ایک تصویر
اودھ کے ضلع سیتاپور میں میرے ایک پھوپھا کورٹ آف وارڈز کے منیجر تھے۔ وہاں پھوپھی کے زنانہ ڈرائنگ روم کی ایک دیوار پر سنہرے منقش فریم میں ایک نوعمر رانی صاحبہ کی قد ِ آدم رنگین تصویر لگی ہوئی تھی۔ تصویر نے سچ مچ کے کپڑے پہن رکھے تھے۔ تصویر کو اصلی کپڑوں اور زیوروں سے آر راستہ کرنا اس زمانے کا شاید ایک خاص فن تھا، کیوں کہ اس طرح کی ایک بنگالی خاتون کی تصویر میں نے کلکتے میں بھی دیکھی تھی۔ بہر حال___ بھری دوپہر کو یا شام کے وقت اس نیم تاریک کمرے میں جانے پر اچانک ایسا لگتا تھا جیسے کوئی جیتی جاگتی لڑکی سامنے کھڑی ہے۔ ڈرسا لگتا تھا___ اندھیرا پڑے جب مٹی کے تیل کے بڑے بڑے لیمپ جلائے جاتے تو ان کی روشنیوں میں جھلملاتی یہ تصویر اور زیادہ عجیب، ڈرامائی اور سہانی سی معلوم ہوتی۔
سیتاپور کی گرمیوں کی شامیں بھی بے حد سہانی ہوتی تھیں۔ وسیع اور پر فضا باع پر وہ پرفسوں خاموشی طاری ہوتی جو یوپی کے موسم گرما کی خصوصیت ہے، جب پھولوں اور آم کے درختوں کی مہک اور گھاس کی خنکی اور فضا کی حدت سب مل جل کر ایک ہوجاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک شام ہم سارے بچے لان پر کھیل رہے تھے، جب ایک ’’سیلون کار‘‘ برساتی میں آکر رکی، جس کی کھڑکیوں میں چینی ریشم کے نیلے پردے لگے ہوئے تھے۔ فوراً پردہ کرایا گیا اور وہ تصویر والی گوری چٹی رانی صاحبہ سہج سہج چلتی گھاس پر آگئیں___ تصویر میں ان کی مانگ میں سیندور لگا ہوا تھا، بالوں کے گپھے سے بنے تھے، اور جھالر دار بلائز کے ساتھ عنابی رنگ کی بنارسی ساڑی پہن رکھی تھی جس پر جرائو بروچ چمک رہا تھا (بلائوز ساڑی اور بروچ سب اصلی تھے اور بڑی چابک دستی سے تصویر پر چپکائے گئے تھے) لیکن اس وقت ان کی مانگ سونی تھی اور وہ سفید ریشمی ساڑی پہنے ہوئے تھیں۔ ایک اینگلو انڈین گورنس ان کے اکلوتے تین سالہ لڑکے کی انگلی تھامے ان کے پیچھے پیچھے کار سے برآمد ہوئی۔ رانی صاحبہ پھوپھی اور پھوپھا کے ساتھ باتوں میں مشغول ہوگئیں اور ہم بچوں کو وہاں سے ہانک دیا گیا۔ یہ دمینتی دیوی آف رام کوٹ راج تھیں، جن کو اس روز میں نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔
میری عمر جب کوئی چھ برس تھی۔ ان کی وہ کپڑوں والی تصویر اور ان کالان پر آنا آج تک مجھے اسی طرح یاد ہے۔ اس وقت راجہ صاحب کے انتقال کو سال بھر ہوا تھا، اور علاقہ کورٹ میں تھا___ پھوپھی سے ان کی بہت دوستی تھی اور پھوپھا ان کا بہت خیال رکھتے تھے وہ بے چاری زمین داری کے جھگڑوں میں گھری ہوئی تھیں اور رشتے دار ان کی مدد کرنے کی بجائے ان سے مقدمے لڑ رہے تھے۔ عدالتی معاملات کی دیکھ بھال کی غرض سے وہ اینگلو انڈین گورنس سے انگریزی بھی سیکھ رہی تھیں۔ دمینتی دیوی خود ایک پابند وضع تعلقے دار کی بیٹی تھیں اور پردے میں رہتی تھیں۔ میرے ہائی اسکول کے امتحان ہونے والے تھے اور میں اکثر پڑوس کی خالی کوٹھی کے کسی ڈھنڈار کمرے میں بیٹھ کر کلاسیکل موسیقی کے پرچے کے لیے زور زور سے سبق یاد کیا کرتی تھی۔ جب آ آ آ کرتے کرتے میرا ناک میں دم آجاتا تو کوئی ہلکا پھلکا گیت الاپنا شروع کردیتی۔ اس روز میں بھوپالی کے تان پلٹے یاد کرنے کی بجائے نہایت خشوع وخضوع سے جو تھیکا رائے کے ’’ٹھاکر روٹھ گئے ہیں کیسے انہیں منائوں‘‘ کا وظیفہ کررہی تھی کہ اچانک ایسا محسوس ہوا کہ پیچھے کوئی کھڑا ہے۔ میں نے پلٹ کر دیکھا کہ تراشیدہ بالوں والی ایک بے حد اسمارٹ خاتون بغیر آستین کے بلائوز اور سفید جارجٹ کی ساڑی میں ملبوس، دروازے سے لگی میری ’’نغمہ سرائی‘‘ سن رہی ہیں اور ان کے ہونٹوں پر ہلکا سا تبسم ہے۔ میں تو ان کو پہچانی نہیں، مگر انہوں نے برابر کے پھاٹک پر والد کے نام کا بورڈ دیکھ لیا تھا۔ میں نے جھینپ کر اٹھ کھڑی ہوئی تو انہوں نے کہا۔ ’’بیٹا تم ہمیں پہچانیں نہیں___ ہم تمہاری بوا کی سہیلی ہیں___‘‘ ’’رانی صاحب___!‘‘ میں نے حیرت سے کہا۔ ’’ہاں بٹیا___ اب ہم تمہاری پڑوسی ہیں___‘‘ انہوں نے جواب دیا۔ اسی وقت فرنیچر کا ٹرک باہر آکر رکا اور غل غپاڑہ شروع ہوگیا۔ ’’چلو ہم تہارے یہاں سب سے مل آئیں___‘‘ رانی صاحبہ نے کہا۔ ملازموں کو چند احکام دینے کے بعد وہ باہر آئیں اور میرے ساتھ ساتھ باڑ پھلانگ کر ہمارے احاطے میں داخل ہوگئیں۔ ہمارے یہاں اس وقت پچھلے برآمدے میں سہ پہر کی چائے پی جارہی تھی۔ ابھی رانی صاحب کو بیٹھے دس پندرہ منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ ایک بے خوب صورت نوجوان سیڑھیوں پر نمودار ہوا۔ اس نے ادب سے سب کو تسلیم کی اور رانی صاحبہ سے کہا۔ ’’مصرا صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ ط ’’ابھی آتے ہیں___ اور دیکھو سکریٹری___ مدار بخش سے کہو وہ بھی ٹھہرے___‘‘ ’’یس رانی صاحب___‘‘ لڑکے نے جواب دیا اور الٹے پائوں واپس ہوگیا۔ دمینتی دیوی پھر باتوں میں مصروف ہوگئیں، مگر انہوں نے جس تحکم اور سنجیدگی سے اس لڑکے کو ’’سکرٹری‘‘ کہا وہ مجھے بہت دل چسپ معلوم ہوا، کیوں کہ دبلا پتلا حسین لڑکا جو شکل سے کشمیری معلوم ہوتا تھا۔ سکرٹری کسی طرح نہ لگتا تھا۔ رانی صاحب نے جلدی جلدی چائے ختم کی اور واپس چلی گئیں۔ اس وقت رانی صاحبہ کوئی پینتس برس کی رہی ہوں گی۔ وہ روانی سے انگریزی بول رہی تھیں۔ علاقے کا کام خود سنبھالتی تھیں۔ فرّاٹے سے کار چلاتی تھیں اور مسوری کا ’’سیزن‘‘ بال روم رقص اور برج میں گذارتی تھیں
