خلیفہ دوئم امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ
ایک اردو تحریر از یوسف برکاتی
خلیفہ دوئم امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت اور ان کی کرامات
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
آج کی اس تحریر میں ہم خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی کرامتوں کا ذکر کریں گے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ” ابوحفص” اور فاروق اعظم لقب تھا
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اشراف قریش میں اپنی ذاتی و خاندانی وجاہت کے لحاظ سے بہت ممتاز تھے آٹھویں پشت میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شجرہ نسب حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے خاندانی شجرہ نسب سے ملتا ہے سورہ الفیل میں جس واقعہ کا ذکر ہے اس واقعہ سے کم و بیش تیرہ سال بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مکہ مکرمہ میں ولادت ہوئی۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہادری اور شجاعت کا دور دور تک چرچہ تھا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پہلے لوگ چھپ چھپ کر عبادات کیا کرتے تھے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پہلے کم و بیش انتالیس لوگ مسلمان ہوچکے تھے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت ، بہادری اور شجاعت کو دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے اللہ رب العزت سے خاص دعا کی کہ ” اے اللہ عمر کی اسلام کو ضرورت ہے ” ایک روایت کے مطابق اسلام میں داخل ہونے والے چالیسویں شخص حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مسلمان ہو جانے سے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور ان کو ایک بہت بڑا سہارا مل گیا تھا یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ خانہ کعبہ میں اعلانیہ نماز ادا فرمائی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام جنگوں میں اپنی شان و شوکت اور بہادری کے ساتھ لڑتے رہے جبکہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی تمام اسلامی تحریکات اور صلح و جنگ کی تمام منصوبہ بندیوں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے وزیرومشیر کی حیثیت سے ایک وفادار رفیق کار رہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی انہی خوبیوں کے پیش نظر امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ بنانے کا فیصلہ کیا تھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب ہم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کچھ کرامات کا ذکر کرلیتے ہیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک لشکر کا سپہ سالار بناکر نہاوند کی سرزمین میں جہاد کے لیے بھیجا جب حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جہاد میں مصروف تھے تو ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد نبوی کے منبر پر بیٹھے خطبہ پڑھتے ہوئے ناگہاں ارشاد فرمایا کہ
” اے ساریہ پہاڑ کی طرف اپنی پیٹھ کرلو” نماز کے لئے آئے ہوئے لوگ حیران ہوگئے کہ حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو نہاوند کی سرزمین پر مصروف جہاد ہیں اور وہ یہاں سے سیکڑوں میل دور ہے آج حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ نے انہیں کیوں اور کس لئے پکارا ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یوں جب حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قاصد آیا تو اس نے خبر دی کہ کفار سے جنگ میں ہمیں شکت کا سامنا تھا کہ اچانک ایک زوردار چیخنے کی آواز آئی کہ اپنی پیٹھ پہاڑ کی طرف کرلو حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سمجھ گئے کہ یہ آواز تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے تو انہوں نے اسی وقت لشکر کو رخ موڑنے اور صف بندی کا حکم دیا اس کے بعد کفار سے جو جنگ ہوئی تو جنگ کا پانسہ ہی پلٹ گیا اسلامی لشکر نے کافروں کو روند ڈالا اسلامی لشکر کے ان حملوں کی تاب نہ لاکر کفار کا لشکر میدان چھوڑ کر بھاگ نکلا اور اسلامی لشکر نے فتح مبین کا جھنڈا لہرا دیا ۔
