- Advertisement -

اللہ دیکھ رہا ہے

محمد سرفراز اجمل کی تحریر

اللہ دیکھ رہا ہے

ِِِ”ابراہیم: اٹھو ا بو بلا رہے ہیں،وہ بہت غصہ میں ہیں، آج تم نے پھر ایک نئی حرکت کی ہےِ“۔ رقیہ نے ابرہیم کو اٹھاتے ہوئے کہا جو مصنوعی نیند کا بہانہ بناکر سو رہا تھا۔
ابراہیم آنکھوں کو ملتا ہوا اور لڑکھڑاتا ہوا ابو کے پاس آیا اور اِس حال میں کھڑا ہو ا جیسا کہ وہ نیند سے ابھی اٹھ کر آیا ہو۔ ابراہیم! کیا تم نے یہ گملا توڑا ہے؟
حسن کے ابو نے غصہ والے لہجے میں بولا۔
”نہیں ابو مجھے تو معلوم نہیں میں نے اپنے کمرے میں بستر پر لیٹا ہو ا تھا“۔ابراہیم نے معصومیت سے جواب دیا۔
”ہا ئے اللہ! امی اس کی ڈھٹائی دیکھو کتنا صاف جھوٹ بول رہا ہے میں نے اسے خود گملا توڑتے ہوئے دیکھا ہے“۔
رقیہ نے اپنی امی کو ہاتھ سے پکر کر اور چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
اچھا بیٹا چھوڑو کوئی بات نہیں تمہارا بھائی ہے کوئی دشمن نہیں۔امی نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔
ابراہیم رقیہ کو کن آکھیوں سے دیکھتا ہوا واپس چلا گیا اور اس بات کو ظاہر کر رہا تھا کہ وہ رقیہ سے اس کا بدلہ لے گا۔رقیہ اور ابراہیم دونوں بہن بھائی تھے۔دونوں سکول میں ایک ساتھ پڑھتے تھے۔ابراہیم بہت شرارتی لڑکاتھا۔جب تک وہ شرارت نہ کرے اس کے جسم کو سکون نہیں آتا تھا۔اس کی بہن رقیہ بہت نیک، ایماندار اور محنتی لڑکی تھی۔ وہ ہر کام میں اپنے ماں باپ کاساتھ دیتی تھی۔
ابراہیم جو بھی شرارت کرتا شرارت کرنے کے بعد اس کا الزام رقیہ پر ڈال دیتا تھا اور خود معصوم بن جاتا تھاجیسا کہ اس کو کچھ معلوم ہی نہیں۔
سکول میں استاتذہ اور طلباء ابراہیم کی شرارتوں سے تنگ تھے اور گھر میں بہن بھائی اور والدین تنگ تھے۔ رقیہ ا براہیم کی ہر بات کو نوٹ کرتی تھی مگرابراہیم ہر دفعہ بے گناہ ہو کر اپنے آپ کو صاف کر لیتا تھا اور رقیہ اپنا سا منہ بنا کر رہ جاتی تھی۔مگر رقیہ نے ٹھان لیا تھا کہ ابراہیم کو اس کا جرم ثابت کر کے دکھاؤ ں گی۔
رقیہ اورابراہیم دونوں چھت پر بیٹھے سکول کا کام کررہے تھے کہ اچانک ابراہیم کو شرارت سوجھی۔اس نے شاپر لیا اور اس میں پانی بھر لیا اور وہیں کھڑے نیچے گلی میں ایک عورت پر پھینک دیا اور جلد ی جا کر دوڑ لگا کر سکون سے ابو کے کمرے میں بیٹھ گیا اور اس کے ابو کمرے میں کام میں مصروف تھے۔ابراہیم اس انداز میں کمرے میں داخل ہو ا کہ اس کے ابو کو احساس ہی نہیں ہوا۔اچانک دروازے کی بیل بجی۔ابراہیم کے والد نے سر اٹھا کر دیکھا تو ابراہیم اپنی کتاب کے مطالعے میں مصروف تھا۔ اس کے والد نے کہا بیٹا! دروازے پر دیکھو کون آیا ہے؟ وہ فورا اٹھ کر گیا تو خاتون نے زورزور سے گالیاں شروع کردیں کہ کس کمبخت نے اس پر پانی پھینکا ہے؟
