فقرے اور جس فقرے سے آغاز کلام کیا (کافر ادا) اس کی کوئی مناسبت بعد کے فقروں سے نہیں، اگلے مصرعے سے بھی نہیں۔ الا یہ کہ سب فقرے رسمی اور مشینی ہیں۔
(۶) سرو چمن، سہی قد، رنگیں جمال، خوش رو
خدا معلوم معمولی سرو نے کیا بگاڑا تھا کہ سروچمن کہا اور پھر سہی قد کہہ کر اس کی تکرار کیوں کی؟ رنگیں جمال کا فقرہ بے معنی ہے (بے رنگ جمال کون سا ہوتا ہے؟) اور گل رخ، گل پیرہن، شگفتہ وغیرہ وغیرہ کہنے کے بعد رنگیں جمال چہ معنی دارد؟ مناسبت اب بھی غائب ہے اور خوش رو کہہ کر تو بیڑاہی غرق کر دیا۔ پورے مصرعے میں کسی لفظ سے خوش رو کو کوئی مناسبت نہیں اور اب تک خوش وضع، خوش چشم وغیرہ ہو چکا تھا تو کون سا فائدہ حاصل ہوا تھا کہ خوش رو بھی کہہ دیا۔ سچی بات یہ کہ یہ سارا تجزیہ اس قدر اکتا دینے والا ہے کہ آگے کی ہمت نہیں پڑتی۔ ایک سادہ سا نقشہ بناکر بات ختم کرتا ہوں۔
مصرع نمبر مناسبت عدم مناسبت تکرار
(۱) زاہد فریب گل رخ
کافر دراز مژگاں
(۲)سیمیں بدن پری رخ
نوخیز
(۳)خوش چشم ماہ پیکر خوش چشم
خوش وضع خوب صورت
خوش وضع
ماہ پیکر
(۴) شکر لب نازک بدن نازک بدن
شیریں ادا فسوں گر
(۵) گل پیرہن کافر ادا کافر ادا
سمن بو شگفتہ
شگفتہ
(۶) سرو چمن سرو چمن
رنگیں جمالسہی قد
خوش رو
(۷) کافور فام مہوش
قاتل
گیسو کمند
(۸) نظارہ سوز دل کش
دل کش
سر مست
شمع محفل
(۹) جاں بخش ابرو ہلال
روح پرور مے گوں
(۱۰) دلبر نسریں بدن
پری رخ پری رخ
سیمیں عذار سیمیں عذار
دلبر
اب اور کیا باقی رہا ہے؟ اتمام حجت کے لیے ’’طلسم ہوش ربا‘‘ والے سراپا کے اول دس مصرعوں کا نقشہ بھی بنائے دیتا ہوں۔
مصرع نمبر مناسبت عدم مناسبت تکرار
(۱) جبیں
مطلع
نور
(۲) رنگ رخ صبح
کافور
(۳) شیرازہ ناز
کتاب
(۴) فہرست
جریدہ
اعجاز (ناز)
(۶) آئینہ
آب
حیا
(۷) رخ باغ امید
صاف
(۸) قران ماہ و خورشید ماہ و خورشید
(باغ کے لیے نامناسب
(رخ کے لیے مناسب)
(۹) سینہ
صاف
(۱۰) ڈبیاں
معجونِ باہ
اوصاف
یہ کہنے کی ضرورت شاید نہ ہو کہ ’’ہوش ربا‘‘ والے سراپے میں مصرعے چھوٹی بحر کے ہیں اور پھر بھی شاعر نے حروف عطف وجار، افعال وغیرہ لاکر بیان کو مربوط رکھا ہے۔ جوشؔ صاحب کی بحر مثمن ہے، لیکن انھوں نے صرف صفات جمع کیے ہیں۔ ان کو جوڑنے کی کوشش کرتے تو اور مشکل ہوتی ہے۔ افعال وغیرہ سے خالی مصرعے خوب لگتے ہیں اگر ان سے کوئی معنوی یا ریطوریقائی حسن حاصل ہو۔ یہاں تو کوئی بیس مصرعے صرف فہرست ہی فہرست ہیں اور فہرست بھی گویا پنساری کی دکان جیسی ہے۔
