خیال و خواب کے منظر میں پل نہیں سکتی
خوشی غمی کے سوا زیست چل نہیں سکتی
سیاہ شب تو مقدر کی ٹل نہیں سکتی
پیے نہ خونِ جگر تو یہ ڈھل نہیں سکتی
نکل تو سکتی ہے ہر بات خانہءِ دل سے
ستم ہے پہلی محبت نکل نہیں سکتی
کسی پرانی حویلی میں روح کی مانند
بھٹک تو سکتی ہوں مسکن بدل نہیں سکتی
نگاہِ غیر میں یوں تو میں ٹھیک ہو لیکن
ترے بغیر طبیعت سنبھل نہیں سکتی
اگرچہ عشق ہے شب کو چراغ سے پھر بھی
ملائے آنکھ نہ سورج تو جل نہیں سکتی
جسے عزیز ہو دستار اپنے بابا کی
کبھی وہ بیٹی غلط رہ پہ چل نہیں سکتی
منزّہ سیّد