- Advertisement -

مرزا اسداللہ خاں غالبؔ ؔ

شخص و شاعر ۔ اجمالی جائزہ

مرزا اسداللہ خاں غالبؔ ؔ:شخص و شاعر۔اجمالی جائزہ

An Overivew of Mirza Asadullah Khan Ghalib:Person & Poet

اُردُو شَاعری نے سیکڑوں شُعراء پیدا کیے ہیں ۔ ہَنُوز یہ سلسلہ جاری ہے ۔ جن شُعراء کو ہر دور میں برابر شُہرَت اور ناَمُوری حَاصِل رہی ہے ان میں مرزا اسداللہ خاں غَالِبؔ کا نام سرفہرست ہے۔مرزا غَالِبؔ نے اُردُو شَاعری کو بالخصوص اور اُردُو نَثر کو بالعموم جو اُسلُوب کی جِدت اور شعری زُبان دی ہے وہ کسی اور شاعر کے حصے میں نہیں آئی۔ اُردُو زُبان واَدَب پر غَالِبؔ کے گہرے اَثرَات ہیں۔ کَلاسیکی غَزل میں مرزا غَالِبؔ کا دِیوان ان کے ہم عصر شُعراء کے لیے نمونہ ہے۔
مرزا غَالِبؔ کے آبادو اجداد سمر قند کے باسی تھے۔ مرزا قوقان بیگ،مرزا کے دادا تھے جنھوں نے سمر قند کو ہمیشہ کے لیے خیر آباد کہا اور ہِندُوسَتان کا رُخ کیا ۔ یہاں چند برس میں تجارت و سپاہ گری کی فطری صلاحیت کے پیش نظر دربار تک رَسائی حَاصِل کرنے میں کامیاب ٹھہرے۔ پرتھوی چندر لکھتے ہیں:
’’غَالِبؔ کے دادا قوقان بیگ اپنے والد ترسم خان سے رُوٹھ کر ۱۷۵۰ء کے لگ بھگ سمرقند سے محمد شاہ کے عہد میں ہِندُوسَتان آئے اور ایک معزز عہدے پر ملازم ہوئے۔انھوں نے تین اُولادیں چھوڑی تھیں۔ایک لڑکی،دو لڑکےعبداللہ بیگ اور نصر اللہ بیگ۔ یہی عبداللہ بیگ غَالِبؔ کے بزرگوار ہیں۔‘‘1؎
غَالِبؔ کے والد مرزا دولہا کے لقب سے معروف تھے۔ ان کا اصل نام مرزا عبداللہ بیگ تھا۔ان کے تین بچے تھے۔ مرزا غَالِبؔ منجھلے بیٹے ہیں جن کی ولادت ۱۲۱۲ مطابق ۱۷۹۷ء میں ہوئی۔مرزا غَالِبؔ پانچ برس کے ہوئے جب ان کے والد کا انتقال ہو جاتا ہے۔ والد کا سایہ سر سے اُٹھ جانے کے بعد ان کی تربیت نصر اللہ بیگ چچا کرتے ہیں۔
غَالِبؔ کے چچا کی وفات کے بعد ان کے سر پر نانا خواجہ غلام حسین نے ہاتھ رکھا ۔ ان کی خصوصی تعلیم کی طرف خاص تَوَجُّہ دی گئی۔اپنے عہد کے ناَمور مدرسین اور دانشوواران سے مرزا کی اِبتدَائی تعلیم کا سِلسلَہ مکمل ہوا۔مرزا غَالِبؔ نے مَشہور شاعر نظیر اکبر آبادی اورمولوی محمد معظم سے بھی چند کتب پڑھی تھیں۔مولانا غلام رَسُول مہر لکھتے ہیں:
’’مرزا غَالِبؔ نے آگرہ کے مَشہور مُعلم خلیفہ محمد معظم سے تعلیم پائی۔فارسی سے طبیعت کو خاص مناسبت تھی اور اس پر تَوَجُّہ میں بھی کوئی دقیقہ سعی اُٹھا نہ رکھا۔‘‘2؎
مرزا غَالِبؔ کی عمر ابھی تیرہ برس کو پہنچی تھی کہ ہِندُوسَتانی رواج کے مطابق نواب الہی بخش معروف کی صاحبزادی اَمراؤ بیگم سے ان کی شادی کر دی گئی۔ مرزا غَالِبؔ اس شادی کو لے کر خاصے حیوان ظریف واقع ہوئے ہیں۔ ان کے خطوط اور اَشعَاِرمیں بیگم اَمراؤ کے بارے میں دلچسپ واقِعات اور لطائف ملتے ہیں۔ پِنہَاں تھا دامِ سخت قریب آشیاں کے/اُڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے۔ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’تیرہ برس میں ایک بیڑی میرے پاؤں میں ڈال دی اور دِلّی شہر کو زندان مقرر کیا اور فِکر نَظم و نَثر کو مَشَقَّت ٹھہرایا۔‘‘3؎
مرزا غَالِبؔ کے لیے شادی سود مند ثَابِت ہوئی۔ ان کے سَسُرال خاصے مرفہ الحال تھے اور دل و مزاج کے فیاض بھی۔ نانا کی محبت اور والدہ کے لاڈ پیار نے انھیں بگاڑ دی اور ‘مرزا نوشہ’ کہلائے جانے لگے غَالِبؔ سسرال والوں کی فارغ البالی اور مَعاشی اسودگی کے پیش نظر آگرہ سے دِلّی میں مُستقِل مقیم ہوگئے جہاں ان کی زندگی کا دو تہَائی حِصہ گزرا ۔ زندگی کے جُملہ روز و شب سے نبرد آزما رہے۔
1857ء کے غدر نے جہاں برصغیر کے طرزِ حیات کے جز و کل کو تباہ و برباد کر دیا وہاں غَالِبؔ پر غدر کے اَثرَات کا براہ راست اثر پڑا۔غَالِبؔ نے اس حادثے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس پر خوب اپنے غم وغصے اور دِلّی رنج و کلفت کا اِظہار بھی کیا۔ غدر کے بعد مُسلمَانَوں کی حالت اِنتہَائی قابل رحم ہوگئی تھی۔نفسانفسی کے اس عالم میں جہاں کھانے کو سوکھا نوالہ مُیسَّر نہ تھا وہاں غَالِبؔ کے ہاں بھائی کی اُولاد ،زوَجہ سمیت بیسیوں آدمیوں کا بوجھ ان کے کمزور کندھوں پر آپڑا جسے خواہی نہ خواہی یہ کسی طرح نبھاہتے رہے۔
؎ ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے اک شمع ہے دِلّیل سحر سو خاموش ہے
مرزا غَالِبؔ کی بد قسمتی رہی کہ ان کے ہاں سات لگاتار بچے پیدا تو ضَرُور ہوئےmirza ghalib لیکن سات ماہ سے زِیادہ کوئی زندہ نہ رہا۔ غَالِبؔ کو اپنی اُولاد کے زندہ نہ رہنے کا اِنتہَائی قلق تھا جس کا تذِکرہ انھوں نے نَظم و نَثر میں حُزنیہ انداز سے کیا جسے پڑھ کر دل دُکھتا ہے اور غَالِبؔ سے ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے۔
اُولاد زندہ نہ رہنے کا غم بھانجے عَارِف کی ذمہ داری لینے کی صورت میں کم کرنا چاہا۔ عَارِف کی جوانی کی مَوت اور بیوی بچوں کے مزید بوجھ نے غَالِبؔ کو بوڑھا کر ڈالا۔غَالِبؔ کی غَزلیات کا مطالعہ کرنے سے اس دُکھ کو مَحسُوس کیا جا سکتا ہے۔
؎ لازِم تھا کہ دیکھو مرا رستا کوئی دن اور تنہا گئے کیوں اب رہو تنہاکوئی دن اور
؂ ہاں ائے فلک پیر جواں تھا ابھی عَارِف کیا تیرابگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور
غدر کے واقعے نے غَالِبؔ کی زندگی کا دھارا اِنتہَائی نا موافق حالات کی طرف موڑ دیا۔ بعد از غدر غَالِبؔ کی آمدنی اور دِیگر ذرائع سے حصولِ رزق کے تمام تر مُعامِلات یکسر موقوف ہو جانے سے غَالِبؔ کی زندگی اجِیرن ہو گئی۔ اَواخِر عمر کے چند سال غَالِبؔ کی زندگی کے اِنتہَائی کسمپرسی میں گزرے ۔ان حالات کا ذِکر اَشعَار اورخطوطِ غَالِبؔ میں دیکھا جا سکتا ہے۔
؎ دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں روئے گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