اس قسم کی درازنفسی اور عدم مناسبت سے جوشؔ صاحب کا کلام بھرا پڑا ہے۔ ان کی ایک اور مشہور نظم ’’فتنۂ خانقاہ‘‘ جو اچھی طنزیہ نظم ہے اور اعلا درجے کی ہوتی اگر اس میں بھی وہی عیوب نہ ہوتے جو ہم نے ’’جنگل کی شاہزادی‘‘ میں ا بھی دیکھے۔
ایہام، رعایت اور مناسبت، اردو شعرا نے معنی آفرینی کے یہ تین نئے طریقے کم وبیش از خود دریافت کیے۔ یہ زمانہ سترہویں صدی کے اواخر اور اٹھارویں صدی کے اوائل کا تھا۔ پھر کوئی سو برس تک کلاسیکی غزل، بلکہ کلاسیکی شعر کی شعریات میں کوئی نیا موڑ نہ آیا۔ پھر اٹھارویں صدی کے اواخرمیں (یا غالبؔ کے سال پیدائش ۱۷۹۷ء سے پانچ سات برس پہلے) دلی میں شاہ نصیر نے اور لکھنؤ میں ناسخؔ نے خیال بندی کا آغاز کیا۔ شاہ نصیر کا سال تولد نہیں معلوم لیکن نصیرؔ و ناسخؔ کی تاریخ وفات ایک ہے۔ (۱۸۳۸ء) اس وقت تک خیال بندی پوری طرح جم چکی تھی اور اس طرز کے سب سے بڑے شاعر غالبؔ نے اپنی استادی قائم کر لی تھی۔ ذوقؔ تو پہلے ہی اس رنگ کے گرویدہ ہو چکے تھے۔ مومنؔ نے بھی اس انداز کو ایک حد تک اپنایا تھا۔
مصحفیؔ نے ناسخؔ کو اس طرزنو کا موجد ٹھہرایا ہے اور آتشؔ کو حتی کہ خود کو بھی، اس اسلوب میں ناسخؔ کا متبع قرار دیا ہے۔ ناسخؔ کی پیدائش ۱۷۷۱ء/۱۷۷۲ء کی ہے اور انھوں نے (بقول مصحفیؔ بیس برس کی عمر میں (بیس قمری برس یعنی ۱۷۸۹ء/۱۷۹۰ء سے) شہر کہنا شروع کیا تھا۔ شاہ نصیر ۱۷۵۵ء اور ۱۷۶۰ء کے درمیان پیدا ہوئے ہوں گے اور انھوں نے ۱۷۷۵ء۔ ۱۷۸۰ء کے درمیان شاعری شروع کی ہوگی۔ اس اعتبار سے شاہ نصیر کو خیال بندی کے اسلوب میں اولیت ہونا چاہیے لیکن ممکن ہے شاہ نصیر الدین نے بھی شروع شروع میں عام طرز (میرؔ اور سوزؔ کا طرز) میں شعر گوئی کا آغاز کیا ہو اور بعد میں ناسخ کے رنگ کی طرف مائل ہوئے ہوں۔
مصحفیؔ نے تو صاف لکھا ہے کہ ناسخؔ نے ’’طرز ریختہ گویانِ سادہ کلام‘‘ پر عرصۂ قلیل میں ’’خط نسخ‘‘ کھینچ دیا۔ اس پر تفصیل کے لیے رشیدؔ حسن خاں کا دیباچۂ انتخاب ناسخؔ، مطبوعہ مکتبہ جامعہ ملاحظہ ہو۔ تنویرؔ احمد علوی کا کہنا ہے کہ شاہ عالمؔ کے آخری زمانے (وفات ۱۸۰۶ء) تک شاہ نصیرؔ کی شہرت اطراف ملک میں پھیل چکی تھی۔ مصحفیؔ نے بھی ’’ریاض الفصحاء‘‘ میں ایسا ہی لکھا ہے (تاریخ ترتیب ۱۸۰۶ء) لیکن مصحفیؔ نے شاہ نصیرؔ کو موجد طرزنو نہیں کہا ہے۔ اس کے برخلا ف انھوں نے ’’تذکرۂ ہندی‘‘ (تاریخ ترتیب ۱۷۹۴ء) میں شاہ نصیر کی درّا کی طبع وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ لیکن ناسخؔ کا تذکرہ اس میں نہیں ہے۔ اس سے یہ خیال گزرتا ہے کہ شاہ نصیرؔ نے ناسخؔ کے پہلے اپنا رنگ پوری طرح واضح نہ کیا تھا اور دونوں ہی شعرا نے کم وبیش ایک وقت میں اس طرزنو کو اپنایا جسے ہم ’’خیال بندی‘‘ کہتے ہیں۔