وہ باوقار پردہ نشین بی بی جن کو میں نے سیتا پور میں دیکھا تھا۔ وہ بنارسی ساڑی میں لپٹی ہوئی تصویر جو پھوپھا کے لکھنؤ والے گھر کے ڈرائنگ روم میں اب بھی موجود تھی۔ ان میں اور اس ماڈرن خاتون میں بڑا فرق تھا۔ سات سال میں کایا پلٹ گئی تھی۔ دمینتی دیوی ’’ سوسائٹی ٹائپ‘‘ بن چکی تھیں۔ والد آزادی نسواںکے جوشیلے علم بردار اور حامی تھے۔ مگر ان کو یہ بے حد جدید ٹائپ بہت نا پسند تھا۔ اس وجہ سے ہماری ملاقات اب رانی صاحب سے بہت کم ہوتی تھی۔ اکثر ان کے یہاں سے رات گئے تک پارٹیوں کے شورو شغب کی آواز آتی رہتی ۔ جب رانی صاحبہ علاقے پر چلی جاتیں تو ان کا سکریٹری ان کی غیر موجودگی میں ایک فلمی ریکارڈ بار بار بجاتا۔ آرام کہاں دل جو پڑا غیر کے پالے مفلس کو خدا عشق کے پھندے میں نہ ڈالے اکثر گراموفون کی سوائی ایک جگہ پر اٹک کر ’’ مفلس کو خدا مفلس کو خدا مفلس کو خدا ‘‘ کی تکرار کرتی جو کانوں کو سخت ناگوار گزرتا۔ مگر ایک خاصے ڈرامائی واقعہ نے اس غل غپاڑے کا خاتمہ بالخیر کردیا۔ ایک روز صبح سویرے والد اپنے کمرے میں بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ رانی صاحبہ نے سراسیمگی کے عالم میں دریچے میں سے اندر جھانکا اور بولیں ۔ ’’ بڑا غضب ہو گیا __ میرے ساتھ چلیے __ فوراً __ بڑا غضب ہوگیا۔‘‘ والد گھبرا کر فوراً برآمدے میں گئے۔ ’’ سکریٹری نے خودکشی کر لی__ فوراً میرے ساتھ چلیے __ ادمائی گاڈ __ اب تک مر بھی چکا ہوگا __ اوہ __ اوہ __ کہہ رہا تھا ریل کی پٹری پر جالیٹوں گا__ اوہ__ ‘‘ ’’ ٹھیریئے میں کپڑے تبدیل کر لوں__ ‘‘ والد بے چاروں نے پریشانی سے کہا۔ ’’ نہیں __ نہیں__ ایسے ہی چلیے __ جلدی‘‘ رانی صاحبہ نے بدحواسی سے جواب دیا۔ والد قمیص پاجامہ پہنے پہنے ہی ان کی کار میں بیٹھ گئے اور کار زن سے پھاٹک سے باہر نکل گئی ۔ انہوں نے جاکر بارہ بنکی جانے والے قریبی ریلوے لائن کا ناکام جائزہ لیا__ جہاں رانی صاحبہ کے بیان کے مطابق سکریٹری نے جان شیریں، جان آفریں کے سپرد کردی تھی۔ آخر پولس چوکی پر اس کی گمشدگی کی اطلاع کرانے کے بعد جب وہ واپس لوٹیں تو مصرا جی ان کے منشی نے پان چباتے ہوئے اطمینان سے خبر سنائی کہ سکریٹری حضرت گنج کے کافی ہاؤس میں قہوہ پیتا ہوا اور نمکین مونگ پھلی کھاتا پایا گیاہے اور یہ بھی کہ کافی میں زہر نہیں ملا تھا __ اس کے بعد وہ ہونہار نوجوان بالکل غائب ہوگیا۔ سکریٹری کے جانے کے بعد دمینتی دیوی بہت دنوں تک اپنے لان پر نظر نہیں آئیں۔ ڈنر اور پارٹیاں موقوف ہوئیں۔ ان کے گھر پر سناٹا سا چھا گیا۔ گرمیاں نکلیں __ جاڑے آگئے__ ایک روز میں پچھلے باغ میں ایک درخت کی شاخ پر بیٹھی بہت عرصہ بعد ’’ ٹھاکر روٹھ گئے ہیں‘‘ الاپ رہی تھی کہ رانی صاحبہ مہندی کی باڑ کے نزدیک آکر کھڑی ہوگئیں__ کچھ دیر یوں ہی چپ کھڑی رہیں، اور پھر اپنے مکان کی طرف واپس چلی گئیں۔ اس دوران میں ان کی ذاتی کوٹھی ٹبلر گنج میں تعمیر ہوچکی تھی۔ چند روز بعد وہ وہاں منتقل ہوگئیں اور مدتوں کہیں دکھائی نہ دیں۔ نفیسہ نامی ایک لڑکی بی۔ اے میں میری ہم جماعت تھیں__ اس کی جن بزرگورار سے منگنی ہوئی وہ بھی بڑے سخت ’’ سوسائٹی ٹائپ‘‘ تھے۔ منگنی کے بعد انہوں نے نفسیہ اور اس کی سہیلیوں کو ایک ڈنر پر مدعو کیا جو پروفیسر کھوچڑ کے گھر پر دیا گیا تھا۔ پروفیسر کھوچڑ یونی ورسٹی کے ایک نام ور سائنسدان تھے ۔ ان کی لڑکیاں بہت خوب صورت تھیں اور ان کی برج پارٹیوں میں لکھنؤ کے سارے فیشن ایبل رؤسا اور امراء آیا کرتے تھے۔ نفیسہ کا منگیتر حامد زبردست اسنوب تھا، اور بات اس طرح شروع کرتا تھا ’’ کل میں اور غوث محمد لیڈی مہاراج سنگھ کے ہاں چائے پی رہے تھے تو وہاں لیڈی سریواستوا مجھ سے کہنے لگیں …‘‘ یا ’’ اس مرتبہ مسوری میں ہز ہائی نس آف راج پپلا نے بتایاکہ …‘‘ لہٰذا جب ہم لوگ پروفیسر کھوچڑ کے ہاں پہنچے تو حامد اس محفل میں اس طرح جا شامل ہوا جس طرح بطخ پانی پر تیرنے لگتی ہے۔ مختلف راجاؤں، نوابوں اور آئی سی ایس افسروں کے کندھوں پر بے تکلف تھپکیاں لگانے اور ان کی خواتین کی طرف مسکراہٹیں پھینکنے کے بعد وہ اس گوشے میں پہنچا جہاں ایک طویل القامت ، خوب رو شخص کاک ٹیل کا گلاس ہاتھ میں تھامے ، آتش دان پر کہنی ٹکائے، پوز بنائے کھڑا مالتی کھوچڑ سے باتیں کر رہا تھا۔ ’’ ارے یا ر منظور __ ‘‘ حامد نے قریب پہنچ کر کہا ’’ یار تم پرسوں سر جے پی کے لنچ پر نہیں آئے؟ خانمؔ حاجی بھی مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ اپنا منظور آج کل کہاں غائب ہے‘‘ منظور صاحب نے ایک ابرد اٹھا کر اپنی بلندی سے حامد کو دیکھا اور مسکرائے ’’ ہلو __ یو سو اینڈ سو __! ‘‘ انہوں نے گمبھیر آوازمیں کہا ۔ ’’ ہا ہا ہا __ ‘‘ حامد نے منظور صاحب کے کندھے پر ہاتھ مار کر قہقہہ لگا یا اور دو چار باتیں کر کے ہماری طرف لوٹا۔ ’’ یہ منظور صاحب کون ہیں ؟ ‘‘ نفیسہ نے پوچھا۔ ’’ارے وہی __ ‘‘ ’’ وہی کون__‘‘ ’’ ارے بھئی اپنی دمینتی کے سکریٹری __‘‘ ’’ دمینتی کون__؟ ‘‘ نفیسہ نے پوچھا۔ ’’ رانی صاحبہ رام کوٹ راج __ مگر اب کچھ مغرور سا ہوگیا ہے سالا۔ کونسل کی ممبر تو ہوئی ہیں رانی صاحبہ اور دماغ اس کے آسمان پر چڑھ گئے ۔