چچا نصرا للہ کی طرف سے ملنے والی پنشن ایک آخری سہارا تھی جس کی بندش ان کی زندگی کا ایک بڑا حادثہ ثَابِت ہوئی ۔ غَالِبؔ کی شخصیت و شَاعری پر پنشن کی بندش اور بحالی کے پیش آمدہ واقِعات کا گہرا اثر پڑا۔مالک رام لکھتے ہیں:
’’مرزا کو سرکار سے ساڑھے باسٹھ روپے پنشن کے ملتے تھے۔اس کے علاوہ دِیگرجگہوں سے فتوح بھی آجاتی تھی جس سے گھر کا اُجلا خرچ چلا سکتے تھے لیکن بدقسمتی سے غدر کے نتیجے میں ان کی پنشن بند ہوگئی اور دائیں بائیں کی دوسری فتوح بھی بند ہو گئیں۔‘‘4؎
پنشن کی بحالی کے سلسلے میں غَالِبؔ کی شخصیت میں خاصا تضاد سامنے آتا ہے ۔ انگریز واقف کاروں اور نوابین کے رقعے لے کر انگریز سرکار میں پیش ہوتے ہیں اور ان کی مدح سرائی کرتے ہیں۔ دراصل مشکلاتِ غَالِبؔ کا جائزہ لیا جائے تو ان کی خانگی زندگی،اُولاد کا زندہ نہ رہنا،پنشن کا بند ہونا،بیسیوں لوگوں کا گھر میں مفت نوالے توڑنا؛ایسے واقِعات ہیں جنھوں نے ایک طرف غَالِبؔ کے احوال کو دِگرگُوں کیا اور دوسری جانب ان کی طبیعت میں سوزوگداز اور داخلیت کے عنصر کو مزید سَوا کر دیا ۔ان عنَاصِر کی فِکر رَو نے غَالِبؔ کو غَالِبؔ بننے میں اہم کردار ادا کیا۔غَالِبؔ لکھتے ہیں:
’’ہِندُوسَتان کے سُخَنوروں میں حضرت امیر خُسرَو ؒ کے سوا کوئی اُستَاد مسلم الثبوت نہیں ہوا۔۔۔منت اور مکین اور واقف اور قتیل یہ تو اس قابل بھی نہیں کہ ان کا نام لیجئے۔کلَام میں ان کے مزا کہاں!اِیرَانیوں کی سی ادا کہاں؟‘‘5؎
شب و روز کی ناہمواری، دِلّی ، کلکتہ و لَکھنؤ کی آورارگی اور غدر کے سانحہ کی دُشواری نے غَالِبؔ کے قویٰ و حواس کو مُضمحل و ناتواں کر دیا۔خانگی مسائل،زَمانے کے حالات اور توقع کے برعکس نزاعت نے غَالِبؔ کو وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا۔ اَواخِر عمر میں گھر ہی میں مقید ہو کر رہ گئے۔چلنا پھرنا محال ہو گیا۔صحت اور طاقت نے جواب دے دیا ۔ صاحبِ فرا ش ہو کر رہے گئے۔رام پور سے وظیفے کی کوشش کسی حد تک کامیابی ہوئی البتہ عزیزوں، رفیق کاروں،شاگردوں اور دوستوں کی مالی مُعاوِنت سے کسی صورت گزارا ہوتا رہا۔
؂ مضمحل ہوگئے قویٰ غَالِبؔؔ وہ عنَاصِر میں اعتدال کہاں
غَالِبؔ نے عمر کا بیشتر حِصہ نوابی ٹھاٹھ سے گزارا تھا اَواخِر عمر میں کسمپرسی اور ناداری کے ہاتھوں شکستہ ہو کر گویا زندگی سے نااُمید سے ہو گئے تھے۔انَا پرست اور خودار اتنے تھے کہ اپنی مرضی اور خواہش کے بغیر ایک پیسہ کسی سے وصول نہ کیا۔ خودداری و اور حفظ وضَع کی اس عادت نے انھیں خاصا تنگ و خوار رکھا ۔
؂ بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں کہ ہم اُلٹے پھر آئے درکَعبَہ اگر وَا نہ ہوا
شعر و سُخَن سے دلچسپی اور تخلیق و تصنیف کا سِلسلَہ اِنتہَائی نامساعد حالات اور تنگی و سختی میں بھی جاری رکھا۔ اخیر عمر میں شُعراءلبتہ کم کہتے تھے لیکن خطوط باقاعدہ لکھتے تھے ۔ شاگردوں کے مسودات پر اِصلاح بھی گاہے گاہے دیا کرتے تھے۔قریبِ مرگ بینائی اور حواس سماعت نے جواب دے دیا ۔ نَزع کی شدت نے ایسا زور پکڑا کہ نیم بے ہوشی کی حالت میں گھنٹوں پڑے رہتے۔ان کے انتقال سے ایک روز پہلے کی حالت کا تذِکرہ مولانا حالی نے یادگار غَالِبؔ میں تفصیل سے لکھا ہے۔ ایک شعر تسلسل سے ان کی زُبان پر مثلِ ورد رہا تھا:
؂ دم ِواپسیں بر سرِ راہ ہے عزیزو! اب اللہ ہی اللہ ہے
ڈَاکٹر فخر الحق نوری وفاتِ غَالِبؔ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’انھوں (غَالِبؔ) نے پندرہ فروری ۱۸۶۹ء کو عالم آب و گل میں ۷۲ سال تک روبکاری کے عمل سے گزارنے کے بعد اس کو جان دی،جس کی دی ہوئی تھی۔ جِسمَانِی سطح پر تو وہ وفات پا گئے مگر ان کی اَدَبی زندگی،ابدی زندگی بن گئی۔‘‘6؎
غَالِبؔ نے بہتر برس حیات پائی۔انھیں نظام الدین اولیاکے مزار کے نواح میں چُونسٹھ کھمبے کے پاس نواب الہی بخش خان معروف کے احاطے میں دفن کیا گیا۔حکومت ہند نے مزار غَالِبؔ پر ایک خوبصورت مقبرہ بنوادیا ہے جو مرجع خلائق خاص و عام ہے۔
غَالِبؔ کی وفات پر برصغیر کے چہار اطراف میں غم و دُکھ کا اِظہار کیا گیا ۔ حکومت انگلشیہ نے ان کی شخصیت و شَاعری کی اَہمِیَت و وَقعَت کااعتراف کیا ۔شاعروں اَدِیبوں نے قصیدوں ،قِصُوں کے ذریعے کلَام و شخصیت کا خوب تذِکرہ کیا جو اَدَبیاتِ اُردُو میں غَالِبؔیات کا جُزو خاص ہے۔مولانا حالی نے بہ حیثیت شاگرد اپنے جَذبَات کا اس طرح اِظہار کیا۔
؂ لائیں گے پھر کہاں سے غَالِبؔؔ کو سوئے مدفن ابھی نہ لے جائیں
؂ غَالِبؔؔ نکتہ داں سے کیا نسبت خاک کو آسمان سے کیا نسبت
غاب یہ کہنے میں باق نہیں کہ مرزا غَالِبؔ ایک بڑے اور عظیم شاعر ہیں۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ویسے ویسے ان کی شخصی بڑائی اور شاعرانہ عَظمَت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ غَالِبؔ کی شخصیت بھی ان کی شَاعری کی طرح رنگ رنگ زاویے اور کثیر الجہت وصائف لیے ہوئے ہے۔مَرُورِ وقت کے ساتھ شُعراء نقاد اور غَالِبؔ شناس مرزا کی شخصیت و شَاعری کے اسرر و رموز اور شعری محاسن کی جُملہ صفات منکَشف کرنے کاسِلسلَہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
غَالِبؔ کی شخصیت و فِکر کے اعتبار سے سیکڑوں کتب و مقالات لکھے جا چکے ہیں۔ اس کی بنیادی وَجہ یہ ہے کہ غَالِبؔ نے طویل شَعُوری عمرپائی۔ برصغیر کی تہذیبی و مَعاشرتی اور سیاسی و جغرافیائی حالات کو دیکھا؛تاریخ و اقوام اور رُجحانات و میلانات میں غیر معمولی بدلاؤ اور شکست و ریخت کے انقلابی ہیجان آمیز واقِعات کو سَر کی آنکھ سے دیکھا اور قلب سے مَحسُوس کیا۔ غَالِبؔ نے جُملہ واقِعات و سانحات تجربے شَاعری بنادیا اور خطوط میں وہ سب لکھا جس سے ہر مکتبہ فِکر نے رَوشنی لی اور خوب اِستِفادہ کیا۔