بہرحال، یہ بات بنیادی طور پر اہم نہیں ہے کہ خیال بندی کو اردو میں رائج کرنے کا سہرا شاہ نصیرؔ اور ناسخؔ دونوں کے سر ہے یاصرف ناسخؔ کے سر۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اٹھارویں صدی کے اواخر یا انیسویں صدی کے بالکل اوائل میں خیال بندی ایک ایسے طرز کے طور پر رائج ہوئی جسے اردو غزل کا نیا موڑ کہا جا سکتا ہے۔ اٹھارویں صدی کے اواخر اور انیسوں صدی کے اوائل میں دلی میں بقول محمد حسین آزاد، علم استادی شاہ نصیرؔ کے ہی ہاتھ میں تھا۔ لیکن یہ بھی ہے کہ ناسخؔ کی غزل جب جب لکھنؤ سے آتی تھی تو ذوقؔ اس پر بطور خاص غزل کہتے تھے۔ ممکن ہے یہ بات محمد حسین آزاد نے ذوقؔ پر شاہ نصیرؔ کے اثر کی اہمیت کم کرنے کی غرض سے لکھی ہو، لیکن ناسخؔ کی زمینوں میں ذوقؔ نے غزلیں کہی بہت ہیں۔
فی الحال ہم اتنا کہیں گے کہ خیال بندی کے اسلوب میں سب سے بڑا نام اور شاید سب سے پہلا نام ناسخؔ کا ہے اور سوچنے کی بات ہمارے لیے یہ ہے کہ جس طرز نے اتنا رسوخ قائم کر لیا تھا کہ مصحفیؔ جیسے استاد نے بڑھاپے کے عالم میں بھی اس کو بےتکلف اختیار کیا، وہ آج تقریباً سو سال سے کوچۂ ملامت میں کیوں ہے اور اس کا آفتابِ اقبال کیوں اس قدر گہنا گیا کہ آج بہت سے لوگ ناسخؔ کو شاعر ہی نہیں مانتے! ناسخؔ کی بدنصیبی کو بھی دخل ہوگا، کیونکہ آتشؔ بالکل انھیں کی طرح کے شاعر ہیں اور ناسخؔ کا شعوری اتباع بھی انھوں نے کیا ہے۔
لیکن آتشؔ کو سچا اور بڑا شاعر ہم آج بھی مانتے ہیں اور ناسخؔ کو کوئی جھوٹوں بھی نہیں پوچھتا، حتی کہ ’’اصلاح بیان‘‘ جو میرے خیال میں لغو اور لاطائل شے، اور آج کے نام نہاد ’’استادوں‘‘ کے نزدیک بڑی زوردار چیز ہے، اس کا بھی سہرا ناسخؔ کے سر سے اتار لیا گیا۔ رشید حسن خاں نے دکھایا ہے کہ جو ’’اصلاحیں‘‘ اور زبان کی جو ’’ترقی‘‘ اور ’’صفائی زبان‘‘ کے جو اصول ناسخؔ سے منسوب کیے جاتے ہیں ان کے بارے میں نہ ناسخؔ کا قول ہمارے پاس ہے اور نہ ان کا عمل اس کی گواہی دیتا ہے۔
یہ بات میرے نزدیک اہم نہیں کہ ناسخؔ نے ’’زبان کی اصلاح‘‘ کی یا نہیں، اغلب ہے کہ نہیں کی۔ مجھے اس بات میں بھی شک ہے کہ ’’اصلاح زبان‘‘ کا کوئی تصور ’’آب حیات‘‘ کی اشاعت کے پہلے ہمارے یہاں رائج تھا۔ شاعر (یعنی Parole) کو زبان کے عام بولنے والوں کی عظیم الشان اور ممکن تعداد پر (یعنی Langue پر) حاوی قرار دینا اور Parole کو Langue سے زیادہ مقتدر بتانا، یہ تصور کلاسیکی اردو میں نہیں، محمد حسین آزاد اور حالی کا ایجاد کردہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ناسخؔ (اور شاہ نصیرؔ، آتشؔ، ذوقؔ، اصغر علی خاں نسیمؔ وغیرہ) اور سب سے بڑھ کر غالبؔ، ان لوگوں نے خیال بندی کے ذریعے کلاسیکی اردو غزل کی شعریات میں آخری اہم اضافہ کیا۔ غالبؔ کی موت (۱۸۶۹ء) پر کلاسیکی اردو شعریات کی تقریباً دو سو سالہ تاریخ کا اختتام ہوتا ہے۔