”تم یہاں رکو میں ابھی آپ کو بتاتا ہوں“۔ابراہیم نے خاتون کو گیٹ کے ساتھ بیٹھنے کا کہا۔ اور واپس ابو کے کمرے میں آکر بتایا کہ ایک خاتون نے کہا ہے کہ کہ اوپر سے کسی نے پانی پھینکا ہے۔ابو فورا اٹھ کر باہر گئے تو دیکھا خاتون پانی سے بھیگی ہوئی ہے۔ انہوں نے خاتون کو دلاسہ دیا اور اس کورخصت کیا ور خود غصہ سے چھت کے اوپر آگئے تو دیکھا رقیہ سکون سے سکول کا کام کر رہی تھی۔ابو نے جاکر اس کو زور سے تھپڑ رسید کر دیا اور کہا کہ کیا یہ تم نے نیچ حرکت کی ہے کہ گلی میں گزرتی خاتون پر پانی ڈال دیا۔ ابو میں نے نہیں ابراہیم نے یہ کام کیا ہو گا۔رقیہ نے بے ساختہ کہا،چپ ہو جاؤ کل بھی تم نے اس پر الزام لگایا تھا اور یہ اب میرے پاس کمرے میں موجود تھا میں نے خود یکھا ہے۔رقیہ نے ابرہیم کی طرف دیکھا تو وہ پرسکون سے اور سیدھا کھڑاتھا جیسا اس کو واقعہ کا علم ہی نہ ہو۔
تم باز آجاؤ ان سب چیزوں سے ورنہ ایسا سبق سکھاؤں گا کہ زندگی بھر یاد رکھو گی۔ابو نے رقیہ کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
رقیہ روتی ہوئی ماں کے پاس چلی گئی اور کہا کہ ابو میرا اعتبار نہیں کرتے اور ابراہیم حرکت کرتاہے اور الزام مجھ پر آجاتا ہے۔اچھا میری بچی میں ابراہیم کو سمجھاؤں گی۔امی نے رقیہ کو سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔
رقیہ ہر وقت پریشان رہتی کہ کس طرح اس کو مات دی جائے اور اس کا جرم ثابت کروں۔ وہ اپنی سوچوں میں گم تھی کہ ماں کی آواز آتی ہے۔ رقیہ میں بازار میں دوپہر کے لئے سبزی لینے جارہی ہوں گھر میں خیال رکھنا۔ یہ سن کے ابراہیم نے کہا کہ امی میں بھی آپ کے ساتھ چلتاہوں آجاؤ میرا بیٹا ساتھ چلتے ہیں امی نے ابراہیم کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔.
رقیہ اس کو عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی کہ اب یہ کوئی نئی حرکت کرے گا اور دوبارہ پھنسائے گا۔
ابراہیم نے شرارتی انداز میں آنکھیں گھماتے ہوئے رقیہ کو شرارت کا اشارہ دیا ابراہیم کو معلوم تھا کہ یہ وقت ابو کے دفتر کے جانے کا ہے۔وہ گیٹ کے پاس گئے اور اپنی امی کو کہا کہ گیٹ کے باہر رکیے میں جوتی تبدیل کر کے آتاہوں۔وہ واپس گیراج میں آیا اور کار کے ٹائر کی ہوا نکال دی اور وال اور نیٹ باہر نکال کر رکھ دی۔تاکہ معلوم ہو سکے کے گاڑی کی ہو ا نکالی گئی ہے نہ کہ پنکچر ہے۔ابراہیم کو معلوم تھا کہ ابو جب دفتر جائیں گے تو گھرمیں صرف رقیہ ہوگی۔میں اور امی بازار ہونگے اور اس سے اچھا موقع نہیں ہو گا۔جب ابراہیم کے ابا تیار ہو کر آئے تو دیکھا کہ گاڑی کے ٹائر کی ہوا نکل چکی ہے اور سامان باہر پڑا ہے۔فورا سمجھ گئے کہ شرارت کس نے کی ہے۔
رقیہ۔۔۔رقیہ۔۔۔۔رقیہ۔۔۔۔ادھر آؤ
ابراہیم کے ابو نے غصے سے رقیہ کو آواز دی تو وہ فورا اٹھ کھڑی ہوئی اور ابو کے پاس آگئی اور وہ سمجھ گئی کہ کوئی نئی آفت آئی ہو گی۔یہ تم نے پھر کیا کر دیا ہے؟
تم کو سمجھ نہیں آتی میری بات اور زور سے تھپڑ رسید کر دیا اسی دوران ابراہیم اپنی والدہ کے ساتھ گھر میں داخل ہوا اور دیکھا کہ اس کا منصوبہ کام آ گیا ہے۔رقیہ دوڑ کر فورا امی کے پا س چلی گئی۔ دیکھو تمھارے لاڈ نے اس کو خراب کر دیا ہے۔ابراہیم کے ابونے رقیہ کی امی کو گھورتے ہوئے کہا۔