غَالِبؔ کی شخصیت اپنے اندر بے شمار وصائف رکھتی ہے جن کا ذِکر ان کے سَوانح نویس اور شارحین کے ہاں تفصیل سے ملتا ہے۔ مرزا کی وضَع داری اور حفظ مراتب کا احساس بہت نُمایاں ہے۔ انھوں نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا ۔ جو شخص جس مرتبے، حیثیت سے ان کے ہاں حاضر ہوا۔اس کی ویسی ہی خدمت اورعِزت کی گئی ۔شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں:
’’جو چیز مرزا کی زندگی میں خاص طور پر نُمایاں ہے۔ ان کی وضَع دَاری،حفظِ مراتب اور رَکھ رکھاؤ کی کوشش ہے۔ مرزا ایک شاعر اور آزادہ رو اِنسان تھے لیکن وہ طبقہ اَمرا کے ترجمان بھی تھے اور عام جمہوری مَعاشرت کی بے آئینی اور یکسانیت شاید ہی انہیں پسند خاطر ہوتی۔‘‘7؎
غَالِبؔ کی شخصیت کے حوالے سے ان کے سَوانح نگاروں کے ہاں مختلف آراء ملتی ہیں۔ غَالِبؔ بہت بڑا خوددار تھا۔ رئیسانہ آن بان اور آباؤ اجداد پر فخر و ناز کرنے والا ۔یہ تاثر کسی حد تک درست ہے کہ غَالِبؔ کو اپنے نسب و خاندان پر ناز تھا جس کا اِظہار انھوں نے شَاعری اور خطوط میں برابر کیا ہے۔
؂ سو پُشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری کچھ شَاعری ذریعہ عِزت نہیں مجھے
سَیّد عابِد علی عابِد لکھتے ہیں:
’’جوں جوں (غَالِبؔ کی) عقیدت بڑھتی چلی گئی اور حالیؔ نے اس کی مُروَت،فراخ حوصلگی،شعر فہمی۔۔۔راست گفتاری کی عقیدت مندانہ تصویر کشی کی،توں توں ہمَارے سامنے ایک جعلی غَالِبؔ آنے لگا جسے خوشامد سے نفرت تھی اور جسے اپنے متاعِ سُخَن پر اِتنا غرور تھا کہ وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتا تھا۔‘‘8؎
اس میں کوئی شک نہیں کہ غَالِبؔ کا کلَام فِکر و خیال کی بَلنَدی کو چھو رہاہے ۔ یہ بھی درست ہے کہ غَالِبؔ کو ان کی خواہش کے تئیں وہ عِزت اور شُہرَت نہ مل سکی جن کی انھیں توقع تھی۔ اس کے باَوجود غَالِبؔ کے عقیدت مندوں میں ہر مکتبہ فِکر کے لوگ شامل رہے۔
؂ ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اِتراتا وگرنہ شہر میں غَالِبؔؔ کی آبرو کیا ہے
غَالِبؔ نے عُسرت و تنگی کا تذِکرہ بڑے مزے لے کر بیان کیا ہے۔اگرچہ ان کے ہم عصر شُعراءبھی انھیں حالات کا شکار رہے مگر ان کے سَوانح نویسوں اور تذِکرہ نگاروں نے ان کی خودداری،حفطِ مراتب اور اعلیٰ ظرفی کے واقِعات کو نسبتاً کم بیان کیا ہے۔ اس سے ثَابِت ہوتا ہے کہ غَالِبؔ میں بڑے سے بڑا صدمہ سہنے اور سنگین حالات کے باجود زندگی سے نباہ کا حوصلہ تھا۔ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’قَلندَری و ازادگی اور ایثار وکرم کے جو داعی میرے مالک نے مجھے بھر بھر کے دیے بقدر یک ہزار ظہور میں نہ آئے۔ نہ وہ دست گاہ کہ عالمِ میزُبان بن جاؤں۔اگر تمام عالم نہ ہو سکے نہ سہی۔جس شہر میں رہوں،اس شہر میں تو بھوکا ننگا نظر نہ آئے۔‘‘9؎
غَالِبؔ کی روداری اور وسیع المشربی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ان کی شاعرانہ فِکر اور عملی زندگی کا مظاہرہ دیکھا اور مَحسُوس کیا جا سکتا ہے۔ ان کے ہم منصب داروں،عزیزوں، رفیق کاروں کے علاوہ ہر ذات،رنگ،نسل اور برادری کے لوگوں سے روابط تھے۔مَذہبی تعصب ان میں نام کو نہ تھا۔ان کے رفیق اور شاگرد بھی غَالِبؔ کی رواداری کے قائل تھے ۔
؂ وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
غَالِبؔ کی شخصیت اپنے اندر کثیر الجہتی پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ غَالِبؔ ایک عہد میں پیدا ہوئے جہاں تہذیبوں کی کشمش اور عسکری طاقتوں کی یلغار برسر پیکار تھی ۔ آنے والا کل؛ مَوت و حیات ،آغاز و انجام کا مظہر تھا۔ شکست و ریخت کے اس ماحول میں غَالِبؔ نے شَعُور کی فِکری آنکھ سےدیکھا اور نَظم و نَثر میں رقم کیا۔
؂ تمہارے در سے اُٹھائے گئے ملا ل نہیں وہاں تو چھوڑ کے آئے ہیں ہم غبار اپنا
غَالِبؔ کی شخصیت میں اعترافِ ذات کا عنصر بہت نُمایاں تھا۔ کم دِلّی،منافقت اور ریا کاری ایسے اخلاقِ رذائل کو پاس نہ پھٹکنے دیا۔ان کے اَشعَار اور خطوط میں اعترافِ گناہ اور عصیاں گری کا ذِکر جس انداز میں ملتا ہے ؛ لائق تَحسِین ہے۔
غَالِبؔ اَوائل جوانی میں ‘مرزا نوشہ’ کے لقب سے معروف ہوئے ۔ شراب نوشی،فِسق و فجور،آوارگی و آزارہ روی میں عمر کا بیشتر حِصہ گزارا۔ نماز،روزہ وغیرہ سے کوسوں دور رہے۔یہ اور اس طرح کی دِیگر قباحتوں کا اعتراف جس طرح غَالِبؔ نے کیا ۔ اپنے انجام اور نعش کے بارے میں جن خیالات کا اِظہار کیا ہے۔اس رویے کی توقع کسی اور اِنسان سے کرنا مشکل اَمر ہے۔
؂ گوہاتھ کو جُنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے رہنے دو ابھی ساغر و میِنا مرے آگے
ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’ساری عمر فسق و فجور میں گزری نہ کبھی نماز پڑھی نہ روزہ رکھا نہ کوئی نیک کام کیا۔ زندگی کے چند انفاس باقی رہ گئے ہیں۔اب اگر چند روز بیٹھ کر یا اِیما و اشارے سے نماز پڑھی تو اس سے ساری عمر کے گناہوں کی تلافی کیوں کر ہو سکے گی؟میں تو اس قابل ہوں کہ جب مروں؛میرے عزیز اوردوست میر امنہ کالا کریں اور میرے پاؤں میں رسی باندھ کر شہر کے تمام گلی کوچوں میں تشہیر کریں اور باہر لے کر جاکر کُتوں اور چیلوں کے کھانے کو چھوڑ آئیں۔اگرچہ میرے گناہ ہی ایسے ہیں کہ میرے ساتھ اس سے بھی بدتر سلوک کیاجائے لیکن اس میں شک نہیں کہ میں موحّد ہوں۔‘‘10؎
غَالِبؔ کی اَنانیت اور نرگیست جہاں حد درجہ بڑھی ہوئی مَحسُوس ہوتی ہے وہاں ان کی خودداری اورعَظمَت اِنسان کا تاثر اس سے زِیادہ نُمایاں اور مُعتبَر دِکھائی دیتا ہے۔ غَالِبؔ ایک وضَع دار اور خوددار شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی غیرت وحمیت کو کہکشاں کی سی وُسعَت مُیسَّر ہے۔ زندگی کے جُملہ مباحث و اَطوار میں ان کے یکساں طرزِ عمل سے ان کی شخصیت کے ان وصائف کا اَندازَہ لگایا جا سکتا ہے۔
؂ بازیچہ اطفال ہے دُنیا مرے آگے ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
