روشنی میں بھٹکتا جگنو
میں بچوں کو لئے گلاب ویا سمین گارڈن پہنچا تو سرما کا سورج اپنی واپسی کا سفر شروع کرچکا تھا۔ گارڈن کے وسط میں کشادہ فوارے کے حصار میں ٹھنڈا پانی ناچ رہا تھا۔ فوارے کی درمیانی چپخل دھار شوخی کو چھولینے کی خواہش میں بار بار اچھلتی اور تڑپ کر پانی کی گود میں آگرتی ۔ بچے پانی کی اس اچھل کود کا نظارہ کرتے ہوئے نرم خوپھوار میں نہانے لگے۔ عنبرین پارک کے غربی کونے میں نسبتاً تنہا بنچ کے قریب دری بچھاکے کھانے پینے کا سامان نکالنے لگی۔ اطراف میں ہفت رنگ آنچل قوس و قزح کے رنگ بکھیررہے تھے، مسحور کن ولائتی خوشبو ئیں مشام جاں معطر کررہی تھیں مگر گل داؤدی کی دبیز مہک ان سب پر بھاری تھی۔ فوارے کے گرد اگرد پھیلے وسیع گر اسی گراؤنڈ میں گلاب و یاسمین کے تختوں کے ارد گرد ننھے منے بچے تتلیوں کی طرح منڈلا رہے تھے۔ میں تھوڑی دیر کو وہیں کھڑے کھڑے بچوں کو فطرت کی رنگینیوں میں محو دیکھتا رہا اور پھر اپنی دنیا میں لوٹ آیا۔ عنبرین مجھے بلا رہی تھی۔ میں آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اس کے پاس جا کر بینچ پر بیٹھ گیا۔
’’ حمید! تم نے دیکھا ہمارا یاسمین گارڈن کتنا بدل گیاہے۔‘‘ عنبرین نے چائے کا کپ بڑھاتے ہوئے پوچھا۔
’’ ہاں ! ہمیں یہاں آئے ہوئے بھی تو بہت عرصہ بیت گیا ہے ؟‘‘
’’ تمہیں یاد ہے ناں شادی سے پہلے اور بعد میں ہم ……….جب بھی گارڈن آتے ہمیشہ سامنے والے بینچ پر بیٹھا کرتے تھے، تب یہاں اتنے لوگ نہیں آیا کرتے تھے۔‘‘
عنبریں ماضی کے دریچوں پر دستک دے رہی تھی۔ میں سوچتے ہوئے ابھی کچھ کہنے ہی والاتھا کہ بچے بھاگتے ہوئے حال کا دروازہ کھول کراندر آگئے۔
’’ امی ! ہم نے جھولا جھولنا ہے آپ ہمارے ساتھ چلیں۔‘‘ سعدیہ اور صائمہ ماں کا ہاتھ پکڑ کر کھینچنے لگیں، عدنان اور فرحان ان کی تائید میں چلانے لگے۔
’’ اچھا بھئی! تم بچوں کولے کر چلو میں یہیں بیٹھتا ہوں‘‘ اپنے حق میں فیصلہ سنتے ہی بچے ماں کو لیے لیے جھولوں کی طرف بڑھ گئے۔
’’ وقت کتنی تیزی سے گزر گیا، اس چمن پر جانے کتنی بہاریں آئیں اور خزائیں بیت گئیں۔ میرے گلشن میں بھی تو کئی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں ۔پہلے میں اور عنبریں اکیلے بنچ پر بیٹھے پہروں مستقبل کے سپنے بنا کرتے تھے۔ اب دیکھتے ہی دیکھتے گلشن میں پھول کھلنا شروع ہوئے اور پھریوں ہوا کہ آنگن پھولوں سے مہک اٹھا‘‘ یہ سوچتے ہوئے میں سگریٹ کے ہلکے ہلکے کش لینے لگا۔ ادھر گارڈن کے ایک گوشے میں بچے جھولوں میں مگن ہوچکے تھے۔ رش آہستہ آہستہ بڑھتا جارہا تھا لیکن تمام رونقیں گارڈن کے وسط میں فوارے کے ارد گرد یا پھر ٹک شاپ تک محدود ہوکر رہ گئیں تھیں، چند جوڑے گارڈن کے تنہا گوشوں میں ادھر ادھر بھٹک رہے تھے۔ سورج کی نرم دھوپ جسم و جاں کو عجب سرور دے رہی تھی۔ میرا ذہن ماضی اور حال کے تانے بانے سلجھا نے میں لگ گیا۔
