- Advertisement -

تین جذبے

ایک اردو افسانہ از سمیع اللہ خان

تین جذبے

کیا کررہے ہو؟کچھ نہیں ،بس کھیل رہا ہوں۔کیاکھیل رہے ہوتُم؟کچھ نہیں ،بس جذبات سے کھیل رہا ہوں ۔کس کے؟ اپنے اورکس کے ۔ کوئی اور کھیلنے دیتاہے اپنے جذبات سے بھلا۔او اچھا۔پھرتوتُم بڑے بہادرہو۔اچھا یہ بتائو !تمہیں خو ف نہیںآتا۔ نہیں تو۔کیوں؟یار یہ جو کائنات کی اُلجھی ہوئی تخلیق ہے اِسے سُلجھا رہاہوں ۔واہ کمال ہی ہوگیا۔اوبھائی کوئی بےتُکاکام شروع کردو لیکن منجدھارسے باہر نکل آئو۔ارے کیوں بے ۔میری بات سُن !یہ دلدل ہے ،دلدل ۔کیاہے ؟۔۔دل ۔۔۔دل۔۔۔ہاہا۔ایسانہیں ہے بالکل نہیں ہے۔لگتاہے beauty the beast ،جیسی لوک کہانی پڑھ پڑھ کے کوئی انہونا کرداربن جائو گے۔اچھا!!! تو یہ کہانی کب کی ہے؟ یار وہ durhamور lisbon جیسی جامعات اپنی تحقیق میں اِسے چار ہزارقبل کی کہانی مانتی ہیں اوراسے فرانسیسی زبان میں gabriel suzzane،نے 1740 میں لکھا۔اورکردار؟اصل کردارتو بیچارا پیٹرس گون سال وس ہے ۔جو 1537میں سپین میں پیداہوا اور,congenitial hypertrichosis جیسی بیماری کاشکار تھا۔سارے جسم پرحیوانوں کی طرح بال تھے۔بس بس زیادہ مت سُنا۔کیوں کیاہوا؟ہمدردی جاگ گئی؟نہیں یار!اِدھرکے لوگوں کے چہروں پرکیاتجھے کچھ نظرنہیں آتاجو ہنری دوم کے قیدی پیٹرس کاذِکرلئے بیٹھاہے۔یاریہ اورہیں ۔سُن ناں !اچھا سُنا۔فرانس کے بادشاہ ہنری کوجب حکیموں نے بتایاکہ یہ انسان ہے تو اُس نے اس پرتجربات کانہ صرف فیصلہ کیابلکہ اِسے محل میں اچھی تعلیم بھی دلوائی ۔پھر ؟پھر کیاہوا؟یار تو صبرکیوں نہیں کرتا؟ ایک ہی سانس میں سب جاننا چاہتاہے ؟passion to acquire،کی بیماری تو نہیں لاحق؟اوبس چاکر۔اچھا اب میں چُپ ۔نہیں بولوں ،بالکل نہیں بولوں ۔ نہ، context میں نہ بغیرcontext ،کے۔ پھر 1559میں ہنری کی موت کے بعد کیتھرین ڈی میڈیسی سنے تخت سنبھال کرایک خوبصورت لڑکی سے پیٹرس کی شادی کروادی۔فطرت کے عین مطابق بچوں کی پیدائش پر وہ سیخ پاہوئی مگراُس کے بعد ہونے والے بچوں کے چہرے سمیت سارے جسم پر بکثرت بال دیکھ کراُس کوتسلی ہوئی۔اس ساری تکلیف کے باوجود دونوں میاں بیوی کوایک دوسرے سے خوب محبت تھی۔پھر ؟لڑائی ہوئی ؟یا کوئی مرگیا؟زہرکھالی؟یا بچے مرگئے؟اتنےتابڑ توڑ حملے کیوں کرتا بھائی ؟ مل جاتا جواب ۔ہوش کا دام تھام۔ایک دم سے سب کچھ نہیں ملتا۔نہیں!!! مجھے کچھ حاصل نہیں کرنا۔میں بس ویسے ہی جاننا۔علم کیلئے۔ہرعلم کاحصول ایک خاص مقصد کیلئے ہو تاہےمارا۔تجسس ہوگیاناں اب تو۔میں بھی توکہانی سناتاہوں ۔ہاں توں سناتاہے ۔تیری کہانی میں لوگوں کوسنادیتاہوں ۔اوئے یہ کیوں؟بس نہ بتایاکرکسی کو۔اوئے شیرجوان کیوں نہ بتائوں؟بس نہیں بتانی ناں۔یارکہانی سینہ بہ سینہ چلتی ہے ۔علم کو نہیں روکتے ۔اگر یہ کہانی کوئی روک لیتاتومیں آج تجھے نہ سنارہاہوتا۔ایسانہیں کرتے ۔کیوں نہیں کرتے ؟کرتے ہیں ۔ضرورکرتے ہیں ۔جو دل میں آئے کرتے ہیں اورخوب کرتے ہیں۔اچھا !کرباباتجھے کون روک سکتا۔ناراض تونہ ہو۔