خیال بندی کو بڑی حد تک کیفیت کی ضد کہہ سکتے ہیں۔ خیال بند شاعر ماہر حیاتیات کی طرح دور دور کے کنویں جھانکتا ہے، ہر پتھر کو الٹتا پلٹتا ہے کہ شاید کوئی نیا ذی روح، کوئی نیا پودا ہاتھ لگ جائے۔ اس کا شعر جذبات یا محسوسات کو فوری طور پر برانگیخت نہیں کرتا، بلکہ ذہنی سطح پر ہمیں متحرک کرتا اور چونکاتا ہے۔ کیفیت کا شاعر معنی اور مضمون سے زیادہ جذباتی تاثر پیدا کرنے کی طرف مائل رہتا ہے۔ اس کا شعر اکثر بظاہر معنی کے لحاظ سے کمزور یا معنی کی گہرائی اور تہ داری سے بے نیاز محسوس ہوتا ہے۔
خیال بندی اور کیفیت ان دو اصطلاحوں کے کھو جانے کے باعث ہم غالبؔ، ناسخؔ، ذوقؔ، شاہ نصیرؔ، آتشؔ، دیا شنکر نسیمؔ وغیرہ شعرا سے پوری طرح لطف اندوز ہونے سے قاصر رہے۔ اور نہ ہی ہم ان کے کلام، اور میرؔ، میر سوزؔ، مصحفیؔ، قائم وغیرہ شعرا کے اکثر کلام کے درمیان تفریق کرنے کے لئے کارآمد طریقوں کو اپنا سکے۔ ایک اور نقصان یہ ہوا کہ کیفیت کے شعروں کی فوری اثر انگیزی کے باعث ہم نے یہ فرض کر لیا کہ وہی شعر اچھا ہے جو دماغ سے زیادہ دل، تخیل سے زیادہ احساس اور ’’خارج‘‘ سے زیادہ ’’داخل‘‘ کو متاثر کرے۔ حسرتؔ موہانی کا شعر اسی غلط تصویر پر مہرِ توثیق لگتا ہے،
شعر دراصل ہیں وہی حسرتؔ
سنتے ہی دل میں جواتر جائیں
’’از دل خیزد و بر دل ریزد‘‘ جیسے بے معنی فقرے بھی ہمارے یہاں اسی وجہ سے عام ہوئے کہ کیفیت والا شعر فوراً جذبات کو متحرک کرتا تھا۔ اگر ہم نے کیفیت اور خیال بندی کی اصطلاحیں بھلا نہ دی ہوتیں تو ہم اپنے تنقیدی تاثرات کو زیادہ مربوط اور مدلل طریقے سے پیش کر سکتے۔ اب تو یہ ہوا کہ ہم نے کیفیت کی اصطلاح نہ استعمال کی، صرف ’’دل میں اتر جانے‘‘ اور ’’دل پر اثر کرنے‘‘ وغیرہ کی بات کرتے رہے اور خیال بند شعرا کے کلام کو ہم‘‘ خارجیت‘‘ اور ’’نثریت‘‘ پر مبنی یا ’’تصنع سے بھرپور‘‘ شاعری کہتے رہے۔ صرف غالبؔ اور ایک حد تک آتشؔ اس قتل عام میں بچ نکلے۔
