اب یاد نہیں کہ شہر جاں میں
وہ کیسی عجب ہوا چلی تھی
جو مجھ کو مری ہی زندگی سے
اس سمت اڑا کے لے گئی تھی
پاؤں کے تلے تھی دھند گویا
اور سر پہ سنہری چاندنی تھی
آنکھوں میں عجیب سی تھی ٹھنڈک
چہرے پہ گل آب کی نمی تھی
کچھ دور ستار بج رہا تھا
یا وجد میں کوئی بانسری تھی
آہستہ سے میرا نام لے کر
اک شخص نے کوئی بات کی تھی
آنکھیں جو کھلیں تو میں نے دیکھا
میں کوچۂ عشق میں کھڑی تھی
ثمینہ راجہ