نہیں بس نہ سناکہانی ۔میں ایک کہانی کی خاطرتیری بے عزتی نہیں سہہ سکتا۔اچھا !تو تیری دوستی بس کہانی کی وجہ سے ہے ؟عجب ہے یار۔ساری دنیاہی عجب ہے۔میں توکوئلوں میں سے ہیرا چنا تھا ۔ اچھا؟؟ہاں تواورلیکن مجھے پھربھی تجھ پربھروسہ ہے ۔اچھا !سن ناں!سنا۔کیتھرین نے اس پورے خاندان کوبطورنمائش پورایورپ گھمایا۔پھر اس دکھی جوڑے سے ان کے ابنارمل بچے چھین کردوست ممالک کے حکمرانوں کوبطورتحفہ پیش کئے گئے جہاں انھیں اُن کے والد کی مانند پنجروں میں قید کرکے عوام کے سامنے پیش کیاجاتارہامگر ہنری دوم جیسابادشاہ کہیں نہ تھاجواُس کے زخموں پرمرہم رکھتا۔مرے نہیں وہ؟مرگئے ۔کب؟کیتھرین بیچاری شادی کے چالیس برس بعد، 1623میں چل بسی اور پیٹرس ازدواجی زندگی کی پینتیس بہاریں ہی دیکھ سکا۔یہ کہانی تو نے سنائی کیوں؟کیاتومجھے ان جیساسمجھتاہے؟نہیں یار!وہ بیمارتھے مگرانسان تھے ۔تو میں حیوان ہوں؟ہاں ہوں ۔ میں اکثر سوچتا ہوں ۔اِدھراُدھراوپرنیچے آگے پیچھ دائیں بائیں سجے کھبے سب کے سب کھرے انسان ہیں ایک میں ہی حیوان ہوں ۔ یا ر !! غُصہ کیوں کرگیا ۔ غصہ نہیں کرتا۔چل اُدھرچل ۔کدھر؟وہ سامنے جاکربیٹھتےہیں۔
اچھا تو اب بتا۔غصہ کیوں ہے ۔یار !غصہ نہیں ہوں ۔توجانتاہےناں مجھے۔ہاں !جانتاہوں۔میں زبان دان ہوں ۔ہاں ہے ۔ linguistہ،ے ناں یارا ۔آہو۔لفظوں کے اتارچڑھائوجانتاہے ۔جی۔تولفظوں کے بنائو،اُن کی ترتیب اورچنائوسے جان لیتاہے کہ باتوں کے پیچھے کیاچل رہاہے ۔کہنے والے کی عمر،نسل ،علاقہ ،تعلیم اورجذبات کے تلاطم سے آشناہوجاتاہے؟اس کو forensic ,linguisticsبولتے ہیں۔ایسی ہی ہے ناں؟ ۔جی سائیں ایساہی ہے۔پھر اگر تومجھے کہانی سناکر،لفظوں میں گھماکر،اپنے وہم وگمان کوشیدے گامے کے نام لگاکر سنائے گاتو کیامجھے دُکھ نہیں ہوگا؟مجھےاگر خدا نے یہ صلاحیت دی ہے تو خون کے گھونٹ پینے کاحوصلہ بھی عطاکیاہے ۔یہ علم بعدمیں پڑھا،تیل دیکھ ،تیل کی دھاردیکھ پہلے کاسن رکھا۔نہ یہ بتا!اتنابن رہاہے اورکہانی سنتے صبرکاپیمانہ لبریز کیوں کربیٹھا؟بس !!مجھے جانناتھا۔کیوں ؟آخرکیوں؟بس چھوڑ۔نہیں توبھی جانتاہے ناں میں سائیکالوجسٹ ہوں ۔میں بھی نفسیات کے پینتروں سے واقف ہوں ۔تجھے تیسرے passion, کی کہانی سُناتاہوں۔
یہ بھی ایک کیتھرین تھی مگر پروشین اورکیتھرین دی گریٹ تھی۔1762سے 1796،تک لمبی حکومت کرنے والی روس کی واحد ملکہ تھی جس نے روس کو تاریکیوں سے نکال کرروشنیوں کاسفرعطاکیا۔اورکیاکیااِس نے ؟مطلب اب تم بھی میری طرح بے صبرے ہورہے ہو؟نہیں تمہاری طرح نہیں کسی اورطرح۔کس طرح؟بس اُس طرح۔اِس طرح نہیں ؟اُس طرح؟اچھا !چھوڑ۔کہانی سن۔سنا۔اپنے خاوند کو مار کر اِس نے حکومت حاصل کی ۔کیوں مارااسے؟ابے یارچپ بھی کرجا۔اچھا !اب چپ،سنا۔اس کے خاوند سے عوام تنگ تھی اور کیتھرین کی ذاتی زندگی بھی۔یہ خاوند سے ہٹ کربھی کوئی ذاتی زندگی ہوتی ہے بھلا؟ہاں!ہوتی ہے ۔اپنے آپ سے ہٹ کربھی ذاتی زندگی ہوتی ہے ۔جب انسان کسی جذبے کواپنامحوربنالے توپھروہی زندگی ہوتی ہے ۔