سفر میں دھوپ رہی سائبان ہوتے ہوئے
کہ بے نشان گئے ہم نشان ہوتے ہوئے
جو مجھ میں کھیلتا رہتا تھا مر گیا لڑکا
ستم تو یہ ہے مرا بھی جوان ہوتے ہوئے
گزر رہی ہے مری عمر سخت محنت میں
میں اُڑ رہا ہوں پروں میں تکان ہوتے ہوئے
عجیب چپ سی لگی ہے تمہارے بعد ہمیں
سخن بھی کر نہیں سکتے زبان ہوتے ہوئے
اب اس کے بعد مجھے گفتگو میں مت رکھنا
میں تھک چکا ہوں مسلسل بیان ہوتے ہوئے