ابو: آپ کو کیوں سمجھ نہیں آتی یہ حرکت ابراہیم کرتا ہے الزام مجھ پر آتاہے۔رقیہ نے اپنی امی سے بازو چھڑواتے ہوئے غصے سے کہا اور روتی ہوئی کمرے میں چلی گئی۔ ابراہیم کے والد اور والدہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔خدایا یہ گھر میں کیا ہو گیا ہے۔یہ رقیہ پہلے تو اس طرح نہیں تھی۔ابراہیم کے والد نے اپنی بیگم سے سوالیہ انداز سے پوچھا۔ہمیں ضرور اس کا حل نکالنا ہو گا۔ورنہ ان کی تربیت خراب ہو جائیگی۔ ابراہیم کی امی نے نرمی سے کہاہاں بلکل، آج میں اس کاحل نکالتا ہوں
کیسے؟ابراہیم کی امی نے پوچھا۔
”میں دفتر سے سے واپسی پر کیمرے لیکر آؤں گامگر اس کا علم کسی کو نہ ہو“۔ ابراہیم کے ابو نے کہا
ہا ں یہ ٹھیک ہے اس طرح ان کی شراتوں کا علم ہو جائے گا۔ امی نے ہاں میں ہاں ملائی۔ابراہیم کے ابو نے دفتر سے واپسی پر کیمرے لیکر آ ئے اور پورے گھر میں نصب کر دیئے،گلی میں اور تمام کمروں میں کچن سمیت لگوادیے۔
آج اتوار کا دن تھا سکول سے چھٹی تھی۔ مگر ابراہیم کے لیے یہ دن دلچسپ ہوتا تھا کیونکہ شراتوں کا زیادہ موقع اسی دن آتاتھا۔ اتوار تو سا را دن ایک دوسرے کی شکاتیوں میں گزرتا تھا۔ رقیہ بیٹا: ابراہیم کے ابو نے رقیہ کو آواز دی: جی ابو کیا کام ہے؟”بیٹا ایک اچھی سے چائے پلادو “ جی ابو جی میں ابھی بنا کر لاتی ہوں“
رقیہ نے جواب دیا۔
ابراہیم رقیہ کے ہر کام پر نظر رکھتا تھا۔ رقیہ نے چائے بنائی اور کپ میں ڈال کر پلیٹ میں رکھ دی اور فریج سے پانی لینے کے لئے چلی گئی۔ادھر ابراہیم کو موقع مل گیا اس نے کچن میں جا کر پلیٹ میں رکھی چائے کو سکون کے انداز میں کچن میں گرائی اور کپ کو توڑ دیا تاکہ اس کاالزام بھی رقیہ پر لگا سکے۔ کیوں کہ کچن میں وہ کبھی جاتاہی نہیں تھا۔چائے گرانے کے بعد وہ فورا ً رفو چکر ہو گیا۔ ادھر کچن میں جب رقیہ آئی یہ منظر دیکھاتو فوراً سمجھ گئی کہ یہ کام ابراہیم کا ہے۔ خوف سے اس کی ٹانگیں کانپنے لگیں کہ ابو کو کیا جواب دوں گی۔وہ پہلے ہی اعتبار نہیں کرتے اور اس بار تو ابراہیم کا نام بھی نہیں لے سکتی۔
وہ آہستہ آہستہ بوجھل قدموں کے ساتھ ابو کے کمرے میں آئی اور راستے میں دعاؤں کا ورد کرتے ہوئے آئی تاکہ باپ کے غصہ سے بچ سکے اور دوبارہ تھپڑکھانے سے بچ جائے اس نے آہستہ سے دروازہ کھولا اور اپنے ابو کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔ اس کی حالت دیکھ کر ساتھ بیٹھا ابراہیم اس کی حالت دیکھ کر منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنس رہاتھاکہ تماشا اب شروع ہو گا۔ جب والد نے رقیہ کو آتے دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے ٹانگیں کانپ رہی تھیں منہ سرخ ہو گیا تھا اور وہ ڈری ہوئی تھی۔بیٹی کیا بات ہے تم اس قد ر کیوں خوفزدہ ہوباپ نے رقیہ کو دیکھتے ہی کہا۔
ابو۔۔۔۔وہ۔۔۔۔چائے۔ یہ کہ کر رونے لگی بیٹا گھبراؤ نہیں کیا بات ہے؟
ابو نے رقیہ کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔ابومیں نے چائے بنائی اور کپ میں ڈال کر ایک پلیٹ میں رکھ دی اور گلاس میں پانی چلی گئی واپس آکر دیکھا تو چائے گر گئی تھی اور کپ ٹوٹا ہواتھا۔رقیہ نے ڈرتے ہوئے بتایا۔بیٹا ڈرنے کی کوئی بات نہیں یہ ہم معلوم کر لیں گے کہ کس نے گرایا ہے۔ابراہیم پرسکون تھاکیونکہ جب رقیہ آئی تو وہ ابو کے کمرے میں موجود تھا۔ ابو نے سارے گھر والوں کو بلایا امی بھی آگئی سب گھر والے جمع تھے۔