جیساکہ ہم جانتے ہیں، غالبؔ کے بارے میں حالی نے پھر عبدالرحمن بجنوری نے سند دے دی تھی کہ ان کی شاعری کو ’’مغربی‘‘ اصول نقد اور عمل شعر کی روشنی میں دیکھا جائے تو بھی وہ کامیاب ٹھہرتی ہے۔ پھر غالبؔ کا مزاج بھی بیسویں صدی کے مزاج سے کئی معاملات میں ہم آہنگ تھا اور غالبؔ بہرحال ناسخؔ، ذوقؔ، شاہ نصیرؔ وغیرہ کے مقابلے میں بہت بڑے شاعر بھی تھے۔ لیکن چونکہ ہم لوگ وہ طریقے بھول چکے تھے جن کو کام میں لاکر ناسخؔ اور ذوقؔ اور شاہ نصیرؔ جیسے شعرا کی صحیح تعیین قدر ممکن تھی، اس لیے ان بیچاروں کو بہت نقصان پہنچا، یعنی غالبؔ سے کم تر درجے کے شاعر ہونے کی بنا پر انھیں نا شاعر یا غیرشاعر ہی قرار دے دیا گیا۔ ادھر ناسخؔ وذوقؔ سے کم تر درجے کے شعرا، مثلاً انعام اللہ خاں یقینؔ عبد الحی تاباں ؔ وغیرہ کو ناسخؔ وذوقؔ سے بہتر کہہ دیا گیا، صرف اس لیے کہ یقینؔ وتاباں ؔ وغیرہ کے اشعار ’’دل کو چھوتے تھے۔‘‘
آتشؔ کی شہرت قائم کرنے کا سہرا محمد حسین آزاد کے سر ہے۔ آتشؔ اور ناسخؔ ایک ہی طرح کے شاعر تھے (مصحفیؔ نے اس حقیقت کی طرف بہت پہلے اشارہ کر دیا تھا) آزاد نے آتشؔ کے قلندرانہ صفات کا تذکرہ کچھ اس والہانہ انداز میں کیا کہ آتشؔ کی شخصیت کا ایک نہایت خوش گوار پیکر ہمارے ذہنوں میں قائم ہو گیا۔ حالی اور آزاد وشبلی سب کے یہاں یہ بات تنقیدی اصول کی طرح جاری تھی کہ شاعری چونکہ دراصل شخصیت کا اظہار ہے اس لیے جس شاعر کی شخصیت دلکش ہوگی، اس کی شاعری بھی دلکش ہوگی۔
لہٰذا آتشؔ کے ذاتی کردار کی قلندرانہ، صوفیانہ، بانکی صفات ان کی شاعری میں بھی فرض کر لی گئیں۔ ورنہ واقعہ یہ ہے کہ ناسخؔ و آتشؔ کا کلام تخلص ہٹاکر پڑھا جائے تو دونوں میں بہت کم فرق دکھائی دےگا۔ ناسخؔ کے یہاں حسن مزاح اور خوش طبعی آتشؔ سے زیادہ ہے اور آتشؔ کے یہاں جنسیت ناسخؔ سے زیادہ ہے۔ ناسخؔ کے مضامین آتشؔ کے مقابلے میں زیادہ تازہ اور تجریدی ہیں۔ لیکن یہ باتیں پورا دیوان غور سے پڑھنے پر کھلتی ہیں، ورنہ مندرجہ ذیل شعروں کو دیکھیے،
سیر میدانِ عدم کو جو مرا دل دوڑا
باد بن کر میں پسِ تو سنِ قاتل دوڑا
نہ ہوئی بعدِ فنا بھی مجھے آفت سے نجات
پھاڑ کھانے کو سگ کوچۂ قاتل دوڑا
ابر ساں گرد جو اٹھی فرسِ قاتل کی
برق کی طرح میں پابندِ سلاسل دوڑا
منزلِ عشق کی وہ راہ ہے، رکھتے ہی قدم
بن کے قزاق ہر اک حور شمائل دوڑا
منزلِ شوق میں کچھ بھاری ہوا دل مجھ کو
میں سمجھتا ہوں بغل میں لیے اک سل دوڑا
ہرشعر میں ’’خارجیت‘‘ نمایاں ہے۔ ہر شعر میں دور از کار بات کہنے کی کوشش ہے، لیکن تیسرے شعر کے سوا کسی میں بھی بیان مدلل اور مضمون واقعی تازہ نہیں ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ کسی خیال بند شاعر نے خاصی کوشش کرکے مشکل ردیف میں پانچ شعر نکالے ہیں جو صاف اور شگفتہ تو ہیں، لیکن ایک کے سوا (شعر ۳) کسی میں کوئی خاص بات نہیں۔ اشعار بہرحال ایک ہی شاعر کے ہیں۔ مندرجہ بالا فیصلہ ہر بات میں مبنی برحقیقت ہے، سوائے اس کے کہ یہ غزل کسی ایک شاعر کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ شعر تین شاعروں کے ہیں،