’’ معاف کیجئیے گا …………ماچس ہوگی آپ کے پاس…………؟ ‘‘
سراٹھایا تو فرنیچ کٹ داڑھی اور مونچھوں کے درمیان ایک اجنبی مسکرارہا تھا۔ میں نے ایک نظر اس کی جانب دیکھا اور ماچس سے اس کا پائپ سلگا دیا۔’’ شکر یہ! مجھے آغا کہتے ہیں…………‘‘ اس نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھادیا۔
’’جی ! میں حمید ہوں………… ‘‘ ہاتھ ملاتے ہوئے میں بھی مسکرادیا۔ وہ بڑی بے تکلفی سے بنچ کے دوسرے کنارے پر بیٹھ کر پائپ پینے لگا۔ تب میں نے اسے بڑے غور سے دیکھا ………… چوڑی پیشانی ، گہری اور چمکدار آنکھیں، سرپر کشادہ ہیٹ اور کاٹرائے کی پینٹ کے نیچے اٹالین سکن لیدر شوز چمک رہے تھے۔ بقیہ جسم کو اس نے گرے رنگ کے خوبصورت اور گرم کوٹ سے ڈھانپ رکھا تھا۔ وہ یقیناًساٹھ ستر کے پیٹے میں ہوگا مگر دیکھنے میں کم عمر اور توانا لگتا تھا۔ اس کے بارے میں غلط سلط اندازے لگاتے ہوئے میں نے آخری کش لے کر سگریٹ بنچ کے ساتھ مسل دیا۔
’’ معاف کیجئیے گاجناب اگر آپ یہی کچھ یورپ میں کرتے تو اب تک دس ڈالر کا جرمانہ ہوچکا تھا۔‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ او ………… آئی ایم سوری دراصل ہم یہ سب بے خیالی میں کر گزرتے ہیں مگر محسوس نہیں کرتے…………‘ ‘ میں کھسیا نا ہوکر بولا۔
مسٹر حمید! میرا مطلب ہرگز آپ کو شرمندہ کرنا نہیں تھا، میں تو صرف مشرق و مغرب کے درمیان فرق واضح کرنا چاہتا تھا…………‘‘ اس نے اپنی مسکراہٹ برقرار رکھی۔
’’بائی دا وے………… آپ کہاں ہوتے ہیں؟‘‘ میں نے جھجکتے ہوئے سوال کیا۔
’’ میں گذشتہ پچاس سال سے یورپ کے مختلف ممالک میں رہا ہوں ۔ ابھی پچھلے ہی ہفتے لندن کی ایک بین الاقوامی ٹورسٹ کمپنی کی طرف سے ٹورسٹ گروپ لے کر پہنچا ہوں…………‘‘
گفتگو جاری تھی کہ عنبر یں آگئی ۔ میں نے بیوی سے اجنبی آغاکا تعارف کرایا۔ عنبر یں نے رسمی سلام دعا کے بعد تھرماس سے چائے نکال دی اور ہمیں گفتگو میں مصروف چھوڑ کر دوبارہ بچوں کی جانب لوٹ گئی۔
’’ آپ نے کہاں کیمپ لگایا ہے؟ ‘‘ میں نے گفتگو آگے بڑھانے کے لیے پوچھا ۔
’’ یاسمین گارڈن کے آغاز پر بائیں طرف گھنے درختوں میں غیر ملکی سیاحوں کے لیے کیمپنگ ایریا ہے، جہاں اور بھی کئی ممالک سے ٹورسٹ آئے ہوئے ہیں‘‘ اس نے چائے سپ کرتے ہوئے بتایا۔
’’ لگتا ہے طویل عرصہ بعد وطن لوٹے ہیں۔‘‘
’’ جی ہاں! کوئی پچپن سال بعد‘‘