ابو نے بات پوچھی کہ کچن میں چائے کس نے گرائی ہے اور کپ کس نے توڑا ہے۔سب خاموش تھے کسی نے جواب نہیں دیا۔ابو نے پھر پوچھا تم میں سے کس نے کہ کام کیا ہے تا کہ بعد میں یہ نہ ہو پچھتانا پڑے۔مگر سب خاموش تھے کسی نے جواب نہیں دیا۔اب ابونے میز پر رکھا کمپوٹر سب کے سامنے رکھ دیا اور کچن میں موجود لگا خفیہ کیمرہ اس کی ویڈیو چلنے لگی۔ابراہیم نے جیسے ہی ویڈیو کو دیکھنا شروع کیا اس کے اوسان خطا ہوگئے کہ یہ یک دم کیا ہو گیا ہے؟
اس کے ماتھے پر پسینہ آگیا اب وہ سوچنے لگا اس کی خیر نہیں اب وہ نہیں بچ سکے گا۔اب سارے گھروالے حیرانی سے ویڈیو دیکھ رہے تھے اور ابراہیم کو اپنے سارے کارنامے یا د آ رہے تھے۔ اس کے اپنے دماغ میں ویڈیو چلنے لگی اور سارے جرم یاد کرنے لگا۔ جب ویڈیو میں ابراہیم کو چائے گراتے اور کپ کو توڑتے ہوئے پوزدیکھایا گیا۔تو رقیہ کی ٹھنڈی آہ نکلی اور ابراہیم کی طرف دیکھا جو خیالوں میں مصروف تھا۔
میرے پیارے بھائی دیکھو یہ ویڈیو کتنی دلچسپ ہے۔ جس میں رقیہ نے چا ئے بھی بنائی اور گراتی بھی خود ہے اور کپ کو بھی توڑ دیا“رقیہ نے طنز کرتے ہوئے کہا۔
ابراہیم غصہ سے دانت پستے رہ گیا وہ سب کے سامنے کچھ بھی نہ کہ سکتا تھا۔
اب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوچکا تھا۔سب کچھ واضح ہوچکا تھا۔ابراہیم لے ابو نے اس کو کھڑا ہونے کو کہا
ابراہیم ا ٓنکھیں نیچے کرتے ہوئے سامنے آگیا
بیٹا تم نے یہ سب کیوں کیا؟
کیا سکول سے اور گھرسے یہی تربیت حاصل کی ہے؟
ابراہیم سب کے سامنے بت بنا خاموشی سے کھڑا تھا،اس کوسمجھ ہی نہیں آئی کہ اس کیس سے کیسے نکلے۔
ابو میں معافی چاہتا ہوں۔آئیندہ نہیں کروں گا۔ابراہیم نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا
بیٹا تم نے ایک نہیں تین گناہ کیے ہیں۔تم نے جھوٹ بولا،لوگوں کو نقصان دیا اور غلط الزام اپنی بہن پر لگایا۔
بیٹا ہم مسلمان ہیں۔مسلمان جھوٹ نہیں بولتا اور نہ کسی دوسرے کو نقصان پہنچاتا ہے۔اصل علم تو اللہ کے پاس ہے اگر ہم کیمرے کی طرف نہ دیکھتے تو تمہاری حرکتوں کا علم نہ ہوتا۔مگر اللہ تو ہر وقت انسان کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔وہ انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔تم اپنی حرکتیں ہم سے چھپا سکتے ہو مگر اللہ سے نہیں۔
اللہ کو تم ہر چیز کا حساب دو گے۔
ابو مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی۔میں آئیندہ نہیں کروں گا۔ابراہیم نے معافی کے انداز میں کہا
تم جاو پہلے اپنی بہن سے معافی مانگو اور پھر اللہ سے معافی مانگو تاکہ اللہ تمہیں معاف کردے۔
ابراہیم کے ابو نے کہا
دونوں بہن بھائیوں نے آگے بڑھ کر ایک دوسرے کو گلے لگایا اور ابراہیم نے اپنی بہن سے معافی مانگی۔اور آئیندہ حرکتیں نہ کرنے کا عزم کیا
اس طرح کیمرے سے تمام گھر والے بچوں کی حرکتوں سے محفوظ ہوگئے۔
المسلم من سلم المسلون من لسانہ ویدہ
حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہیں۔(الحدیث)

محمد سرفراز اجمل

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
محمد سرفراز اجمل کی تحریر