( مشکوتہ باب الکرامات ص546 وحجتہ اللہ ج2ص860 و تاریخ الخلفاء ص 85)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث کرامت سے جو باتیں معلوم ہوئیں وہ یہ ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں صاحب کرامت ہیں یعنی مدینہ منورہ سے سینکڑوں میل دور اپنی آواز کو پہنچانا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرامت ہے اور اتنی دور آواز کو سننا اور سن کر آواز کو پہچان لینا یہ حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرامت ہے دوسرا یہ کہ سینکڑوں میل دور جنگ کی کیفیات اور احوال کو بھانپ لینا اور پھر منبر رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم پر بیٹھ کر اس کا حل بھی بتا دینا یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی کرامت ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ صحابہ کرام ، تابعین ، تبعہ تابعین ، اولیاء کرام اور اللہ تعالی کے تمام مقرب و محبوب بندوں کی آنکھ ، کان یعنی سمع و بصر کی طاقت کا موازنہ عام انسانوں کی طاقت سے نہیں کرنا چاہئے بلکہ یہ ایمان رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب اور مقرب بندوں کی آنکھ ، کان اور دوسرے اعضاء کو بہت زیادہ طاقت بخشی ہے اور ان کی یہ طاقت اتنی بے مثل اور بیمثال ہوتی ہے کہ ان سے بیش بہا کارہائے نمایاں انجام ہوتے دیکھ کر ہم صرف ان کی کرامت ہی کہ سکتے ہیں اور کوئی نام نہیں دے سکتے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک روایت میں آتا ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں مصر کے دریائے نیل کا پانی خشک ہوگیا تھا مصری باشندوں نے مصر کے گورنر حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فریاد کی کہ مصر کی تمام پیداوار کا دارومدار اسی دریائے نیل کے پانی سے ہے اے امیر ہمارا اب تک یہ دستور رہا ہے کہ جب بھی یہ دریا خشک ہوجاتا تو ہم کسی بھی کنواری اور خوبصورت لڑکی کو اس دریا میں ژندہ دفن کرکے اس کی بھینٹ چڑھادیا کرتے تھے تو یہ دریا جاری ہوجاتا اب ہم کیا کریں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں گورنر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اللہ رب العزت کے دین یعنی دین اسلام کبھی بھی اس ظالمانہ اور بے رحمانہ فعل کی اجازت نہیں دے سکتا لہذہ تم انتظار کرو میں دربار خلافت میں خط لکھتا ہوں وہاں سے جو جواب آئے گا اس پر ہم لوگ عمل کریں گے چناچہ ایک قاصد گورنر کا خط لیکر دربار خلافت امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے حاضر ہوا گورنر کا خط پڑھ کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریائے نیل کے نام ایک خط لکھا جس کا مضمون کچھ یوں تھا کہ
” اے دریائے نیل اگر خشک ہو جانے کے بعد تو خود بخود جاری ہوجایا کرتا تھا تو ہمیں تمہاری کوئی ضرورت نہیں اور اگر تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے جاری ہوتا تھا تو اس بار بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے جاری ہوجا ” ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ خط قاصد کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ خط لے جائو اور اسے دریائے نیل میں دفن کردو گویا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان کے مطابق گورنر مصر نے اس خط کو دریائے نیل کی ریت میں دفن کردیا خدا کی شان دیکھئے کہ جیسے ہی اس خط کو وہاں دفن کیا گیا دریائے نیل اسی وقت جاری ہوگیا اور اس کے بعد کبھی خشک نہیں ہوا
( حجتہ اللہ ج 2 ص 861 ).
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہوا پر حکومت تھی بالکل اسی طرح پانی پر بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حکم چلتا تھا اور وہ بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمانبردار تھے ۔اسی طرح ایک روایت میں آیا ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں ایک دفعہ ناگہاں ایک پہاڑ کے غار سے اچانک آگ بھڑک اٹھی آگ اتنی شدید تھی کہ اس نے اطراف کی ہر چیز کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنادیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب لوگوں نے دربار خلافت تک خبر پہنچائی تو امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت تمیم داری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی ایک چادر مبارک عطا فرمائی اور فرمایا کہ یہ چادر لیکر تم اس آگ کے پاس چلے جائو چناچہ حضرت تمیم داری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس مبارک چادر کو لیکر روانہ ہوئے اور جوں ہی آگ کے قریب پہنچے تو یکایک وہ آگ بجھنے اور پیچھے ہٹنے لگی اور یوں وہ آہستہ آہستہ غار میں چلی گئی اور جب حضرت تمیم داری رضی اللہ تعالیٰ عنہ غار تک پہنچے تو وہ بالکل بجھ کر ختم ہوگئی تھی اور کبھی ظاہر نہیں ہوئی ۔( ازلتہ الخفاء مقصد 2 ص 172).