’’ وطن سے دور آپ کیا محسوس کرتے تھے………… ؟ میرا سوال سن کر وہ اچانک گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ اس نے طویل سانس کھینچا تو مجھے محسوس ہوا جیسے فضا ساکت ہوگئی ہو………… پرندے پھڑ پھڑانا بھول گئے ہوں………… اور جب اس نے سانس کو آزاد کیا تو جیسے ہر شے میں زندگی دوبارہ لوٹ آئی………… اس کی چوڑی پیشانی پرلہریں ابھر آئیں ۔ تب اس نے کہنا شروع کیا۔۔۔۔
’’ حمید صاحب! وطن تو ماں کی گود کی طرح ہے………… اس سے دوری ماں کی شفقت سے محرومی کے برابر ہے۔ غریب الوطنی کے یہ پچپن سال میں نے کالے پانی کی سزا کی طرح کاٹے ہیں………… ‘‘ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔
میری سمجھ میں نہ آیا کہ وطن واپس آنے میں اسے کیا امر مانع رہا اور وہ اتنا عرصہ وطن سے دور رہا تو کیوں؟ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے چائے کا آخری گھونٹ لے کر دوبارہ کہنا شروع کیا۔۔۔۔
’’ مجھے بچپن ہی سے اپنی مٹی، دھرتی ماں، اس کے باسیوں اور ان کی تہذیب وتمدن سے بہت پیار تھا۔ میں نے وطن کی آزاد فضاؤں میں آنکھ کھولی ، اس کی تازہ اور معطر ہواؤں میں جسم و جاں کو سینچا۔ اول اول اسباق گاؤں کے مدرسے سے حاصل کئے۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد میں ہر شے کو شعور کی کسوٹی پر پر کھنے لگا۔ تب اس نتیجہ پر پہنچا کہ میرے معاشرے کے معصوم اور سادہ لوگ غلامی در غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں، یوں پورا معاشرہ مجھے کسی بیگار کیمپ کی مانند لگا۔ پھر میں نے اپنے جسم و جاں پر اس مٹی کے جتنے قرض تھے اتارنے کا تہیہ کرلیا۔ میں دن رات سوچنے لگا کہ اس غلامانہ معاشرے کو کیوں کر بدلا جاسکتا ہے ۔میرے آباؤ اجداد کو انگریزوں نے گھوڑی پال سکیم کے تحت بہت بڑی جاگیر دے رکھی تھی۔ آغاز میں غریب کسانوں کے بچوں کو حصول تعلیم کی طرف مائل کرنا شروع کیا۔ کمیوں کو باغوں اور فصلوں کے ٹھیکے دلوانا شروع کیے۔ دوسری طرف اپنے قلم سے جہاد شروع کردیا۔ انہی
موضوعات پر افسانے اور کہانیاں لکھنا مجھے اوائل عمری سے مرغوب تھا جس کا نتیجہ بڑوں کی ناراضی کی شکل میں نکلا………… اور مجھے دربدر ہونا پڑا………… لیکن میں نے ہمت نہ ہاری۔ نقل مکانی کر کے جگہ جگہ چھوٹی موٹی نوکریاں کیں۔ عزیزوں اور رشتہ داروں کے طرح طرح کے طعنے سہے لیکن اپنی خو نہ بدلی اور محنت جاری رکھی لیکن میری بد قسمتی ہر جگہ میرا استقبال کرتی۔ میرے پاؤں کہیں بھی نہ جم پائے………… میری محبت اور خلوص کے جواب میں لوگوں کے کٹھورپن نے مجھے ریزہ ریزہ کر ڈالا۔ میں پارہ پارہ کمیوں اور شکستہ کسانوں کی تعمیرکرتے کرتے خوداندر سے ٹوٹ پھوٹ گیا اور پھر ایسا بکھرا کہ سمٹ نہ سکا حتیٰ کہ مجھے اپنی لکھی ہوئی کہانیاں اور افسانے جھوٹ لگنے لگے…………‘‘