غَالِبؔ کی شخصیت میں ظریفانہ عُنصر کا دَخِیل ہے۔ غَالِبؔ کی یہ خوبی ان کی دِیگر صفات سے بڑھی ہوئی ہے۔ غَالِبؔ نے جس دور اور عہد میں زندگی گزاری۔یہ ہر طرح سے آشوب و آلام کا دور تھا ۔جہاں سکون و طمَانِیت نام کو نہ تھا۔غَالِبؔ نے آلامِ دُنیوی ،عسکری جبر اور سختی اغیار کو برسوں قلب و رُوح پر سہا ۔اسے ظریفانہ لکھا اور کہیں اِستہزایہ اُڑایا۔
؂ خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے
رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں:
’’تاریک سے تاریک موقعوں پر بھی ان (غَالِبؔ) کی ظرافت اور لطافت کی بجلی چمک جاتی ہے؛جس سے مصائب کی تیرگی کا فور ہو جاتی ہے۔ان کی ظرافت و مذاق سے کوئی نہیں چھوٹا حتیٰ کہ بیوی کی نسبت ایک خط میں لکھتے ہیں کہ:ایک اوپر پچاس برس سے جو پھانسی کا پھندا گلے میں پڑا ہے، نہ پھندا ٹوٹتا ہے نہ دم نکلتا ہے۔‘‘11؎
ایک حاذق اور عاقل اِنسان ہونے کی حیثیت سے غَالِبؔ کی شخصیت کا جائزہ بہت کم لیا گیا ہے۔ غَالِبؔ ایک ذہین اور عاقل یعنی عقلیت فہم اِنسان تھے۔ ان کے بچپن اور اَوائل جوانی کے کلَام اور حرکات کا مشاہدہ کرنے اور اس کا نفسیاتی جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوا۔
غَالِبؔ کو غَالِبؔ بنانے میں ان کی فطری ذہانت و جودت اور ودیعتی عقلیت کا عُنصر بہت نُمایاں ہے۔اُردُو شَاعری میں جس طرح کا فِکر و فلسفہ غَالِبؔ کے ہاں نظر آتا ہے بہت بعد کو اقبالؔ ،فیضؔ،ناصر ؔاور جون ؔکے ہاں اس کی بازگشت سُنائی دیتی ہے۔
؂ تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا مرنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا
غَالِبؔ باریک سے باریک نکتے کو شعر کی زُبان میں بیان کرتے ہیں تو اسے لافانی بنا دیتے ہیں۔یوں مَحسُوس ہوتا ہے کہ ان کی شخصیت؛ شَاعری،فِکر اور فلسفے کی مثلث سے تخلیق کی گئی ہے۔
غَالِبؔ کی شخصیت اور زندگی کا عرصہ حیات ایک ڈرامائی اِرتقاء کی حیثیت رکھتا ہے۔ دُنیائے شعرو اَدَب میں غَالِبؔ ایک شاعر، فلسفی اور نکتہ سنج بذلہ گو اِنسان تھے ۔غَالِبؔ کی شَاعری کا خمیر تَخیّلی فِکر کی پرتو ہے۔
؂ ہے پَرے سرحد افلاک سے اپنا مَسجود قبلے کو اہل نظر قبلہ نما کہتے ہیں
غَالِبؔ نے ستر برس عمر پائی۔ ان کا زَمانہ حیات مسلمان ہند کے سیاسی زوال کا زَمانہ تھا۔ تَنزُل کے اس دور میں مغلوں کی انحطاط،انگریزوں کی آمد ،اِیرَانی حملہ آوروں کی یلغاروں نے ہر چیز کو نیست و نابود کرنے میں کوئی کَسر نہ اُٹھا رکھی تھی ۔
ہندستانی تہذیب و تمدن کا نمونہ غَالِبؔ کی شخصیت و شَاعری کی صورت رہا تاآنکہ ۱۸۷۹ء کو یہ چراغ ہمیشہ کے لیے گل ہوا لیکن نَثر و نَظم میں بقا کی دائمی حیات کو اپنے نصیبے میں رقم کر گیا؛ جس سے دُنیا ہَنُوز فیض لے رہی ہے اور لیتی رہے گی۔
؂ نہ تھا کچھ تو خدا تھاکچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
مُدَّت ہوئی مر گیا غَالِبؔ پر یاد آتا ہے وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
مرزاغالبؔ بلاشبہ ایک قد آور اور دیو پیکر شاعر ہے جس کی شاعری اپنے اندر بے پناہ فکری و فنی اور لسانی محاسن کا گنج ہائے گراں مایہ لیے ہوئے ہے۔ غالبؔ کی شاعری کا مطالعہ اپنے اندر ارتعاش سی کیفیت رکھتا ہے کہ جو ایک بار انھیں پڑ ھ لیتا ہے؛ تا حیات ان کے اثر سے باہر نہیں نکلتا۔غالبؔ کو اظہار و ابلاغ میں جو قدرت اور دسترس حاصل ہے وہ جہاں ان کے اُسلوب کی سب سے نمایاں خوبی ہے وہاں کلام نظم و نثر کی خوبصورتی اور دل آویزی کا بھی مظہر ہے۔
غالبؔ کی شاعری کے فکر و فن کا جائزہ لیا جائے تو بادی النظر میں جس چیز کی طرف سب سے پہلے نظر جاتی ہے وہ ان کی جدت طرازی ہے جس سے انھوں نے بھر پور کام لیا اور نظم و نثر میں تخلیقی لائق نظیر شاہکار تخلیق کیے۔
مرزا غالبؔ کی شاعری کی بنیادان کی جدت طرازی پر قائم ہے جس میں جدت تخیل،جدت طرز ادا،جدت تشبہیات و استعارات اور محاکات کی جدتیں شامل ہیں۔ معمولی اور عام فہم واقعات و تصورات کو غالبؔ نے جس طرز خاص سے جدت عطا کی ہے وہ انھیں کا خاصہ ہے۔
معمولی سے معمولی واقعات ایک ایسے اُسلوب میں بیان کر جاتے ہیں کہ گویا اس سے پہلے کبھی سنے ہی نہ تھے۔ خیالات کے ادا کرنے کا سلیقہ بھی نیا اور جدید ہوتا ہے کہ معمولی اور پامال و مسترد مضمون میں محاکاتی اور تمثیلی لَے کی آمیزیش سے ایسا رنگ بھرتے ہیں کہ مضمون آنکھوں کے سامنے محو رقص دکھا ئی دینے لگتا ہے۔مولانا حالیؔ لکھتے ہیں:
”غالبؔ کی جدت پسندی کا اظہار،تراکیب تراشی سے لے کر قصائد تک ہر موقع پر ہوتا ہے۔۔۔غالبؔ کی شخصیت یک رنگ نہ تھی؛اس لیے اس کا تخلیقی شعور بھی ہمہ رنگ ہے؛حتی کہ قصائد جیسی پُر تصنع اور آورد والی صنف بھی اس کے ہاتھوں روایتی شان و شوکت اور گھن گرج سے سنورتی ہے“۔12۔
غالبؔ کو زبان وبیان پر یکساں قدرت حاصل تھی۔ان کے ہاں جو بھی مضمون آیا ہے وہ متقدمین کی طرح کا نہیں ہے بلکہ اس میں غالبؔ کے فکر اور فلسفہ کی بازگشت معلوم ہوتی ہے۔غالبؔ اپنے کلام میں ایک خاص طرح کی جدت اور نیا پن لے آتا ہے۔مضمون خواہ کتنا ہی فرسودہ اور پامال کیوں نہ ہو؛غالبؔ کے ہاں آکر اس کا رنگ ڈھنگ اور وضع قطع میں اس قدر بدلاؤ آجاتا ہے کہ اس کی آب بان دیکھنے والی اور متاثر کُن ہو جاتی ہے۔رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں:
”غالبؔ کے قصر شاعری کی بنیاد جدت طرازی پر ہے۔مرزا صاحب کے یہاں بخلاف ان کے تُک بندی اور قافیہ پیمائی نہیں بلکہ خیال آفرینی ہے۔“ 13۔
غالبؔ کی یہ خوش قسمتی رہی ہے کہ انھوں نے شاعری میں فارسی زبان کے اثرات کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اس کا ستعمال بھی بڑے جارحانہ انداز میں کیا جس پر ان کی بڑی لے دے ہوئی مگر انھوں نے اپنی روش سے اغماض ایک زمانے تک نہیں برتا اور فارسی زبان و بیان کے تمام تر اسالیب اور بیان و بدیع کے تلازمات کو شاعری میں خوب استعمال کیا جو ان کی فکر سے بعض اوقات متصادم اور بہت زیادہ موزوں نہ رہے۔ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں:
