کوئی وظیفہ مجھے بھی بتا، مِرے درویش
تجھے ہوئی ہے فقیری عطا، مِرے درویش
میں دل سے کہہ رہی تھی، "باز آ محبت سے”
وہ ہاتھ جوڑے ہوئے رو پڑا، مِرے درویش
مری خطا تو بس اتنی ہے اس تعلّق میں
کہ میں نے ہونی کو ہونے دیا، مِرے درویش
اسے میں پیار مَحبّت کا نام کیسے دوں؟
یہ اور طرح کا ہے تجربہ، مِرے درویش
ترا ہی عشق مہَکتا ہے رات دن مجھ میں
بس اور کچھ نہیں مجھ میں نیا مِرے درویش
تُو زندگی کا ستارہ بھی استعارہ بھی
مِرے لیے ہے تُو سورج نُما، مِرے درویش
مجھے وجود سے، موجود سے نہیں ہے غرض
ہے لا وجود کی مجھ میں صدا، مرے درویش
ناہید ورک