شعر۱، ۳ ناسخؔ
شعر ۲، ۴ آتشؔ
شعر ۵ آبادؔ
یہ وہی آبادؔ لکھنوی ہیں جن کے بارے میں سعادت خاں ناصرؔ نے لکھا ہے کہ جب میں نے ان سے کہا کہ میں نے اپنے تذکرے میں آپ کو ناسخؔ کا شاگرد لکھا ہے تو وہ خفا ہوئے اور بولے کہ ’’اپنا ہی شاگرد لکھا ہوتا۔‘‘ اور جب سعادت خاں ناصرؔ نے وضاحت چاہی تو آبادؔ نے کہا کہ ’’اب ہم ناسخؔ سے اچھے ہیں۔‘‘ خیر، یہ بات تو الگ رہی، سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج کیا وجہ ہے کہ ان تینوں میں گہری مشابہتوں کے باوجود لوگ عام طور پر آتشؔ کو بڑا شاعر، ناسخؔ کو ناشاعر اور آبادؔ کو معدوم جانتے ہیں؟ کیا ہمیں اپنی تاریخ نویسی اور شعر شناسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت نہیں؟
غالبؔ نے خیال بندی کو معراج کمال تک پہنچا دیا۔ ان کے زمانے میں ۱۸۵۷ء کا سانحہ رونما ہوا جس نے ہماری تاریخ ادب کے تسلسل کو منقطع کر دیا۔ کلاسیکی شعریات، کلاسیکی اقدار حیات، کلاسیکی تصور کائنات، ان سب چیزوں پر سوالیہ نشان لگ گیا۔ پھر ان میں سے زیادہ تر کو منسوخ کرنے اور بھلانے کی کوششیں ہوئیں، اور یہ کوششیں اس حد تک کامیاب ہوئیں کہ کلاسیکی ادب کا زیادہ ترحصہ ہمارے لیے بے معنی یا بے روح اور غیرضروری ہوکر رہ گیا۔ کلاسیکی ادب کے جو اجزا وعناصر قبول بھی کئے گئے، طرح طرح کی شرطوں اور پابندیوں کے ساتھ قبول کیے گئے۔ میرؔاور سوداؔ کے کلام سے انتخاب کی مثال سامنے کی ہے اور سوداؔ کی ہجویات کے بارے میں محمد حسین آزاد کی رائے بھی ہمارے سامنے ہے۔ بعض اصناف (مثلاً مثنوی) صرف کتابوں تک محدود ہوکر رہ گئیں، اور ان کے بھی چند ہی نمونے مقبول ٹھہرے۔ قصیدہ تقریباً سارے کا سارا مسترد ہو گیا۔
انگریزوں کی تقسیمی پالیسی اور دہلی/لکھنؤ کے تعصبات کے زیر اثر کلاسیکی ادب کا ایک بہت بڑا حصہ اور کلاسیکی ادب کی تاریخ کا تقریباً تین سو برس پر مبنی کارنامہ ہمارے لیے بے وجود یا پھر ضمنی اور ذیلی ٹھہرا۔ آج بھی آپ اردو شاعری کے بڑے ناموں کا تصور کریں تو ولیؔ تک ذہن میں نہیں آتے۔ نصرتیؔ، وجہیؔ، ہاشمی، غواصیؔ، خوبؔ محمد چشتی اور علی محمد جیوگام دھنی وغیرہ کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ ہم میں سے اکثر کے لیے اردو نثر کی تاریخ میر امن سے اور اردو نظم کی تاریخ میرؔ سے شروع ہوتی ہے۔ تاریخ اور نظریے کا یہ سمٹاؤ ہمارے لیے انتہائی المناک ثابت ہوا۔