‘‘ حامد نے جواب دیا۔ ’’ اچھے خاندن کا لڑکا ہے مگر جب مفت کا عیش ملے تو ہماری تمہاری طرح محنت مزدوری کی اسے کیا ضرورت ہے ۔‘‘ ہم لوگوں کے قریب بیٹھے ہوئے ایک مہمان نے کہا ۔ ’’ ارے بھئی ہمیں کوئی اپنا سکرٹری نہیں بناتا __ ‘‘ دوسرے مہمان نے جو زیادہ پی گئے تھے، آنسو بہاتے ہوئے کہا ۔ یہ مکالمہ میری سمجھ میں نہیں آیا، لیکن چند لمحوں بعد ہی کھانا شروع ہوگیا۔ اورمنظور احمد صاحب جب خالی پلیٹیں بانٹتے ہوئے میرے پاس آئے تو میں نے ان سے دمینتی دیوی کی خیریت دریافت کی۔ منظور صاحب نے بڑے اخلاق سے بتایا کہ رانی صاحبہ کا لڑکا رندھیر جو اب تک کالون تعلق دارز کالج میں پڑھ رہا تھا۔ ایئر فورس کی ٹریننگ کے لیے کل انبالے جارہا ہے۔ رانی صاحبہ اس کی روانگی کی تیاریوں میں مصروف ہیں، اس لیے یہاں دعوت میں نہ آسکیں__ اس کے بعدمنظور صاحب مجمع میں کھو گئے۔
کوئی دو تین برس ادھر کی بات ہے میں اپنے میزبانوں، شوبھا اور تر لوک ماتھر اور شو بھاکی چھوٹی بہن نلنی کے ساتھ دلی کے میڈتر ہوٹل کے ایک تقریباً سنسان ڈرائنگ روم میں آتش دان کے قریب بیٹھی تھی۔ باہر کڑا کے کا جاڑا پڑ رہا تھا۔ آتش دان میں تیز آگ لہک رہی تھی اور ہم لوگ کافی ختم کر کے گھر جانے کا ارادہ کر رہے تھے کہ ایک عمر رسیدہ امریکن جوڑا قریب سے گذرا۔ اس کے بعد ستّر برس سے اوپر کی عمر والے امریکن سیاحوں کی ایک پوری ٹولی ڈرائنگ روم میں سے گزر کر برابر کے کمرے میں چلی گئی۔ ’’ آج کل اینٹی بایوٹکس نے عمریں بڑھا دی ہیں۔ وافر عمر، وافر دولت، وافر عیش و عشرت۔ کیا زندگیاں ہیں، ان لوگوں کی ! ‘‘ ترلوک نے کہا۔ اینٹی بایو ٹکس کے لفظ پر بایو کیمسٹری میرے ذہن میں آئی، جس کا نام بھی میرے لیے نا قابل فہم ہے۔ شوبھا کی بہن نلنی بایو کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کر رہی تھی۔ ’’ تم کس مضمون پر ریسرچ کر رہی ہو‘‘ میں نے جماہی لیتے ہوئے اس سے پوچھا۔ ’’ چوہے کے جگر پر ‘‘ ’’غضب خداکا‘‘ ’’ نوا پیرا ہواے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے کبوتر کے تنِ نازک میں چوہے کا جگر پیدا ترلوک نے لہک کر کہا۔ ’’ کیا مہمل بات ہے ‘‘۔ میں نے اکتا کر کہا __ مجھے زور کی نیند آرہی تھی ۔ ’’وافر عمر، وافر دولت، وافر عیش‘‘ ۔ ترلوک نے دہرایا۔ ’’ غلط __ بالکل غلط__ ‘‘ ڈرائنگ روم کے ایک کونے سے ایک بھاری آواز بلندی ہوئی۔ ہم لوگوں نے چونک کر اس طرف دیکھا ۔ وسیع کمرے کے دوسرے سرے پر ایک اسٹینڈرڈ لیمپ کے سائے میں ایک ہندوستانی اور ایک یورپین جوڑا برج میں مصروف تھا۔ ہندوستانی خاتون کی پشت ہماری طرف تھی اور ان کے سفید بال جو جدید فیشن کے مطابق نیلے رنگے ہوئے تھے مدھم روشنی میں چمک رہے تھے۔ بھاری آواز والے ہندوستانی مرد نے پائپ کی راکھ جھٹکتے ہوئے ہماری طرف سرسری نگاہ ڈالی۔ مجھے ان کا جھرّیوں والا چہرہ ذرا مانوس سا معلوم ہوا۔ پھر وہ کوشش سے چھڑی کے سہارے اٹھے۔ ذرا لنگڑاتے ہوئے گیلری کے دروازے پرجاکر انہوں نے بیرے کو آواز دی اور واپس آکر اپنی کرسی پر بیٹھ گئے۔ (وہ کھیل میں ’’ ڈی‘‘ تھے) چند لمحوں کے بعد انہوں نے پہلو بدل کر اپنی ریسٹ واچ پر نظر ڈالی۔ ’’ کیا بات ہے ؟ ‘‘ یورپین عورت نے پوچھا۔ ’’ کچھ نہیں، انسان فانی ہے۔ اس لیے بار بار گھڑی دیکھتا ہے ۔‘‘ انہوں نے اسی گمبھیر آواز میں جواب دیا۔ کمرے میں عجیب سا سناٹا چھا گیا۔ نیلے بالوں والی ضعیفہ خاموشی سے کھیل میں منہمک رہیں۔ بیرا اندر آیا۔ اس نے مشروبات کی کشتی قریب کی تپائی رکھی اور واپس چلا گیا۔ اتنے میں ایک خوش شکل نوجوان، سرخ ’’ ٹرٹل نیک‘‘ سوئٹر اور سیاہ پتلون میں ملبوس کوٹ کندھوں پر ڈالے ، ہوا کے جھونکے کی طرح اندر آیا۔ ذرا ادا اسے چلتا، ہم لوگوں کو نگاہِ غلط انداز سے دیکھتا ہوا۔ وہ برج ٹیبل کے پاس گیا اور پیانو سے ٹک کر کھیل دیکھنے میں مشغول ہوگیا۔ نیلے بالوں والی خاتون نے سر اٹھا کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ایک ادائے دلبری کے ساتھ نوجوان نے نفی میں سر ہلایا اور پتلون کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر دیوار پر لگی ہوئی تصویریں دیکھنے لگا۔ ہم لوگ گھر جانے کے لیے اٹھے اور دروازے کی سمت جاتے ہوئے برج ٹیبل کے پاس سے گذرنے لگے تونیلے بالوں والی خاتون نے سر اٹھایا اور تیوری پر بل ڈال کر مجھے غور سے دیکھا۔ ’’ ارے __ یہ تو رانی صاحبہ رام کوٹ ہیں‘‘ شوبھا نے آہستہ سے کہا ’’ بے چاری کا اکلوتا لڑکا پچھلے سال ہوائی جہاز کے حادثے میں مارا گیا۔ بہترین پائلٹ تھا۔‘‘ میں ان کے قریب گئی۔ چند لمحے مجھے دیکھتے رہنے کے بعد پہچان گئیں اور کرسی سے اٹھ کر مجھ سے لپٹ گئیں__ پھر انہوں نے میرے خاندان والوں کی خیریت دریافت کی۔ میں قریب کے صوفے کے ہتھے پرٹک گئی۔ رانی صاحبہ نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔ ’’ تمہاری بوا سے کبھی کبھار لکھنؤ میں ملاقات ہوجاتی ہے۔ جب سے تمہارے پھوپھا کا انتقال ہوا ہے وہ کہیں آتیں جاتیں نہیں__‘‘ ’’ کس کا انتقال ہوا ہے ؟ ‘‘ بھاری آواز والے مرد نے تاش سمیٹتے ہوئے بے دھیانی سے سوال کیا۔ ’’ خان بہادر صاحب بے چارے کا __‘‘ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوئیں ’’ میرے ساتھ تو تم جانتی ہو بیٹا انہوںنے ساری عمر سگے بھائیوں سے بڑھ کر سلوک کیا ۔