- Advertisement -

وابستگاں کی کوئی نشانی نہیں ملے

ایک غزل از عامر ابدال

وابستگاں کی کوئی نشانی نہیں ملے
دریا کو اس قدر بھی روانی نہیں ملے

آسودگی ملے تو جوانی کے سنگ ہو
عمرِ رواں کی رنج فشانی نہیں ملے

اِس سمت ان کے واسطے کوثر کے ہے دعا
اُس سمت کوششیں ہیں کہ پانی نہیں ملے

تُو دے رہا ہے مجھ کو یہ اوراد تو مگر
لیکن زباں کو عجز بیانی نہیں ملے

فرسودہ حال کاش کتابوں کو ڈھونڈھتے
"گم گشتہ” رابطوں کی کہانی نہیں ملے

انسانیت معانی ہیں انسان لفظ ہے
الفاظ تو ملے ہیں معانی نہیں ملے

عامر ابدال

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک غزل از عامر ابدال