یُوں بھی بُھوک مِٹا سکتا ہے
بندہ مٹّی کھا سکتا ہے
اِک لقمے کی اُجرت کیا ہے
اِک مزدور بتا سکتا ہے
جنگل نوحہ پڑھ سکتے ہیں
دریا گیت سُنا سکتا ہے
خوشبو جیسی لڑکی کا دِل
پُھولوں میں گبھرا سکتا ہے
آہستہ سے پاؤں رکھنا
کمرہ شور مچا سکتا ہے
آنکھوں سے ہجرت کا مطلب
ایک آنسو سمجھا سکتا ہے
اِک سناٹا آوازوں میں
خاموشی سے آ سکتا ہے
گنگا سیدھی بہہ سکتی ہے
پانی غوطہ کھا سکتا ہے
بیماروں سی شکل بناؤ
کوئی دیکھنے آ سکتا ہے
کس پتّھر کے دِل میں کیا ہے
آئینہ بتلا سکتا ہے
جبرائیل سے آگے، عامی
عشق مسافر جا سکتا ہے
عمران عامی