آپ کا سلاماردو نظمسلمیٰ سیّدشعر و شاعری

سنو ناں بابا 

سلمیٰ سیّد کی ایک اردو نظم

سنو ناں بابا 

سنو نا بابا

کہا بھی تھا کہ

مجھے اندھیرے ڈرا رہے ہیں

 ابھی نہ جانا

ابھی تو میں نے تمھارے پہلو میں سانس لی ہے

مجھے  زمانے کے سرد و گرم کا پتا نہیں ہے

کہا بھی تھاکہ مجھے  سکھانا

سنو نا بابا

 مجھے ابھی تو  تمام ابجد  پہ دسترس ہے

مگر جو کہنا ہے تم سے مجھ کو

میری زباں لڑ کھڑا رہی ہے

سو مجھ کو سمجھو

وہ پھیکی چائے پہ میٹھی گھوری

وہ ماں سے سگریٹ چھپا کے لانا

کبھی یوں ہی  لان میں ٹہلتے

فریدہ خانم کو گنگنانا

کہا بھی تھا کہ ابھی نہ جانا

میں چاہے جتنی بڑی ہوجاوں

تمھاری انگلی کے لمس سے جو

بھروسہ مجھ میں اترتا رہتا

اسی سہارے میں چل رہی ہوں

اکیلے پن کی اداس راہوں میں

 بن تمھارے سسک رہی ہوں

سنو نا بابا

کیا ایسا کوئی نہیں ہے رستہ

کہ جس کو ہم تم سمیٹ لیں تو

کسی مقرر مقام پر ہم ملیں وہیں سے

کہ جب تھے بچھڑے

نہیں تو مجھ کو بلاؤ بابا

میں تھک گئی ہوں

مجھے گلے سے لگاؤ بابا

سنو نا  بابا

سلمیٰ سیّد

سلمیٰ سیّد

قلمی نام سلمیٰ سید شاعری کا آغاز۔۔ شاعری کا آغاز تو پیدائش کے بعد ہی سے ہوگیا تھا اسوقت کے بزرگوں کی روایت کیمطابق گریہ بھی خاص لے اور ردھم میں تھا۔۔ طالب علمی کے زمانے میں اساتذہ سے معذرت کے ساتھ غالب اور میر کی بڑی غزلیں برباد کرنے کے بعد تائب ہو کر خود لکھنا شروع کیا۔ناقابل اشاعت ہونے کے باعث مشق ستم آج تلک جاری ہے۔اردو مادری زبان ہے مگر بہت سلیس اردو میں لکھنے کی عادی ہوں۔ میری لکھی نظمیں بس کچھ کچے پکے سے خیال ہیں میرے جنھیں آج آپ کے ساتھ بانٹنے کا ایک قریبی دوست نے مشورہ دیا۔۔ تعلیمی قابلیت بی کام سے بڑھ نہ سکی افسوس ہے مگر خیر۔۔مشرقی گھریلو خاتون ایسی ہی ہوں تو گھر والوں کے لیے تسلی کا باعث ہوتی ہیں۔۔ پسندیدہ شعراء کی طویل فہرست ہے مگر شاعری کی ابتدا سے فرحت عباس شاہ کے متاثرین میں سے ہوں۔۔ شائد یہی وجہ ہے میری نظمیں بھی آزاد ہیں۔۔ خوبصورت شہر کراچی سے میرا تعلق اور محبت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button