سامان وہ رکھا ہے قرینے سے ہمارا
اب کوچ ضروری ہے مدینے سے ہمارا
اس نے ہمیں تاریخ کے تہ خانے میں رکھا
سو رزق اترتا رہا زینے سے ہمارا
اک یاد کے نقشے پہ کھنڈر کھود رہے ہیں
اک خواب نکلنا ہے دفینے سے ہمارا
جس دن سے وہ بچھڑا ہے سیے جاتے ہیں سینہ
جی بھرتا نہیں سینے کے سینے سے ہمارا
برداشت کیے جائیں ترے عہد_ ستم کو
ایسا بھی تعلق نہیں جینے سے ہمارا
لگتا ہے تری ڈور کہیں اور بندھی ہے
جو رابطہ ٹوٹا ہے مہینے سے ہمارا
یہ بوجھ نہیں، بوجھ اٹھانے کے لیے ہے
مت ہاتھ ہٹانا کبھی سینے سے ہمارا
حیران تکے جاتے ہیں ہم یاروں کے چہرے
پڑتا ہے عجب واسطہ کینے سے ہمارا
وہ آنکھ اٹھے یا نہ اٹھے اپنی بلا سے
اب ربط بہت خاص ہے پینے سے ہمارا
شہزاد نیّرؔ