پھر وہی رات
پھر وہی درد میں ڈوبی ہوئی بے رنگ سی رات
کرب کی آخری سرحد سے گذرتی ہوئی رات
جس کی جلتی ہوئی آنکھوں سے نمی جھانکتی ہے
مجھ سے ایّامِ گذشتہ کا پتہ مانگتی ہے
اور اک میں کہ بڑی دیر سے سنّاٹے میں
سوچتا ہوں کہ بھلا مجھ سے یہ کیا چاہتی ہے
میں تہی دست کسی کاسۂ سائل کی طرح
یا کسی تشنہ دہن سوکھتے ساحل کی طرح
آخر اس رات کی تقدیر سنواروں کیسے
غم و اندوہ کے ملبے سے نکالوں کیسے
گم گشتہ کہ جس کا نہ سرا ہے نہ سراغ
عمرِ گم گشتہ کا میں اِس کو پتہ دوں کیسے
ہاں مگر ذہن کے گوشے میں بہت دور کہیں
ایک مانوس سا چہرا ہے ابھی جلوہ نشین
اتنا مانوس کہ ہمزاد ہو جیسے میرا
اُس کے ہونٹوں پہ مچلتا ہوا میرا لہجہ
مجھ سے یہ بات بڑے کرب سے کہتا ہے نبیلؔ
کون سے یگ میں ہو اتنا تو بتایا ہوتا
چند بے ربط سے خاکے ہیں سرِ شہرِ خیال
ہجر ہی ہجر ہے مفقود ہے امکان وصال
کون بیتے ہوئے لمحوں سے سوالات کرے
عہدِ ماضی سے بھلا کون شکایات کرے
کرب و آلام جب اِس رات کی قسمت ٹھہری
آسماں کیسے ملاقات کی برسات کرے
ہائے یہ رات تو ہلکان کئے دیتی ہے
ذہن و احساس کو بے جان کئے دیتی ہے
کیسے بتلاؤں کہ وہ ساری کی ساری شکلیں
جن کی آواز کی خوشبو ہے ابھی تک دل میں
جانے کس شہر میں کس موڑ پہ کھو بیٹھا ہوں
مرے ہمراہ تو اب کچھ بھی نہیں بس یادیں
پھر بھی جو کچھ ہے مرے پاس وہ اس رات کے نام
کرب آلود سسکتے ہوئے لمحات کے نام
مطلعِ شب کے جنوں پیشہ سوالات کے نام
شبِ تاریک میں جلتے ہوئے جذبات کے نام
یعنی یہ رات کہ جس کے ہیں ہزاروں پہلو
میری اِس رات کا ہر لمحہ اسی رات کے نام
عزیز نبیلؔ