‘‘ اب میں بھی پہچان گئی۔ بھاری آواز والے صاحب منظور احمد تھے۔ مگر اب وہ بے حد دبلے پتلے مریض، بدمزاج چڑ چڑے سے نظر آتے تھے۔ رانی صاحبہ بات کرتے کرتے ان کی طرف اس طرح دیکھ لیتی تھیں جیسے بیوی اپنے شوہر کی بدمزاجی برداشت کرنے کی عادی ہوجاتی ہے۔ میں نے ترلوک، شوبھا اور نلنی کا رانی صاحبہ سے تعارف کرایا رانی صاحبہ نے ڈچ جوڑے کو ہم لوگوں سے ملوایا۔ ’’ تمہاری بوا بے چاری بھی بوڑھی ہوگئیں__ اتنی سندر تھیں جوانی میں __ ‘‘ وہ اسی اداس آواز میں کہتی رہیں۔‘‘ ’’ ہم سب بوڑھے ہوگئے ہیں بی بی__ ‘‘ منظور صاحب نے جھنجھلا کر ان سے کہا اورزور سے پائپ جھٹکنے لگے۔ سرخ سوئٹر والا شکیل نوجوان اٹھلاتا ہوا آکر دوبارہ کھیل دیکھنے میں مصروف ہوگیا۔ اسے دیکھ کر دمینتی دیوی کے تھکے ہوئے چہرے پر اجالاسا پھیل گیا۔ آنکھیں جگمگا اٹھیں۔ وہ جوانی میں حسین نہیں تھیں لیکن اب نیلے بالوں کے ساتھ ان میں ایک خاص وقار سا آگیا تھا۔ ڈچ میاں بیوی خاموش بیٹھے تھے۔ اب ڈچ خاتون نے لڑکے کو نظر بھر کے دیکھا اور ذرا ہلکی سی سوالیہ نگاہ منظور صاحب پر ڈالی۔ ’’میراری پلیسمنٹ منظور صاحب نے کرسی سے اٹھتے ہوئے ڈچ جوڑے سے کہا __ گوکل چڈہ رانی صاحبہ کے اسسٹنٹ پرائیوٹ سکریٹری __ مسٹر اینڈ مسز فان ٹوک __‘‘ نوجوان نے مسکرا کر سر خم کیا اور منظور صاحب کی کرسی پر بیٹھ گیا۔ منظور صاحب لنگڑاتے ہوئے ایک طرف کوچلے گئے ۔
رانی صاحبہ پھر تاش میںمحو ہوگئیں۔ ’’ ون نو ٹرمپ‘‘ ’’ ٹو ہارٹس ‘‘ ’’ٹونو ٹرمپس‘‘ ’’ تھری ہارٹس ‘‘ میں نے رانی صاحبہ کو خدا حافظ کہا اور دروازے پر پہنچ کر ایک بار پھر کمرے میں نظر ڈالی۔ کمرے میں مکمل سکوت طاری تھا اور ایک میز کے گرد چار سرجھکے ہوئے تھے۔ دمینتی دیوی کے نیلے بال زرد روشنی میں جھملا رہے تھے اور وہ دنیا وما فیہا سے بے خبر تاش میں مستغرق ہوچکی تھیں۔ منظور احمد وسیع ، گہرے کمرے کی پرچھائیوں میں کہیں گم ہوگئے تھے اور اسسٹنٹ سکریٹری اپنے گھنگریالے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے اپنے ہاتھ کے پتّوں پر غور کر رہا تھا۔ جب ہم لوگ کمرے سے باہر نکلنے لگے تو عنابی بنارسی ساڑی اور جھالر دار بلاؤز میں ملبوس ایک بھولی سی لڑکی دراوزے میں مجھ سے ٹکرا گئی۔ اس نے بالوں کے گپھے سے بنا رکھے تھے اور اس کی ساڑی میں جڑاؤ بروچ چمک رہا تھا۔ میں نے چونک کر آنکھیں پوری طرح کھولیں اور شوبھا نے کہا۔ ’’ واقعی تم تو نیند سے لڑ کھڑائے جارہی ہو۔ چلو جلدی سے گھر پہنچیں۔‘‘ چنانچہ ہم لوگ تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگے۔
قرۃ العین حیدر