تمام رات مرے گھر دئیے بھی جلتے ہیں
اندھیرے بھی مری آنکھوں میں یونہی پلتے ہیں
ہرن بھی دشت کے یوں رشک کرتے ہیں اس پر
سنا ہے مور بھی سارے اسی سے جلتے ہیں
چلو کہ شہر میں اس کے ہی روشنی ڈھونڈیں
یہ کہتے ہیں وہاں سورج کئی نکلتے ہیں
ترا ہی شہر تھا تیری ہی عادتیں تھیں تمام
یہاں کے لوگ بھی آخر میں رہ بدلتے ہیں
جو ریزہ ریزہ ہوا ہو غمِ جدائی سے
بتا یوں ٹوٹے ہوئے دل کہاں سنبھلتے ہیں
محمد حذیفہ جلال