- Advertisement -

سنو ناں بابا 

سلمیٰ سیّد کی ایک اردو نظم

سنو ناں بابا 

سنو نا بابا

کہا بھی تھا کہ

مجھے اندھیرے ڈرا رہے ہیں

 ابھی نہ جانا

ابھی تو میں نے تمھارے پہلو میں سانس لی ہے

مجھے  زمانے کے سرد و گرم کا پتا نہیں ہے

کہا بھی تھاکہ مجھے  سکھانا

سنو نا بابا

 مجھے ابھی تو  تمام ابجد  پہ دسترس ہے

مگر جو کہنا ہے تم سے مجھ کو

میری زباں لڑ کھڑا رہی ہے

سو مجھ کو سمجھو

وہ پھیکی چائے پہ میٹھی گھوری

وہ ماں سے سگریٹ چھپا کے لانا

کبھی یوں ہی  لان میں ٹہلتے

فریدہ خانم کو گنگنانا

کہا بھی تھا کہ ابھی نہ جانا

میں چاہے جتنی بڑی ہوجاوں

تمھاری انگلی کے لمس سے جو

بھروسہ مجھ میں اترتا رہتا

اسی سہارے میں چل رہی ہوں

اکیلے پن کی اداس راہوں میں

 بن تمھارے سسک رہی ہوں

سنو نا بابا

کیا ایسا کوئی نہیں ہے رستہ

کہ جس کو ہم تم سمیٹ لیں تو

کسی مقرر مقام پر ہم ملیں وہیں سے

کہ جب تھے بچھڑے

نہیں تو مجھ کو بلاؤ بابا

میں تھک گئی ہوں

مجھے گلے سے لگاؤ بابا

سنو نا  بابا

سلمیٰ سیّد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
جہلم ادبی میلہ 2019-2020