- Advertisement -

اُسے بھی ایسے ہی دل سے نکال پھینکا ہے

ایک اردو غزل از احمد آشنا

اُسے بھی ایسے ہی دل سے نکال پھینکا ہے
کہ جیسے کھینچ کے مکھن سے بال پھینکا ہے

اُسے بھی ہاتھ سے چھوڑا ہے اس طرح جیسے
کسی نے کھود کے قبریں کُدال پھینکا ہے

میں رزق کی نہیں سائے کی جستجو میں ہوں
سو پانی میں نہیں صحرا میں جال پھینکا ہے

ملا کے زہر میں عرقِ گلاب رکھا ہے
عجب ہوں اتنا کہ ماضی میں حال پھینکا ہے

مجھے یقین ہے اُس چال باز نے سکہ
مٹا کے دونوں طرف سے اچھال پھینکا ہے

میں دشمنوں کو نشانے سکھایا کرتا تھا
مرے ہنر ہی نے مجھ پر زوال پھینکا ہے

احمد آشنا

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو غزل از احمد آشنا