’’پڑوسیوں اور میرے بیچ میں یہی ایک دیوار حائل ہے۔ اسی دیوار میں وہ آرپارسوراخ ہے۔ جس سے میں ان کی جانکاری لیتی رہتی تھی۔۔ ۔۔ ۔ جی، صرف جانکاری ہی۔ مگر آپ مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں کہ جیسے مجھے کن سوئیاں اور ٹوہ لینے کی پرانی عادت ہے۔ ارے نہیں۔۔ ۔ خیر چلئے ہیں یہ میرے منورنجن کے اکلوتے سہارے۔۔ جستجو کا سامان۔۔ ۔ ٹوہ کا ذریعہ۔۔ ۔ مجھ سی بے بس، لاچار، زمانے کی ٹھکرائی اس بڑھیا کی اکلوتی تفریح۔۔ ۔ اب اس کے سوا اور کروں بھی کیا۔ ویسے بھی اگر میں یہ سب نہیں کرتی تو کیا آپ اس وقت میرے پاس ہوتے ؟ بولئے نا؟ خیر، تومیں گھنٹوں اپنی ایک آنکھ میچ کر دوسری جانب دیکھتی رہتی کہ پڑوسن کیا کر رہی ہے، اس کا شوہر کیا کر رہا ہے۔ کیا پک رہا ہے، کیا کھایا جا رہا ہے، کیا پھینکا جا رہا ہے۔ ان کے بیچ لڑائی جھگڑا کیوں بڑھتا جا رہا ہے۔ ہا تھا پائی تک بات کیوں پہنچ رہی وغیرہ وغیرہ۔ میرا یقین کیجیے۔۔ یہ سب دیکھ کر مجھے ایسا لطف ملتا کہ ایسا تو اپنی جوانی کے دنوں میں سنیما دیکھ کر بھی نہیں ملتا تھا۔۔ ۔ اس سوراخ سے میں اتنا کچھ دیکھ چکی ہوں کہ ہزاروں کہانیاں آپ کو ابھی ابھی سنا دوں۔ مگر میں یہ بھی جانتی ہوں کہ آپ کی دلچسپی کا محور، فقط وہ آخری واقعہ ہی ہے۔۔ ۔ تو جناب جیسا میں نے کہا کہ ان کے بیچ ہا تھا پائی ہوناروز کا ہی معاملہ بن گیا تھا۔ اس رات بھی جب یہ سب کچھ شروع ہوا تو میں نے دیکھا کہ پڑوسی نے دیوار سے چپکی، ڈری سہمی اپنی بیوی پر، لوہے کی سلاخ اس زور سے پھینکی کہ وہ اس کی گردن کے آر پار ہوتے ہوئے دیوار میں بہت گہرائی تک دھنس گئی۔۔ ۔۔ تو جناب یہ تھا وہ پورا واقعہ۔۔ ۔۔ ویسے میرا تو بہت نقصان ہو گیا، دیکھئے اب دوسرے پڑوسی کب آتے ہیں اور کب مجھے اپنی اس اکلوتی تفریح کو کرنے کا موقع ملتا ہے۔۔ ۔۔ ہاں ان سب میں ایک فائدہ البتہ ضرور ہوا کہ اب مجھے سوراخ سے دیکھنے کیلئے اپنی ایک آنکھ بند کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔ ‘‘
عامر صدیقی