وہ کہتے کہتے پھر خاموش ہوگیا………… زرد رد سورج گھنے درختوں اور چمپا کی بیلوں میں پنا ہ ڈ ھونڈنے لگا………… بچے ابھی تک جھولا جھول رہے تھے۔
’’ مجھے میری ماں، بھائی اور بہنوں کی محبت بھی سہارا نہ دے سکی ۔ان کا سہارا بھی تو میں ہی تھا کسی شکستہ شہتیر کی طرح،………… ایسے میں میرا دل بے حد حساس ہوچکا تھا………… بات بے بات رونا آجاتا………… جب میری ارد گرد معاشرتی رویوں کی زنجیر تنگ ہوتی گئی اور دم گھٹنے لگا تب ایک دن مجبوراً میں اپنی دھرتی کو چھوڑ کر مسافر ہوگیا………… اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے ………… ویسے بھی ہمارے مذہب میں ہجرت کامیابی کا زینہ سمجھی جاتی ہے………… اگرچہ ہجرت میرے لیے بہت بڑا چیلنج تھی لیکن میرے مصمم ارادوں نے ثابت قدم رکھا اور آج میں آپ کے سامنے ہوں۔‘‘
’’ کیا آپ بہن بھائیوں سے ملے ہیں…………؟‘‘ میں نے گفتگو کا رخ بدلا ۔ سوال سن کر اجنبی کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی۔ اس نے نیا پائپ سلگایا اور گہراکش لے کر کروٹ بدلی۔۔۔
’’ آپ اندازہ نہیں کرسکتے میں نے ان پچپن برسوں میں ہجر کی ٹھوکروں سے اپنے آپ کو تراش خراش کر کتنا بدل ڈالا ہے۔ پہلے پہل پردیس میں سب یاد آتے تھے ماں، بھائی اور بہنیں ایک ایک کر کے سبھی کزن………… لیکن جب اپنوں کے لگائے ہوئے چرکے یاد آتے تو دل گوشت پوست سے پتھر بن جاتا………… ویسے بھی نصف صدی کوئی کم عرصہ تو نہیں ہوتا ۔ سب لوگ مجھے رو دھوچکے ہوں گے………… اب میں ان کی پرسکون زندگی میں زہر نہیں گھولنا چاہتا…………‘‘
مجھے یہ سن کر اجنبی کی کہانی سے بوریت ہونے لگی وہ بول رہا تھا ۔میں سوچ رہا تھا کہ ایسا کون سنگدل ہوگا جو اتنے عرصے بعد وطن لوٹے اور والدین سے نہ ملے………… سوال ہی پیدا نہیں ہوتا………… اجنبی جھوٹا ہے………… ویسے ہی وقت گزاری کے لیے قصہ گوئی سے کام لے رہا ہے ………… میں نے لمحہ بھر کے لیے بچوں کی جانب نگاہ کی تو وہ ٹک شاپ کے سامنے کرسیوں پر بیٹھے سستا رہے تھے۔ میں نے بھی بغیر سوچے سمجھے سوال جھڑ دیا۔
’’ آپ نے یورپ میں کوئی شادی وادی نہیں رچائی؟ ‘‘
سوال سن کر اس کی آنکھوں کی چمک، شب کے پچھلے پہر کسی تنہا مزار پر جلتے چراغ کی لو کی مانند گل ہوگئی اور چہرے پر مرونی چھا گئی۔ تب اس نے لمبی سانس کھینچ کر بہت سادھواں پھیپھڑوں میں بھرا اور کہنا شروع کیا۔۔۔۔