محض پالینے کاجذبہ نہیں ہوتا۔پھرکون ساجذبہ ہوتاہے ۔دوسراجذبہ جوکیتھرین میں تھاتخت لینے کے بعد۔کونسا دوسرا؟,passion to possess۔اس نے تخت پرقبضہ کیااورکچھ عرصہ پیٹر سوم کوجیل میں رکھ کرمروادیاکہ جوتخت اس نے حاصل کیا تھاوہ اسے کھونانہیں چاہتی تھی۔بدنام کرکے بھی کسی کی محبت دل سے نکالی جا سکتی ہے وہ چاہتی تو پیٹرکوعوام میں مزید بدنام کردیتی،اس نے ایسا کیوں نہیں کیا؟۔ہاں!مگراس نے پکاکام کیا اورگریگوری کے بھائی alexei orlov،کے ذریعے خاوندکی آنکھیں بندکروادیں۔پھر کیاہوا؟پھرتیسرے,passionکے تحت اس کی دوستی sergei ,saltykovاور , grigory potemkinسے رہی۔تووہ پھر اسی میںگھری رہی؟نہیں تو۔اسے 1773 میں,emelyan pugachev ،کی بغاوت کا سامناکرناپڑاجوکہ اہم شہرkazanپربھی قابض ہوچکاتھامگر 1775میں کیتھرین کی کامیاب حکمت عملی کے تحت عوام نے ہی پھانسی پرلٹکادیا۔اور؟اوریہ کہ سب سے زیادہ دوستی ، ,stanislaw poniatowskiکے ساتھ رہی جس کو تخت حاصل کرنے کے بعد پولینڈکابادشاہ بھی بنادیا۔واہ رے ۔جذبات کی تلاطم خیزیاں۔اچھا یہ بڑے لوگ کسی جذبے میں گھرتے ضرورہیں لیکن ہرسمت ایک خاص وقت دیتے ہیں اورتخت کو اس میں خاص مقام حاصل ہوتاہے۔اب کیتھرین سب کاموں کے ساتھ آرٹ اورفلسفہ کی ترویج میں بھی شامل رہی۔والٹئیر جیسافلسفی کیتھرین کی دی گئی آزادیوں کا متعرف تھا وہ تعلیمی اصلاحات کرتی گئی اوراس طرح اُس کاعرصئہ حکومت سنہری دورکہلاتاہے ۔جی وہ اس لئے کہ تخت ہی اُن کے تمام جذبات کی رکھوالی کرتاہے ۔ان کے پاس یا تخت ہوتاہے یاتختہ ۔اچھا کیتھرین مری کیسے؟دل کے دورے سے اپنے بسترپرجان دے دی مگرمخالفین مختلف طرح کے الزامات لگاتے ہیں کوئی کہتاہے کہ جائے حاجات میں مری کوئی کہتاہے کہ گھوڑے کی زین ٹوٹی اورمرگئی۔ وہ دوراندیش تھی جیسے تم زبان دان ہو۔اپنے بیٹے پال کوحکمران نہیں بناناچاہتی تھی ۔اسے معلوم تھاکہ وہ اپنے باپ پیٹرسوم کی طرح ناکام حکمران ہو گااورایسے ہی ہوا۔بالاآخراس کے تئیس سالہ پوتے الیگزینڈر اول نے حکومت سنبھالی۔حکمرانی نہ نسل پرمنحصرہے نہ انتخاب پربس جوباصلاحیت ہواسے ہی منصب سونپاجائے ۔کیوں جمہوریت بکواس ہے کیا؟ہاں!کسی حدتک ۔کیسے ؟ملٹی نیشنل کمپنیاں کارپوریٹ میڈیاکے ذریعےالیکشن اوررائے سازی پر اثرانداز ہوتی ہیں اوریہ بات نوم چومسکی اورایڈورڈ ہر من اپنی 1999 والی کتابThe Manufacturing consent:The ,Political Economy of mass mediaمیں کہہ چکے ہیں۔کیاکہا؟وہ میڈیاکے بارےکہتےہیں It Turns ,around economy۔
اچھا وہ جسے تو تیسراجذبہ کہہ رہا ہے میں تو اسے نمو کا جذبہ کہوں گا۔جی سائیں ضرورکہیئے۔ہاں نموکے بغیرتوانسانی کائنات کے تسلسل کاتصوربھی ممکن نہیں ۔بھائی دیکھ!یہ ہرکسی کی اپنی سمجھ ہے ۔اچھا اب مجھے نیند آرہی۔کیوں باتیں کرناں ۔بہت نیند۔اچھا سوجا۔مجھے نہیں چاہیئے تیراوقت ۔شب بخیر۔اللہ حافظ

سمیع اللہ خان

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
رحمان فارس کی ایک غزل