بزمِ ہستی میں میرا بس مختصر سا ہے سفر
اور میں انجامِ ہستی سے بہت ہوں بے خبر
نوک مژگاں پر مری موتی چمکتے رہ گئے
مجھ کو جرمِ عشق میں چڑھنا پڑا ہے دار پر
داستانِ ہجر میں تیرا تعاقب میں کروں؟
میں بہت بے جان ہوں، حاصل نہیں ہیں بال و پر
زاہدوں کا کیا پتہ مہر و وفا کی تلخیاں
وہ تو جانیں فتویٰ بازی اور وعظِ بے اثر
میں سفیرِ عشق تھا، خود سے رہا تھا احتراز
اس لئیے تو پھر رہا ہوں جابجا،اب در بدر
بے رخی اس پھول سے کیسے کرے کوئ بھلا
وہ رخِ زیبا تو سب کا دل لبھائے ہر نظر
ابنِ ساقیٓ کیوں کہے طنز و کنایہ میں تجھے
تو حریفِ عشق ہے تیرا دروں نا معتبر
حسن ابن ساقی