’’ حمید صاحب ! اپنی زندگی کی یہ ایک بد قسمتی رہی ہے کہ میں اوائل عمری ہی سے فطرت کے حسن کا پجاری رہا ہوں…………اس کائنات سے پیار کرتا ہوں۔ اس میں موجودہ انسانوں سے لے کر چرند پرند تک ہرشے سے محبت کرتا ہوں………… ہر جاندار کے قریب جانا چاہتا ہوں………… اس کے دکھ بانٹنا ………… اور ان کے ساتھ خوشیاں شیئر کرنا چاہتا ہوں………… امن چاہتا ہوں………… سکون چاہتا ہوں………… تحفظ چاہتا ہوں ،میں حسن پرست ہوں………… اقرار کرتا ہوں………… لیکن کسی ایک شے کا نہیں پوری کائنات کا۔ لیکن انسانی مادہ پرستی، حرص و ہوا ، مکاری اور عیاری نے کائنات کا سارا حسن برباد کر رکھا ہے۔ رشتوں کا تقدس جاتا رہا ، دل و جان سے چاہنے والوں نے جائیداد کے لالچ میں مجھے کڑے امتحان میں ڈال دیا۔ پھر مجھ پر بھی کچھ کر کے دکھانے کا ایسا جنون سوار ہوا کہ میرے بعد سب کچھ راکھ کا ڈھیر بن چکا ہوگا۔ لیکن میرے دل کا نگراب بھی اسی طرح آباد ہے۔ میں جب بھی کبھی اداس ہوتا ہوں تو………… ماضی کی جانب کھلنے والی دل کے نگر تمام کھڑکیاں کھول دیتا ہوں۔ جہاں مری کی سمت دائیں طرف گھوڑا گلی کی چڑھائی پر بڑے آغا جی کے درختوں میں گھر ے چوبی بنگلے
کی بالکنی سے باہر کا دلکش منظر میری آنکھوں کے سامنے پھیل جاتا ہے۔ سامنے کی شمالی پہاڑی پر ہر اول کے درمیا ن سفید براق چھوٹے بڑے بنگلوں میں ہر دم زندگی متحرک نظر آتی ہے۔ جہاں شام ڈھلے قمقمے روشن ہونے لگتے ہیں ۔ تھکے ہارے پرندوں کی گھونسلوں کو واپسی شام کی اداسی میں اور اضافہ کردیتی ہے۔ ایسے میں عقب سے چھوٹے بھائی جمال کا اچانک دادا جان کی شکاری بندوق میرے کندھے پر رکھ کر کھڑ کی سے باہر فائر کر کے چونکا دینا، مجھے اپنی دنیا میں واپس لے آتا ہے۔ میرا بچپن ، لڑکپن اور جوانی کسی خوبصورت ناول کی طرح ورق ورق کھلتی چلی جاتی ہے………… اور میں دوردور کی سیر کر کے لوٹ آتا ہوں لیکن میں نے ابھی تک شادی نہیں کی۔‘‘ میں نے اس کی نگاہوں میں جھانکا تو وہاں واقعی حسین یادوں کا اک نگر آباد تھا۔ اس کی بے ربط کہانی میں آہستہ آہستہ میری دلچسپی پھر سے بڑھنے لگی۔
’’ آغا صاحب آپ نے اس دوران کچھ لکھنے کی طرف توجہ کیوں نہ کی؟‘‘
’’ دوست ! یہ ایک طویل کہانی ہے ……….. میں نے ہجرت کے بعد شروع کے دس سال تھور کے کانٹوں اور دہکتے انگاروں پر گزارے ہیں۔ پھر جب ہولے ہولے الاؤ سرد ہوا تو آوے میں سلگتی دھیمی آنچ کا روپ دھار گیا ۔تب سے آج تلک من کی بھٹی یونہی سلگ رہی ہے……….. اور نہ جانے کب تک سلگتی رہے گی……….. آغاز میں باوجود کوشش کے میں ایک لفظ بھی نہ لکھ سکا………..‘‘ اس نے بتایا۔
ماحول کی سوگواری بڑھنے لگی……….. سورج تھوڑی دیر پہلے گھنے درختوں کی اوٹ سے نکل کر شکرپڑیاں کی پہاڑیوں کے پیچھے جا چھپا تھا۔ فضا میں خنکی کا احساس بڑھنے لگا تھا۔
یاسمین گارڈن، اسلام آباد کی رونق دھیرے دھیرے ماند پڑنے لگی تھی……….. فوارے میں پانی کا رقص بھی اب تھم چکا تھا۔ البتہ چڑیوں اور کوؤں کے مانوس شور نے ماحول کا گھیراؤ کرلیا……….. گل داؤدی کی تیز خوشبو کی لپیٹیں نتھنوں میں گھسی چلی جاتی تھیں………..
