تُو بھی مذاق اُڑاتا ہے اچھا ! فقیر کا
کانوں میں گونجتا رہا جُملہ فقیر کا
اِتنا تُو بادشہ ہے تو پھر سامنے بھی آ
چل ! کاٹ کر دِکھا مجھے رستہ فقیر کا
کہنے لگا فقیر کہ تُو بھی فقیر ہے
مجھ پر ہُوا فقیر کو دھوکہ فقیر کا
آرام سے گزر کہ یہ مردم شناس ہے
کُتوں پہ بھونکتا نہيں’ کُتا فقیر کا
آنکھیں تو بھر گئی ہیں مگر دل بھرا نہيں
خالی پڑا ہے آج بھی کاسہ فقیر کا
مجنوں کو پھر سے مل گئی لیلٰیِ گُم شده
کام آ گیا فقیر کے چِلہ فقیر کا
میں نے فقیر ہونے کا دعویٰ نہيں کیا
جُز اس کے اور کچھ نہيں دعویٰ فقیر کا
عمران عامی