اردو غزلیاتشعر و شاعریقمر جلال آبادی
یاد رکھ دیدۂ تر اشک جو نکلا کوئی
ایک اردو غزل از قمر جلال آبادی
یاد رکھ دیدۂ تر اشک جو نکلا کوئی
محفل ِ غیر میں ہو جائے گا رسوا کوئی
ہاتھ اٹھانے لگے دامن پہ قیامت والے
منہ چھپائے ہوئے، جب حشر میں آیا کوئی
کل مریضِ شبِ فرقت کی عجب حالت تھی
کوئی خاموش تھا، مصروفِ دعا تھا کوئی
پتلیاں پھر گئی تھیں چھوٹ گئی تھیں نبضیں
تم نہ آ جاتے، تو ہاتھوں سے چلا تھا کوئی
کر گئے کام قیامت کا شبِ غم نالے
رہ گیا تھام کے ہاتھوں سے کلیجا کوئی
صورتِ آئینہ تصویرِ تحیر بن کر
دیکھتا تھا تری محفل کا تماشا کوئی
اے قمر بعد میرے یہ بھی کسی سے نہ ہوا
چار پھول آ کے جو تربت پہ چڑھاتا کوئی
قمر جلال آبادی