اردو غزلیاتشعر و شاعریمجید امجد

اُمّیدِ دیدِ دوست کی

مجید امجد کی ایک اردو غزل

اُمّیدِ دیدِ دوست کی دنیا بسا کے ہم
بیٹھے ہیں مہر و ماہ کی شمعیں جلا کے ہم

وہ راستے خبر نہیں کس سمت کھو گئے
نکلے تھے جن پہ رختِ غمِ دل اُٹھا کے ہم

پلکوں سے جن کو جلتے زمانوں نے چُن لیا
وہ پھول، اس روش پہ، ترے نقشِ پا کے ہم

آئے کبھی تو پھر وہی صبحِ طرب کہ جب
روٹھے ہوئے غموں سے ملیں مسکرا کے ہم

کس کو خبر کہ ڈوبتے لمحوں سے کس طرح
اُبھرے ہیں یادِ یار، تری چوٹ کھا کے ہم

 

مجید امجد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button