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہاں یہ علم ہوا کہ ہوا ، پانی اور آگ پر بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکومت تھی اور آگ بھی آپ کی تابع اور فرمانبردار تھی ۔امام الحرمین نے اپنی کتاب
” التامل ” میں تحریر فرمایا ہے کہ ایک دفعہ مدینہ منورہ میں زلزلہ آگیا جس کی وجہ سے زمین زور زور سے کانپنے اور ہلنے لگی امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جلال میں اکر ایک زوردار درہ زمین پر مارا اور تڑپ کر فرمایا کہ
” اے زمین ساکن ہوجا کیا میں نے تیرے اوپر کوئی عدل نہیں کیا ؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گرجتی ہوئی آواز سنتے ہی زمین ساکن ہوگئی اور کبھی اپنی جگہ سے نہیں ہلی اور یوں زلزلہ ختم ہوگیا
( حجتہ اللہ ج2 ص 861 ، ازلتہ الخفاء مقصد 2 ص 172 ).
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہاں یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ ہوا ، پانی ، آگ اور زمین چاروں پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکومت تھی اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان شاہی کا سکہ چلتا تھا چونکہ ہوا ، پانی ، آگ اور زمین یہ چاروں اربعہ عناصر کہلاتے ہیں یعنی ان چاروں سے تمام کائنات کے مرکبات بنائے گئے ہیں تو جب ان چاروں اربعہ عناصر پر اولیاء کرام کی حکومت ثابت ہوگئی تو جو چیزیں ان چاروں عناصر سے مرکب ہوتی ہیں تو ان پر بھی بطریق اولیٰ اولیاء کرام کی حکومت ثابت ہوجاتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک دفعہ اچانک آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرزمین روم میں ایک اسلامی لشکر بھیجا پھر کچھ دنوں کے بعد بالک ہی اچانک مدینہ منورہ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انتہائی بلند آواز سے کہا ” یالبیکا یالبیکا ” یعنی اے شخص میں تیری پکار پر حاضر ہوں اہل مدینہ یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ امیر المومنین کس کی فریاد کا جواب دے رہے ہیں لیکن جب کچھ دنوں کے بعد وہ لشکر واپس مدینہ منورہ پہنچا اور لشکر کے سپہ سالار نے اپنی فتوحات اور جنگی کارناموں کا ذکر ایک مدینہ کے سامنے کرنے لگا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے کہا کہ یہ سب چھوڑو یہ بتائو کہ کسی کے دریا میں ڈوبنے کا کیا قصہ ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں لشکر کے اس سپہ سالار نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جلال سے سہم کر عرض کیا کہ سے امیر المومنین مجھے اپنی فوج کو دریا کے پار اتارنا تھا اس لئے میں نے اس شخص کو دریا کی گہرائی معلوم کرنے کے لئے بھیجا چونکہ موسم سرد تھا اور ٹھندی ہوائیں بھی چل رہی تھیں اس لئے اس کو سردی لگ گئی اور اسی لئے اس نے دو مرتبہ ” یا عمرہ یا عمرہ ” کہکر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پکارا پھر یکایک اس کی روح پرواز کرگئی خدا گواہ ہے کہ میں نے اسے دریا میں جانے کا حکم اسے ہلاک کرنے کی نیت سے نہیں دیا تھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب اہل مدینہ نے سپہ سالار کی زبانی یہ قصہ سنا تو انہیں سمجھ آگیا کہ ایک دن جب امیر المومنین نے دو دفعہ ” یالبیکاہ یالبیکاہ ” کہا تھا اصل میں وہ اسی مظلوم کی فریاد