بچے اب سامنے کے قطعے میں فٹ بال کھیلنے لگے تھے……….. میں نے خاموشی کو توڑنے کے لیے اٹھ کر اپنے اور اس کے مگ میں چائے انڈیلی اور اسے دوبارہ کریدنے کی کوشش کی۔
’’ آپ نے آغاز میں کہانیاں لکھنے کا ذکر کیا تھا۔ کیا ابھی تک لکھنے کی جانب دوبارہ رغبت نہیں ہوئی۔‘‘
میرا سوال سن کر اس کے لبوں پر اک زہریلی مسکان ابھری اور ڈوب گئی۔
’’ غم روزگار کے آگے خوابوں کی دھنک بکھر گئی۔ سب رنگ پھیکے پڑ گئے……….. پہلے دس سال مجھ پر کچھ کر گزرنے کا بھوت سوار رہا۔ دن کو جانوروں کی طرح دو دو نوکریاں کیں اور شام ڈھلے دل کا کھنڈر آباد کر کے پڑ رہتا……….. میں لکھتا رہا اور ہر سال ڈائریاں بھر تا رہا……….. ابھی دس سال قبل میں نے ایک ناول لکھنا شروع کیا تھا جو آج کل آخری مرحلے میں ہے ۔ شاید میری آٹو بائیو گرافی کے یہ آخری مراحل اپنے وطن کی معطر فضاؤں میں تکمیل پاسکیں……….. شاید…… میری تشنہ کام آرزو ئیں……….. نا تمام سوچیں……….. اور ان دیکھے سپنوں کے محل دھرتی ماں کے سینے پر تعمیر ہوسکیں.
………. شاید‘‘
یہ سب کہتے کہتے اس کی آواز شکستہ اور پلکیں بھیگ گئیں۔ میں نے اسے رنجیدہ دیکھ کر گفتگو کا رخ دوسری جانب موڑ دیا۔
’’ آپ کو پردیس میں سب سے زیادہ کیا یاد آتا تھا………..‘‘
’’ ویسے تو پل پل سب یاد آتا تھا لیکن میری ماں، بہن ممشاد، چھوٹا بھائی جمال اور دادا جان کا گھوڑا گلی والا قدیم آبائی بنگلہ بہت یاد آتے تھے………..‘‘
اتنے میں فٹ بال لڑھکتا ہوا چمپا کی قریبی باڑ میں آن رکا ۔ میں غیر ارادی طور پر اٹھ کر بال بچوں کی طرف اچھالنے اور انہیں واپسی کی تیاری کا کہنے کے لیے چل پڑا۔ شام آہستہ آہستہ گہری ہوچلی تھی۔ قریبی جھاڑیوں سے جھینگروں کے بولنے کی آوازیں آنے لگیں تھیں۔ واپس مڑا تو اجنبی کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ میری یاداشت کے کینوس پر ٹھہرے ہوئے تھے۔‘‘
ممشاد بہن، جمال بھائی اور گھوڑا گلی والا قدیم بنگلہ ……….. کہانی کار………..‘‘ میں نے نظر اٹھاکر بینچ کی طرف دیکھا تو وہاں کوئی نہ تھا……….. دور گھنے درختوں کے جھنڈ میں ایک لرزتا ہوا ہیو لا تیزی سے غائب ہورہا تھا۔ اس کے الفاظ با ر بار میری سماعت سے ٹکرانے لگے۔