”لسانی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو غالبؔ ان لوگوں میں بھی ممتاز ہیں جنھوں نے شعوری و لاشعوری طور پر حسن ضرورت ایک نئی زبان بنائی جو روایتی شاعری کو پسند کرنے والوں کی سمجھ سے بالا تھی۔غالبؔ نے اس کی بنیاد فارسی پر رکھی اور یہی وہ اظہار بیان ہے جسے اقبال نے اختیار اور جس سے اُردو زبان کے دوسرے جدید شعرا نے بھی استفادہ کیا۔غالبؔ جیسے جیسے تخلیقی عمل سے گزرے،اُردو زبان کے مزاج اور اس کی خصوصیات کو بھی ہاتھ سے جانے نہ دیا بلکہ اردو زبان کے اظہار میں مردانہ پن اور پختگی پیدا کی۔انھوں نے زبان کے بندے ٹکے اصولوں سے انحراف کر کے اُردو زبان کو ایک نئے اعلیٰ معیار پر لا کھڑا کیا اور آج ان کی زبان و بیان کی غلطیاں خود اصول بن کر رائج و مستند ہو گئی ہیں۔“ 14؎
مرزاغالبؔ کے کلام میں پہلوداری اور تہ داری کا جو التزام کیا گیا ہے وہ بہت نرالا اور انوکھا ہے۔ غالبؔ کی شاعری میں معنی کی مختلف سطحیں ہیں۔ ایک شعر کو مختلف پہلوؤں اور زاویوں سے دیکھنے سے محسوس ہوتا ہے جیسے معنی کا ایک جہان اس کے باطن میں سمو دیا ہے۔ بادی النظر میں ایک عام فہم شعر کے باطن میں اُتر کر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ غالبؔ نے اپنے خاص اُسلوب اور لسانیاتی تموج کے وسیلے سے اسے غیر معمولی بنا دیا ہے۔ پروفیسر اُسلوب احمد انصاری لکھتے ہیں:
”غالبؔ کے ہاں اایسے اشعار بہت سے ہیں جن کی تفہیم شیکسپئر کی عظیم ڈرامائی شاعری کی طرح کر سکتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کلام غالبؔ میں اس پہلوداری اورمعانی کی تہ داری نے ایک رنگارنگی کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ غالبؔ کے کسی ایک شعر کو موڈ میں دیکھیں تو ایک انداز ہوگا مگر دوسرے انداز میں دیکھیں تو دُنیا ہی بدلی ہوئی محسوس ہو گی۔“ 15؎
مرزا غالبؔ اپنی عصری شعری روایت سے نہ پوری طرح باغی ہیں اور نہ مکمل طور پر اس کے مقلد ہیں بلکہ انھوں نے ہمیشہ اپنا ایک جداگانہ ا ُسلوب وضع کیا ہے جس کے یہ موجد اور خاتم رہے ہیں۔پروفیسر اُسلوب احمد انصاری لکھتے ہیں:
”غالبؔ کو بنیادی طور پرہئیت یا اُسلوب پرست کی بجائے مواد پرست کہا جا سکتا ہے۔ وہ الفاظ و اُسلوب کو بھی شعر کی خوبی و بقا کے لیے ضروری سمجھتے ہیں لیکن ان کا ذہن شعر کی معنویت اور خیال اور نُدرت کی طرف بار بار بھاگتا ہے۔انھیں شعر کی معنویت عزیز ہے۔“ 16؎
مرزا غالبؔ کی شاعری کی ایک نمایاں خصوصیت ان کا منطقی استدالی انداز بیان ہے۔غالبؔ کے یہاں عشقیہ جذبات معمول سے بیان ہو تے ہیں گرچہ ان میں کیسی ہی ساخت شعر کی دُشواری حائل ہو؛اس کے بر عکس ان کی تشکیل اور اظہار کی روش میں استدلالی انداز بیان کا عنصر زیادہ گہرا اور دیر پا تاثر رکھنے والا محسوس ہوتا ہے۔ محبت ان کے لیے کوئی ایسا جذبہ نہیں ہے جو فطری طور پر انتہائی پر کشش ہو بلکہ محاکاتی رنگ میں اس کو غالبؔ کے ہاں پُرکشش ترین بنتا دیکھا جا سکتا ہے۔بطور نمونہ یہ اشعار دیکھیں:
؂ احباب چارہ سازی وحشت نہ کر سکے زنداں میں بھی خیال بیاباں نورد تھا
؂ رگِ سنگ سے ٹکپتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا
غالبؔ کا شاعرا نہ تجربہ اور عمل،ان کے ہم عصر شعرا سے انتہائی مختلف ہے۔ غالبؔ محاکات سے تمثیلی نقش بناتے ہیں اور جو لفظی تصویریں تراشتے ہیں ان میں معانی کا ایک جہان آباد ہوتا ہے جبکہ بہت کم شعرا کے ہاں لفظی تصویر کشی میں معنویت کامتاثر کُن ہونا شاز ہی دیکھا گیا ہے۔
غالبؔ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اور جس معاشرت میں تربیت ہوئی وہ اس بات کا تقاضا کرتا تھا کہ زبان و بیان اور خیال و مواد کے درمیان ہم آہنگی کی فضا کس طرح پیدا کی جا سکتی ہے کہ موضوع اور الفاظ کی مناست اور ادائیگی اظہار کا آپس میں چولی دامن ایسا ساتھ معنویت کے حُسن کو دمکا دے۔
؂ بسکہ دُشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
؂ خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار کیا پوجتا ہوں اس بت ِ داد گر کو میں
مرزاغالبؔ کے لب و لہجے سے بات کی جائے تو ان کے ہاں استفہامیہ لب و لہجے کا جو تنوع ملتا ہے وہ یوں سمجھئے کہ غالبؔ کی شاعری اور ان کی شخصیت کا اختصاصی وصف ہے۔ غالبؔ پہلے شاعر ہیں جن کے ہاں یہ حوصلہ اور ہمت پائی گئی ہے کہ کلمات استفہام کے ذریعے اپنے مافی الضمیر کو بیان کر سکیں اور اپنے جذبات و احساسات کے لیے کلماتِ استفہام کو بطور ہتھیار استعمال میں لا سکیں۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں:
”غالبؔ کے اُسلوب ِ شاعرانہ میں جو چیز بہت نمایاں ہے؛وہ ان کا سوالیہ یا استفہامیہ لب و لہجہ ہے۔ اس لب و لہجہ سے ان کی جدت طرازی، مشکل پسندی اور فلسفیانہ طرف فکر، تینوں چیزوں کا سراغ ملتا ہے۔کلمات استفہام کے استعمال سے جیسا فائدہ شاعری میں انھوں نے اُٹھایا ہے کسی دوسرے شاعر نے نہیں اُٹھایا۔صرف غالبؔ ہی اُردو کے ایک ایسے شاعر ہیں جنھوں نے کلمات استفہام کی گہرائیوں اور لطافتوں کو شدت سے محسو س کیا اور استفہامیہ لب و لہجے کی تخلیق میں پورا زور صرف کیا۔مرزا کے اُسلوب بیان کی جدت کا ایک راز اسی لب و لہجے میں پوشیدہ ہے۔“ 17؎
غالبؔ کے ہاں مزاح اور طنز کا سطحی مزاج نہیں ملتا بلکہ ایک سنجیدہ اور میچور قسم کا مزاح اور طنز کی چاشنی نظر آتی ہے۔ غالبؔ نے جن تصورات و مشاہدات اور مذہبی و معاشرتی نظریا ت پر چوٹ کی ہے وہ بظاہر حدسے متجاوز اور بہت دور نکل جانے کی بات ہے لیکن ان کے اظہار بیان کا سلیقہ اتنا عمدہ ہے کہ بات ناگوار اور تلخ و ترش ہونے کے باوجود شیریں و لطیف ہو کر من کو موہ لیتی ہے۔بطور نمونہ یہ اشعار دیکھیں:
