اڑ کر کبوتر ایک سرِ بام آ گیا
مجھ کو یہی لگا ترا پیغام آ گیا
میں گن رہا تھا آج پرانی محبتیں
ہونٹوں پہ آج پھر سے ترا نام آ گیا
رکھا تھا ہاتھ نبض پہ چھونے کے واسطے
اُس نے یہ کہہ دیا مجھے آرام آ گیا
احساں کا ڈھنگ ڈھونڈتے پھرتے رہے عزیز
جو یار تھا عدیم، مرے کام آ گیا
وہ اک نظر عدیم جو بیمار کر گئی
اُس اک نظر ہی سے مجھے آرام آ گیا
عدیم ہاشمی