’’ ممشاد بہن….جمال بھائی….گھوڑا گلی….کہانی کار…. آغا…’’شمس آغا‘‘ …. ارے وہ تو شمس آغاہے….وہ شمس آغا ہے ‘‘….میں خود کلامی کرتے ہوئے دیوانہ وار گھنے درختوں کی جانب دوڑ پڑا….جھنڈ میں پہنچ کر اندھیرااور بڑھ گیا ۔ میں اسی سمت بھاگتا رہا جدھر کو سایہ گم ہوتا دکھائی دیا تھا لیکن دور دور تک کوئی نظر نہ آیا۔
میں جھاڑ جھنکار سے بچتا بچاتا ادھر ادھر دیکھتے ہوئے مسلسل بھاگ رہا تھا……….تھوڑی دور چل کر ایک طرف بلب کی روشنی نظر آئی ۔ یہ ٹورسٹ ریزورٹ کے سامنے والا چائے کا کھوکھا تھا جہاں بینچو ں پر ایک غیر ملکی جوڑا سگریٹ پی رہا تھا اور چند مقامی لوگ چائے پی رہے تھے۔ میں بری طرح ہانپ رہا تھا۔ میری سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی، آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا……..اور ان کے سامنے ستارے جھلملانے لگے تھے مگر شمس آغا نظر نہ آیا………. میں اسی طرح بھاگتے ہوئے ٹورسٹ کیمپ پہنچا……جہاں ٹورسٹ اپنے کیمپوں میں جاچکے تھے………. دو ایک ٹورسٹ وینوں اور کیرونز میں بھی مدھم بلب روشن تھے………. میں ٹورسٹ آفس پہنچا جہاں ایک ادھیڑ عمر شخص بیٹھا ریڈ یو سن رہا تھا۔ پہلے تو وہ میری ظاہری حالت دیکھ کر گھبرا گیا پھر میرے تفصیلات دریافت کرنے پر اس نے انکار میں سرہلا دیا۔ شمس آغا وہاں بھی نہ ملا………. میں دوڑتا ہوا کیمپ سے واپس سڑک پر آگیا اور مغرب کی طرف دوڑنا شروع کردیا۔ سڑک کے دائیں سمت جنگل میں ایک بڑا الاؤ روشن تھا۔ قریب ہی حضرت بّری سرکار ؒ کے والد سیّد محمود حسین شاہ کاظمی صاحب ؒ کا مزار تھا ۔میں دوڑتے ہوئے قریب پہنچا تو دیکھا وہاں بہت سے ملنگ الاؤ کے گرد گھیر ا ڈالے ’’ حق ہو ….. حق ہو‘‘ کا ورد کرتے ناچ رہے تھے………. درمیان میں ایک باریش ملنگ بابا سبز چغہ پہنے براجمان تھے، یہ درختوں کے بیچوں بیچ ایک کھلی جگہ تھی جہاں الاؤ سے اٹھتے ہوئے
دھوئیں نے ایک بڑا سا دودھیا ہالہ بنارکھ تھا………. اطراف میں عنبر اور لوبان کی خوشبو کا راج تھا………. درمیان میں جھومتا ملنگ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ’’ حق ہو ……حق ہو‘‘ کا نعرہ بلند کرتا تو محو ر قص ملنگوں کے پاؤں کے ارتعاش میں لمحہ بھر کو تیزی آجاتی اور وہ سارے حق ہو، حق ہو کا ورد کرنے لگتے ۔۔۔۔ایسے میں، میرا سر چکرانے لگا اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا ،میں بے دم ہو کر وہیں گرپڑا۔
ِِِّّّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حمید قیصر