؂ ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن دل کے خوش رکھنے کو یہ خیال اچھا ہے
؂ کیا وہ نمرود کی خدائی تھی بندگی میں بھی مرا بھلا نہ ہوا
؂ واعظ نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو کیا بات ہے تمہاری شراب ِ طہور کی
کلام غالبؔ میں صوتی آہنگ اور موسیقی کا فنکارانہ نظام ملتا ہے۔ غالبؔ کو الفاظ کے استعمال پر جس طرح کی قدرت اور مہار ت حاصل ہے اُس سے غالبؔ شناس اور قارئین بخوبی واقف ہیں۔ لفظوں کے مزاج کو پہنچانے اور ان کے استعمال کے سلیقے سے آگاہی جس قدر غالبؔ کے ہاں پائی جاتی ہے،شاز ہی کسی اور شاعر کے ہاں اتنی روانی اور تسلسل سے دکھائی دے۔ الفاظ کی صوتی ترتیب سے معنی میں موسیقی و ترنم کا آہنگ پیدا کر لینا کوئی آسان کام ہے۔ انتخاب الفاظ کی فنکاری میں انھیں اجتہاد کا درجہ حاصل ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں:
”غالبؔ نے زبانِ شعر میں قابل قدر اضافے کیے ہیں۔ ان کی زبان محدود نہیں؛وہ اپنے تجربے کے مکمل ابلاغ کے لیے الفاظ کا انتخاب بڑی فنکارانہ چابک دستی کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان کی زبان میں زندگی کی وسعت اور کشادگی ملتی ہے۔ ان کے ہاں زبان الفاظ کے متحرک اور زندہ مجموعے کا نام ہے۔“ 18؎
غالبؔ کے ہاں الفاظ کے انتخاب کا سلیقہ اپنی انفرادیت لیے ہوئے ہے۔ ان کی شاعری کا حاصل ِ کل انتخاب الفاظ ہی ہے اور الفاظ بھی ایسے کہ جن میں موسیقی کا دل آویز صوتی آہنگ موجود ہو جسے ترتیب دے کر نغمگی کا تاثر دینے کی بھر پور کوشش غالبؔ کے ہاں کامیابی سے نظر آتی ہے۔
مرزاغالبؔ کے کلام میں تشبیہات کا استعمال بطور خاص ملتا ہے۔ ان کی شاعری کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاعری میں تشبیہ اور استعارہ کے بغیر محض تخیل کے زور سے مضمون میں جان پیدا نہیں کی جا سکتی۔غالبؔ نے تشبیہ کے معاملے میں اعتدال اور فطری رچاؤ کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے تصورات و احساسات کو معنی آفرینی اور نکتہ آفرینی سے ملفوف کر کے اسطرح بیان کیا ہے کہ مضمون بھی اچھوتا اور دل آویز ہو گیا ہے اور تشبیہ و استعارہ کی اُٹھان بھی فصاحت کے معیار کو چھو رہی ہوتی ہے۔بطور نمونہ یہ اشعار دیکھیں:
؂ جیسے گر جائے دمِ تحریر کاغذ پر مری قسمت میں یوں تصویر ہے شب ہجراں کی
؂ دیوانگی سے دوش پہ زنّار بھی نہیں یعنی ہماری جیب میں اک تار بھی نہیں
غالبؔ کو زبان وبیان پر بے پناہ قدرت حاصل تھی اور عربی و فارسی کے مسلم الثبوت اُستاد ہونے اور ہر قسم کے علم سے واقفیت اور حالات کی ناسازگاری نے ان کے کلام اور خیالات و افکار میں پختگی اور سنجیدگی کا عنصر کچھ زیادہ مستحکم و اثر پذیر کر دیا تھا۔ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری لکھتے ہیں:
”کون سا نغمہ ہے جو اس زندگی کے تاروں میں بیدار یا خوابیدہ موجود نہیں۔۔۔غالبؔ نے بزم ہستی میں جو فانوس خیال روشن کیا ہے؛کون سا پیکرِ تصویر ہے جو اس کے کاغذی پیرہن پر منازل زیست قطع کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔“ 19؎
عظیم شاعر کا اختصاص یہ ہوتا ہے کہ اس کے فکر و فن سے ہر مکتبہ فکر کے لوگ حظ اُٹھاتے ہیں اور نظری و فکری اعتبار سے روشنی لیتے ہیں۔ کلام غالبؔ میں جدت و ندرت کا یہ رنگ و آہنگ ہر کسی کو متاثر کرتا ہے اور توجہ مبذول کروانے میں ہمیشہ سے کامیاب رہا ہے کہ خون جگر میں نمود کی کشش اور شعلہ و شبنم کی تابانی کا اظہار اس کے لافانی ہونے کا حوالہ ہے۔
غالبؔ نے تراکیب کا بھی ایک جہاں اپنے کلام میں بسایا ہے۔ ان کے اشعار میں فارسی کی روایتی تراکیب کے علاوہ ان کی اپنی وضع کردہ تراکیب کا ایک سلسلہ نظر آتا ہے۔ غالبؔ کو تراکیب سے کام لینے کا ہنر خوب آتا تھا جہاں بھی انھوں نے ضروری سمجھا وہاں متعین لفظ کے متبادل کے طور پر تراکیب کا استعمال کیا اور نہایت خوبی اور آراسگتی کے ساتھ کیا کہ جیسے نگینے کو انگوٹھی کے قالب میں جڑ دیاجائے کہ دونوں کی انفرادی معمولی حیثیت یکجا ہو کر بے مثال ہو جائے۔
؂ ترے جواہر طرف کلمہ کو کیا دیکھیں ہم اوج طالع لعل و گہر کو دیکھتے ہیں
؂ کاوَ کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
غالبؔ نے اپنی فنی و لسانی پختگی اور اُستادی کا دعوی اکثر کیا ہے اور ان کا وہ مشہور شعر کہ جس میں انھوں نے میرؔ پر اُستاد ہونے کی پھبتی کسی ہے؛اُسے کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غالبؔ واقعتا ایک بے مثل اُستاد ہیں جن کے ہر ہر لفظ پر تحقیق ہو چکی ہے اور ان کے کلام نظم و نثر کو مجموعی طور پر سند فضیلت دی جا چکی ہے۔اپنے اس کارہائے نمایاں اور اُستادی فن کا اعتراف شاعرانہ تعلی میں غالبؔ نے خود کیا ہے۔
؂ گنجینہ معنی کا طلسم اس کو سمجھئے جو لفظ کہ غالبؔؔ میرے اشعار میں آوے
غدر کے بعد کی صورتحال اور ابتدائی دور کے کلام کو دیکھاجائے تو غالبؔ قدرے سہل،رواں اور عام فہم زبان استعمال کرتے ہیں۔دراصل مشکل پسندی کے بے معنی ہونے کا احساس غالبؔ کی شیفتہ،مولوی فضل الحق اور مرزا خانی کوتوال کی صحبتوں اور محافل میں ہونے والی روزمرہ کی گفتگو اور فارسی ادیبات کا گہرائی سے مطالعہ اور اپنی انانیت کا سر چڑھ کے بولتا خمار شامل تھا جس سے دست بردار ہونا غالبؔ کے لیے آسان نہ تھا
نفسیاتی اعتبار سے دیکھیں تو غالبؔ کی شخصیت میں کئی ایک پیچیدگیاں ہیں جو ان کی اپنی نفسی سرگزشت معلوم ہوتی ہیں۔ ابتدائی عمر سے رنگ بیدل کی تقلید اور نت نئے معانی و دورازکار تراکیب سے شعر کی زبان کو مفرس بنا کر اپنے حلقہ احباب کا متاثر کرنے کا رجحان ان کی مشکل پسندی کے پس منظر میں کارفرما عناصر کا پتہ دیتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ غالبؔ کی شاعرانہ فکر ان کے ہم عصر شعرا سے کہیں زیادہ تموج اور بالائی حسّیت کو جھنجھوڑنے والی ہے۔ غالبؔ ایک شاعر ایک فلسفی زیادہ ہیں۔ ان کے کلام نظم و نثر کا سرسری مطالعہ کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ گل و بلبل کا نغمہ الاپنے والا شاعر نہیں ہے جو فراق و وصال کے سطحی جذبات کی ترجمانی کر رہا ہے بلکہ غالبؔ کے ہاں کل جہاں کے مسائل و معاملات اور فکرو فلسفہ دکھائی دیتا ہے۔