۱۸۵۷ء کے تہذیبی انقطاع کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ ہم لوگوں نے باور کر لیا کہ ہمارے یہاں تنقید خاص کر نظری تنقید اور شعریات تھی ہی نہیں، لہٰذا یہ چیزیں ہمیں اپنی کوششوں سے ایجاد کرنی پڑیں گی۔ آزاد، حالی، امداد امام اثر، شبلی اور بعد میں طباطبائی اور حسرت موہانی کی تحریریں اسی شعریات سازی کی مظہر ہیں۔ اس شعریات میں اردو کے کلاسیکی تصورات بہت کم تھے۔ جو تھے بھی انھیں پوری صحت کے ساتھ پیش نہیں کیا گیا تھا، اور بعض کو تو سراسر غلط یا مضحکہ خیز قرار دیا گیا مثلاً شبلی جیسے غیرمعمولی مفکر نے اپنی شعریات کی بنا بعض عربی، بعض انگریزی، بعض یونانی اور بعض سنسکرت تصورات پر رکھی۔ لیکن انھوں نے اردو والوں کے خیالات کے بارے میں یہ تاثر دیا کہ گویا وہ ہیں ہی نہیں اور اگر ہیں بھی تو وہ محض ’’جھوٹی رعایت لفظی‘‘ اور ’’غیرواقعی یا غیرعقلی‘‘ شاعری کو فروغ دیتے ہیں، لہٰذا ان سے بچنا چاہیے۔
سبک ہندی کی فارسی شاعری سترہویں صدی سے لے کر انقطاع ۱۸۵۷ء تک اردو شاعر کے لیے نمونے اور مثال کا کام دیتی رہی تھی۔ لیکن شبلی نے اپنی عہد ساز کتاب ’’شعر العجم‘‘ میں سبک ہندی کو بہت کم اہمیت دی۔ اس کے اکثر شعرا خاص کر اس کے بڑے ہندوستانی شعرا مثلاً غنیؔ، سرخوشؔ، ناصر علی بیدلؔ، آزادؔ بلگرامی، غالبؔ وغیرہ کے ذکر سے ’’شعر العجم‘‘ کے صفحات خالی ہیں۔ اس کا نقصان خود شبلیؔ کو بھی اٹھانا پڑا لیکن اس سے بہت زیادہ نقصان کلاسیکی اردو غزل کا ہوا کہ اس کو سمجھنے سمجھانے کے اصل حوالے ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئے۔
ہماری کلاسیکی غزل کی شعریات میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جسے غزل کے لیے آج بھی نہ استعمال کیا جا سکتا ہو، لہٰذا یہ بالکل ممکن ہے کہ غزل جدید بھی ہو اور کلاسیکی اصولوں کی پابندی بھی کرے۔ یہ اس وجہ سے کہ جدید غزل کی بنیادی صفت مضمون آفرینی ہے اور مضمون آفرینی کے لیے کلاسیکی غزل کی روایتی لفظیات کی پابندی ضروری نہیں۔
غزل کی دنیا جن مفروضات (یا تصورات یا رسومیات) سے عبارت ہے وہ بہرحال موجود رہیں گے۔ درحقیقت کلاسیکی شعریات کی پابندی شعر کی خوبی کے لیے بڑی حد تک ضامن ہو سکتی ہے۔ ہاں جدید نظم (یعنی جدیدیت کی پروردہ نظم) کے لیے کلاسیکی غزل کی شعریات کی پابندی ضروری نہیں۔ آج غزل اور نظم میں یہی فرق سب سے زیادہ اہم کہا جا سکتا ہے کہ جدیدیت کی قائم کردہ نظم نے اپنے لیے الگ سے ایک شعریات وضع کی ہے اور جدید نظم کو سمجھنے کے لیے اس کا حوالہ ضروری ہے۔
شمس الرحمن فاروقی