عشق اگر عشق نہیں کارِ ضرورت ہو جائے
عین ممکن ہے تجھے مجھ سے محبت ہو جائے
تو نے تو خیر محبت بھی نہیں کی مری جاں
اور وہ لوگ جنہیں خود سے بھی نفرت ہو جائے
مجھ کو بے کار نہیں بیٹھنے دیتا ہے جنوں
رقص اگر ہو نہیں سکتا کہیں ہجرت ہو جائے
آج کل خود کو میسر ہوں ترے شہر میں ہوں
نہ سہی عشق چلو کوئی شرارت ہو جائے
تم جسے ظلم سمجھتے ہو بہت ممکن ہے
عشق کے باب میں یہ باعثِ شہرت ہو جائے
مجھ کو اپنوں کی طرح مل کہ جہاں دیکھتا ہے
تیرا بھی نام بنے میری بھی عزت ہو جائے
مجھ سے ناراض بہت ہوں گے مرے گاؤں کے پیڑ
ملنے جاؤں گا اگر غم سے فراغت ہو جائے
اب تو یہ سوچ کے بس خوف زدہ ہوں میں ندیمؔ
میری تنہائی کسی روز نہ وحشت ہو جائے