کا جواب تھا اس سپہ سالار کی بات سن کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جلال میں آگئے اور فرمایا کہ ایسے موسم میں جب موسم سرد ہو اور ٹھندی ہوائیں چل رہی ہوں کسی شخص کو دریا میں جانے کا حکم دینا قتل خطا کے حکم میں آتا ہے لہذہ تم اپنے مال میں سے اس کے وارثوں کو خون بہا ادا کرو اور آئندہ کبھی کسی سپاہی سے ایسا کوئی کام نہ لینا جس سے اس کی ہلاکت کا خدشہ ہو کیونکہ میرے نزدیک ایک مسلمان کا ہلاک ہو جانا کئی بڑی سے بڑی ہلاکتوں سے بھی بڑھ چڑھ کر ہے ۔
( ازلتفہ الخفاء مقصد 2 ص 172)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس قصہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہلاک ہونے والے سپاہی کی فریاد سینکڑوں میل دور سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہ صرف سنی بلکہ اسے جواب بھی دیا لہذہ یہ ثابت ہوا کہ اولیاء کرام کے دور کی آواز کو سننا اور جواب دینا ان کی رب العزت کی عطا سے ایک کرامت ہے کہ وہ دور سے کسی مظلوم کی فریاد کو سنتے بھی ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ربیعہ بن امیہ بن خلف نے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک دفعہ ایک خواب سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے ایک خواب دیکھا کہ میں ایک ہرے بھرے میدان میں ہوں اور اچانک ایک چٹیل میدان میں آگیا جہاں دور دور تک کسی درخت یا ریت کا نام و نشان تک نہیں تھا اور یوں میری آنکھ کھل گئی لیکن جب میں بیدار ہوا تو اپنے آپ کو ایک کھلے میدان میں پایا یہ خواب سن کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تو ایمان لیکر آئے گا اور پھر دوبارہ کافر ہو جائے گا اور کفر کی حالت میں ہی مر جائے گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اپنے خواب کے بھیانک انجام کو سن کر اس نے کہا کہ اے امیر المومنین میں تو مذاق کررہا تھا میں نے کوئی خواب نہیں دیکھا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تونے خواب دیکھا ہو یا نہیں لیکن میں نے جو تعبیر بتادی وہ اب پوری ہوکر رہے گی یوں ایک دفعہ وہ شراب کے نشے میں پایا گیا تو امیر المومنین نے درے مار کر سزادی اور اسے شہر بدر کرکے خیبر بھیج دیا یہ ظالم وہاں سے بھاگ کر روم کی سرزمین پہنچ گیا اور وہاں جا کر وہ مردود و نصرانی ہوگیا اور مرتد ہوکر کفر کی حالت میں مر گیا ۔( ازلتفہ الخفاء مقصد 2 ص 170)۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اولیاء کرام جب اپنی زبان سے کوئی بات کہ دیں تو اللہ تعالیٰ ان کی بات پوری کرکے ان کی کرامت کو ظاہر فرمادیتا ہے اور یہ سلسلہ صحابہ کرام علیہم الرضوان سے لیکر شروع ہوتا ہے اور رہتی قیامت تک آنے والے اللہ تعالیٰ کے خاص اور مقرب بندوں کے ذریعہ یہ جاری و ساری رہے گا کیونکہ دنیا کے وجود میں آنے سے لیکر اب تک اور اب سے لیکر قیامت تک اللہ تعالیٰ کے ان خاص بندوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے ہمارے درمیان بھی ایسے لوگ موجود ہیں بس صرف دل کی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کریں گے تو ضرور نظر آئیں گے ان شاءاللہ ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب بھی ملکی سیاست میں کسی عالم دین یا بزرگان دین کی جب بھی انٹری دکھائی دیتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ان مولانائوں کا سیاست سے کیا تعلق یہ صرف دین کا کام کریں اور بس جبکہ دین کو سیاست سے الگ ہم کر ہی نہیں سکتے دین اور سیاست ایک دوسرے کے لئیے لازم و ملزوم ہیں اور یہ دین ہی سکھاتا ہے کہ سیاست کسے کہتے ہیں دنیا کے بڑے بڑے حکمران جب حکومت کے عدل و انصاف اور ترقی و کامرانی کی بات کرتے ہیں تو امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور حکومت کی مثال دیتے ہوئے نظر آتے ہیں اب وہ چاہے یہودی ہی کیوں نہ ہو ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ اس لئیے کہ دنیا میں حکومت چلانے کے لئیے گورنر کی تقرری کا نظام اور ان کی تنخواہ کا سلسلہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دور حکومت میں شروع کیا گیا آج دنیا کے تمام گورنرز کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شکگزار ہونا چاہئے اسی طرح جیل خانہ جات کا سلسلہ بھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور حکومت میں شروع ہوا کیونکہ جو لوگ کوئی جرم کرتے تو انہیں وہاں بند کرکے سزا دی جاتی تھی اور جو توبہ کرکے معافی مانگ لیتا اسے رہا کردیا جاتا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے اسی طرح حکومتی معاملات میں ہونے والے مختلف کیسز جو سمجھنے اور اس پر صحیح اور عدل فیصلہ دینے کے لئیے چیف جسٹس کے تقرر کا نظام بھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور حکومت سے شروع ہوا تاکہ لوگوں کو حق اور صحیح انصاف فراہم ہوسکے ہمارے یہاں جب الیکشن ہوتے ہیں تو اس سے پہلے مردم شماری کروائی جاتی ہے مردم شماری کا یہ سلسلہ شروع کرنے کا سہرا بھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور حکومت کے سر جاتا ہے ملک کے بارڈر پر دشمنوں سے حفاظت کے لئے فوج کی تشکیل کا سہرا اور ان کے لئیے فوجی چھائونی بنانے کے سلسلہ بھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور حکومت سے شروع ہوا جو آج تک جاری ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب آپ ہی بتائیے کہ ہمارے یہاں ان سب معاملات کو سیاست میں کتنی گہرائی سے دیکھا جاتا ہے پس یہ ثابت ہوا کہ دنیا کی حکومتیں صرف اور صرف صحیح العقیدہ عالم دین کے ذریعے ہی عدل و انصاف کے ساتھ چلائی جاسکتی ہیں اور یہ بات ہمیں امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود کرکے بتائی اسی لئیے آج بھی ان کے دور حکومت کا ذکر اکثر ہوتا ہوا نظر آتا ہے عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالیٰ کے یہ مقرب صحابی ، خلیفہ دوئم اور حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے قریبی ساتھی و دوست امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تخت خلافت پر رونق افروز ہوکر جانشینی رسول کی تمام ذمہ داریوں کو بڑے احسن طریقے سے انجام دیا تاریخی خواہد جو ملتے ہیں ان کے مطابق اَبُولُؤْلُؤَہ فیروز مجوسی نے آپؓ کو زہر آلود دو دھاری خنجر سے ذوالحجہ کے آخری ایام میں فجر کی نماز پڑھاتے ہوئے زخمی کیا اور اُسی کے نتیجے میں آپ کی شہادت یکم محرم الحرام کو واقع ہوئی اور آپ کی تدفین عمل میں آئی۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں امام اَبُونُعَیْم لکھتے ہیں: ”حضرت سعدؓ بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں: حضرت عمرؓ کو 26 ذوالحجہ 23 ہجری کو (قاتلانہ حملے میں) زخمی کیا گیا اور یکم محرم الحرام 24ہجری کی صبح آپ کی تدفین ہوئی، پس آپ کی خلافت دس سال پانچ ماہ اور اکیس دن رہی۔ (المنتخب من ذیل المذیل، ص:11)، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شہادت کا اصل ذکر مفتی منیب الرحمن نے اپنے ایک مضمون میں کچھ یوں بیان کیا ہے کہ ”جب حضرت عمر فاروقؓ بدھ 26 ذوالحجہ کو محراب میں صبح کی نماز پڑھا رہے تھے تو اَبُولُؤْلُؤَہ فِیْرُوزُ نے (زہر آلود) دو دھاری خنجر سے آپ پر حملہ کیا، اس نے تین وار کیے اور ایک روایت کے مطابق چھ وار کیے، اُن میں سے ایک وار آپ کے زیرِ ناف لگا تو آپ گر پڑے، اس دوران آپ نے حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کو نماز میں اپنا نائب بنایا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں پھر وہ پلٹ کر نکلا، راستے میں جو آیا، اُن پر وار کرتا گیا حتیٰ کہ اُس نے تیرہ اشخاص پر ضرب لگائی، اُن میں سے چھ شہید ہوگئے، فیروز اصلاً ایرانی تھا، پھر حضرت عبداللہؓ بن عوف نے اُس پر کمبل ڈالا تو اس ملعون نے خودکُشی کر لی، حضرت عمرؓ کو اٹھاکر ان کے گھر لے جایا گیا، اُن کے زخم سے خون بہہ رہا تھا، یہ طلوعِ آفتاب سے پہلے کا واقعہ ہے، پھر آپ کبھی بے ہوش ہو جاتے اور کبھی ہوش میں آ جاتے، جب ہوش میں آتے تو آپ کو نماز یاد دلائی جاتی، وہ کہتے: ہاں! جو نماز چھوڑ دے اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے پھر اپنے وقت پر نماز پڑھتے، انہوں نے پوچھا: انہیں کس نے قتل کیا ہے، لوگوں نے بتایا: مغیرہ بن شعبہ کے غلام اَبُولُؤْلُؤَہ نے، تو انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میری موت کسی مسلمان کے ہاتھ سے نہیں ہوئی، پھر کہا: اللہ اُس کا برا کرے، ہم نے تو اسے اچھی بات کا حکم دیا تھا، مغیرہ بن شعبہ نے اُس کے ذمے دو درہم یومیہ لگائے تھے،
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں پھر انہوں نے حضرت عمرؓ سے پوچھا: کیا میں اُس کے محصول میں اضافہ کر دوں،کیونکہ وہ کارپینٹر ہے، نقش و نگار کرتا ہے، لوہار ہے، تو انہوں نے اس کا محصول سو درہم ماہانہ کر دیا اور اُس سے کہا: مجھے پتا چلا ہے کہ تم بہت اچھا کام کرتے ہو، تم ہوائی چکی بناتے ہو، اَبُولُؤْلُؤَہ نے کہا: میں ضرور آپ کے لیے ایک ایسی چکی بنائوں گا کہ لوگ مشرق و مغرب میں اُس کا ذکر کریں گے، یہ منگل کی شام کا واقعہ ہے اور بدھ 26 ذوالحجہ کی صبح اس نے آپ کو خنجر گھونپ دیا، پھر حضرت عمرؓ نے اپنا جانشین منتخب کرنے کے لیے ایسے چھ اصحاب پر مشتمل کمیٹی بنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اپنی وفات تک اُن سے راضی تھے اور وہ تھے: ”حضرات عثمان، علی، طلحہ، زبیر، عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم۔
(البدایہ والنہایہ، ج:7، ص:138)۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ایک وسیع موضوع ہے لیکن میں نے کوشش کی ہے کہ مختصر اور جامع الفاظ میں ان کو خراج عقیدت پیش کرسکوں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے پیارے اور مقرب بندوں کا ذکر کرنے اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے مجھے دعاؤں میں خاص طور پر یاد رکھیے گا آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
یوسف برکاتی