میکدے سے حضور تک پہنچا
میرا قصہ بھی دور تک پہنچا
سرفرازی کی بات ہے ساری
یوں تو میں بھی حضور تک پہنچا
خلد کا ذکر آ گیا تھا ذرا
شیخ حور و قصور تک پہنچا
صورت آئینہ شکست ہوا
عشق بھی جب غرور تک پہنچا
جا سکا غم نہ پھر کہیں باقیؔ
جب دل ناصبور تک پہنچا
باقی صدیقی