ان کے اشعار حقائق فلسفہ کو نہایت آسانی اور سادگی سے بیان کر دیتے ہیں۔
؂ ہے پرے سرحد ادراک سے اپنا مسجود قبلہ کو اہل نظر قبلہ نما کہتے ہیں
؂ طاقت میں تا رہے نہ مے و انگبیں کی لاگ دوزخ میں ڈال دے کوئی لے کر بہشت کو
غالبؔ نے فلسفیانہ مضامین کی ادائیگی کے لیے رمز و ایمایت کے رجحان کو مزید آگے بڑھایا ہے۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ غزل کے مزاج سے ان کی شناسائی بہ نسبت دیگر اصناف کے زیادہ تھی اور اس کے فنی و رموزی عناصر سے ان کی ایک فطری دلچسپی بھی تھی جس نے انھیں غزل میں اپنی تمام تر فکر و فلسفہ کے حامل خیالات و جذبات اور احساسات رقم کرنے کا راستہ فراہم کیا۔رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں:
”مرزا ایک بہت بڑے فلسفی ہیں اور ان کے اکثر اشعار حقائق فلسفہ کو نہایت آسانی اور سادگی سے ظاہر کرتے ہیں۔ان کے یہ خیال زبانی نہ تھے بلکہ وہ ان پر پوری طرح عامل تھے۔ ان کی زندگی مذہبی رواداری اور آزادہ دروی کی ایک درخشاں مثال تھی۔“ 20؎
غالبؔ نے سر سید کی کتاب آثار صنادید کی تقریز لکھنے پہ اعتراض اُٹھا دیا تھا کہ فرہنگ سٹیم انجن ایجاد کر چکا ہے اور آپ ابھی تک ماضی کی کھوج میں اپنا وقت ضایع کر رہے ہیں۔ غالبؔ کی وسیع و بلیغ نظر صرف ہندوستان کے مسائل و موضوعات پر نہیں تھی بلکہ ان کی فکر کا دائرہ ایشا سے باہر کے افلاک تک پھیلا ہوا تھا جو ان کو حقیقت میں بڑا ذہن اور بڑا شاعر اور فلسفی شاعر بنانے میں اہم کردار ادا کر رہا تھا۔
؂ سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں ابر کیا چیز ہے،ہوا کیا ہے
؂ ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی کچھ ہماری خبر نہیں آتی
؂ ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو
غالبؔ کے ہاں جہاں زمانے کے مصائب اور تلخ و ترش حادثات کا بیان ملتا ہے وہاں ان کے ذاتی غم اور رنج و محن کا گلہ بھی نظر آتا ہے جو ان کے اشعار کے پس پردہ بظاہر کسی اور رنگ میں موجود ہے لیکن غور کیا جائے تو بلواسطہ غالبؔ نے اپنی ذات سے جُڑے مسائل و کیفیات کا رونا رویا ہے۔ان کے قہقہوں میں غم و آلام کی ہوک مدھم مگر شدت غضب کی ہوتی ہے۔
؂ غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
مرزا کے اشعار میں خود انھیں کے آلام و مصائب کے نقشے نظر آتے ہیں۔ ان کے اشعار پڑھ کر رنج و غم کی رفعت اور مصیبت کی عظمت کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ڈاکٹر روبینہ ترین لکھتی ہیں:
”غالبؔ کی حساس طبیعت نے انھیں جذبہ رشک سے قدم قدم پر دوچار کیا ہے اس کے باوجود غالبؔ کی اپنی گہری قوت،برداشت،صبر و تحمل، شگفتگی، عالی ظریفی، وسیع القلبی اور لبرل رویے کی بدولت اس جذبے کو نہایت شریف اور ارفع جذبہ بنا کر پیش کرتے ہیں اور یہی ان کا کارنامہ ہے۔“ 21؎
غالبؔ کی شخصیت و شاعری میں جو وصف شعری عنصر سے زیادہ نمایاں دکھائی دیتا ہے وہ ان کی روایت شکنی ہے۔ انھوں نے دوسروں سے الگ راہ اختیار کی اور روایتی اُسلوب و ضوابط سے کنارہ کشی اختیارکی۔ نظم میں نثر میں ان کی روایت شکنی کے بر عکس روایت موجدی اور رواج پذیری کی صلاحیت اور رجحان کو قدرے ستائش کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔
مرزا کے دیوان پر نظر ڈالیں تو قدم قدم پر یہ تاثر ملتا ہے کہ ان کے ہاں ہر چیز میں تشکیک کے ساتھ تجسیم کاری کا عنصر غالبؔ ہے گویا غالبؔ کسی بھی چیز کو اس کی موجودہ حالت کے ساتھ قبول کرنے سے انکاری ہے اور اس میں جدت و اختراع کے عمل کو رواج دینے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔یوں کہہ لیجئے کہ غالبؔ نے چبائے ہوئے نوالوں کو پھر سے چبانے کی کوشش نہیں کی بلکہ اپنے لیے نئے نوالے بنائے ہیں اور انھیں چبانے کے لیے دوسروں تک بھی پہنچایا ہے۔روایت شکنی اور اختراعی طبیعت کے حامل اس شاعر کو شاعر بے نوا اور کج کلاں اور شاعر مکمل اسی لیے کہا جا تا ہے۔
؂ ہیں اور بھی دُنیا میں سخنور بہت اچھے کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز ِ بیاں اور
؂ لاگ ہو تو اس کو ہم سمجھیں لاگ جب نہ ہو کچھ بھی تو دُھوکا کھائیں کیا
غالبؔ کی شاعری میں دُنیادی داری کے ساتھ دین داری اور دین داری کے ساتھ متصوفانہ موضوعات کا بھی ایک سلسلہ موجود ہے۔ اُردو شاعری کی روایت میں تصوف ایک مستقل موضوع کی حیثیت سے ہمیشہ شعرا کا پسندیدہ رہا ہے اور ہر دور میں شعرا نے اس موضوع پر طبع آزمائی کی ہے اور اسے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے۔
غالبؔ نے نظریہ وحدت الوجود کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے اور اپنے کلام میں جا بجا اس تاثر کا اظہار کیا ہے کہ دُنیا میں رب تعالیٰ کی موجودگی اس کی صفات کی تجسیم کی صورت دکھائی دیتی ہے اور دراصل قدرت حق ہر چیز میں کہیں عیاں اور کہیں پنہاں کہیں ظاہر اور کہیں باطن میں محو آرائش و سرگرداں ہے۔
؂ ہر چند ہر اک شے میں تو ہے پر تجھ سی تو کوئی شے نہیں ہے
؂ اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا
کلاسیکی اُردو غزلیہ شاعری کی روایت میں قلی قطب شاہ سے لے کر غالبؔ تک ہم اگر حسن و عشق کے معاملات اور سحر کاریوں کی جلوہ سامانیوں کا جائزہ لیں تو ہمیں ایسے ایسے رنگ ہا رنگ کے اشعار اور بوقلمونیوں کے حامل شہ پارے دکھائی دیتے ہیں کہ شعر میں دل اور دل میں شعر کی کیفیت کو باہم مدغم کر دیا گیا ہے۔ پروفیسر غالب احمدلکھتے ہیں:
”اُردو شاعری میں عشق اور حسن کا قصہ دونوں دروں بینی کے آئینہ دار ہیں۔ اس کے طفیل عشق دماغ کا خلل قرار دیا گیا اور حسن کو نظر کا دھوکا سمجھا گیا۔ یعنی نہ ہمیں اپنے جذبات ِ حقیقی نظر ٓئے اور نہ ہی ہمیں اپنے تخیل میں اُچھلتی کودتی ہوئی رواں دواں حرارت محسوس ہوئی؛اس کے باوجود عشقیہ شاعری بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی اپنے اندر بہت کچھ رکھتی ہے۔“ 22؎
غالبؔ کا تصور حسن و عشق بھی غالبؔ کی شخصیت کا نمایاں اعجاز اور ان کی شاعری کا امتیازی رجحان ساز جذبہ ہے جس کے بیان میں خارجی زاویہ ہی نظر نہیں آتا بلکہ مشاہدات و تجربات کے اثرا ت بھی واضح طور پر محسوس کیے جاسکتے ہیں۔
مثال کے طور پر یہ اشعار دیکھیں:
؂ عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا درد کی دوا پائی دردِ لادوا پایا
؂ سادہ و پُرکار ہیں خوباں غالبؔ ہم سے پیمان ِ وفا باندھنتے ہیں
؂ بلبل کے کاروبار پہ ہے خندہ ہائے گل کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
غالبؔ کی شاعری کا بنیادی موضوع عشق ہے اور حسن کی پرستش ہے۔ انھوں نے جذبات حُسن و عشق کے بیان میں لکھنوی طرز فکر کی حامل پست اور اتبذال آمیز شاعر ی نہیں کی بلکہ اعلی معیار اور مشرقی اقدار کو مد نظر رکھتے ہوئے شرم و حیا اور پاس و آداب وحجاب و وضع ایسی معاشرت کے پس پردہ شعر تخلیق کیے جن کے ظاہری اور باطنی حُسن میں حُسن جاناں کی دل فریبوں اور جلوہ سامانیوں کا سارا منظر و ماحول صاف و شفاف نظر آتا ہے۔سجاد باقری رضوی لکھتے ہیں:
”غالبؔ کے ہاں جو تخلیقی اور قدری رویے ملتے ہیں۔ ان کی اسا س عشق ہے۔عشق وہ ہوتا ہے جس سے برصغیر کے مسلمانوں کی زندگی کے تمام قدرے رویے پیدا ہوتے ہیں۔ پاک وہند میں مسلمانوں کی تہذیب کی بنیاد ہر عشق پر ہے۔۔۔پس عاشقی لذت اندوزی نہیں،مرنے کے لیے تیار رہنے کا نام ہے۔“ 23؎
غالبؔ نے طویل عمر پائی اور اس طویل سفر حیات میں انھوں نے جہاں خوشی و مسرت اور بے فکری کا زمانہ دیکھا وہاں غم و الم اور حادثات سے بھی گزرے۔ ان کی زندگی والد کے سائے سے محرومی کے ساتھ ہی غمگین ہو گئی تھی۔ نانا کے ہاں تربیت ضرور ہوئی مگر لاڈ پیار نے انھیں بگاڑ ڈالا اور اس زمانے میں شرفا کے لڑکوں بانکوں میں جو عادت راسخ ہو گئیں وہ تاحیات باقی رہی۔
غالبؔ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ رہا کہ شراب نوشی اور جوا بازی اور قمار بازی ایسی عادت وخرافات میں پڑے کہ خاکساری کی روش اختیار کرنے کے باوجود ان عادات نے غالبؔ کو بہت دھکے کھلوائے مگر ان کی لا اُبالی طبیعت اور عشق کے خلل دماغ نے ان کی کل کو سیدھا نہ ہونے دیا۔
غالبؔ نے غم اور ناکامی حیات کو مزے لے لے کر بیان کیا ہے۔ ان کے کلا م میں یاسیت البتہ میرؔ کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اپنے غموں پر ہنسنا اور بات ٹال کر مزاح کا رنگ پیدا کر دینا غالبؔ ایسے بڑے شاعر کا خاصہ ہے۔
بطور مثال یہ اشعار دیکھیں:
؂ رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
؂ ہے اب اس معمورے میں قحط ِ غم الفت اسد ہم نے یہ مانا رہیں دلی میں پر کھائیں گے کیا
؂ دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
مرزا غالبؔ کی شاعری اُردو ادب کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کی شاعری میں آفاقیت پائی جاتی ہے؛اسی لیے ان کے کلام کو عالمی نقطہ نظر کی سند حاصل ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں جس دور،سما ج،معاشرت اور عسکری و تہذیبی یلغاراور گراوٹ کا ذکر کیا ہے وہ انھیں سے ممکن تھا۔ان کی شاعری کی جدید فکری رو نے ہندوستانی ادب کے مشترکہ دھارے کو اتصال و انجذاب کی طرف راغب کیا۔ ان کی شاعری نے جہاں قدیم و جدید ذہن کے حامل افکار کو یکجا کر کے ہم آہنگی پیدا کی وہاں کلاسیکی اُردو غزلیہ شاعری میں اُسلوب بیان اور شاعرانہ صناعی کے مجتہد ٹھہرے۔
غالبؔ کی عظمت کا ان کے ہم عصروں اور متاخرین نے بڑے کھلے،واضح،پُر اثر اور شفاف و جامع الفاظ میں اعتراف کیا ہے اور خراج پیش کیا ہے۔ غالبؔ ایک شخص کا نام نہیں بلکہ ایک دور، ایک عہد،ایک تاریخ ایک صدی اور ایک عالم حیرت و استعجاب نیز مسرت و نشاط کا نام ہے جس نے اُردو زبان و ادب کی جملہ نظم و نثر کی اصناف کو اپنی فکر اور اُسلوب سے متاثر کیا اور ان سے اثر لینے والوں خود کو حلقہ غالبؔیات کے مقلد و معتقد کہلائے جانے پر نہ صرف فخر کا اظہار کرتے ہیں بلکہ ان کے شاعرانہ قد و قامت اور شخصیت کے بڑے پن کا عاجزانہ اعترا ف بھی کرتے ہیں۔
غالبؔ غزل کے شاعر ہیں اور غزل غالبؔ کی آبرو ہے۔ گویا اُردو غزل اور غالبؔ لازم و ملزوم ہو گئے ہیں۔ غالبؔ کے ذکر کے بغیر کلاسیکی اُردو غزل کا باب شروع نہیں کیا جا سکتا۔غالبؔ نے اُردو غزل میں شخصی جذبات، انفرادی کیفیات،اجتماعی احساسات اور تخیلی واردات کا جو اضافہ بصورت اشعارکیا ہے وہ ان کے شاعرانہ عظمت کابنیادی حوالہ ہیں۔
اگر یہ کہا جائے اُردو شاعری میں غالبؔ سب سے بڑا شاعر ہے تو ہو سکتا ہے کچھ لوگ مجھ سے اختلاف کریں البتہ کثیر تعداد میری اس رائے کی تائید کرے گی۔ بادی النظر میں ایک بڑے شاعر کو سب سے بڑا کہہ دینا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے لیکن اس کو واقعتا بڑا اور سب سے بڑا ثابت کرنا پڑ جائے تو دانتوں تلے پسینہ آجاتا ہے۔
جدید اُردو غزل پر غالبؔ کی فکر اور شاعرانہ اُسلوب کے براہ راست اثرات پڑے۔ غالبؔ کے شاگردوں میں مولانا حالی کے ساتھ ایک طویل فہرست ہے جن کے ہاں غالبؔیت کا مزاج ملتا ہے۔ان کے رفقا اور دوست شعرا کے ہاں بھی غالبؔیت کا تسلسل نظر آتا ہے۔
عہد حاضر کے نمائندہ غزل گو شعرا کے ہاں بھی غالبؔ کے اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ حسرت، اصغر، یگانہ، فانی، فراق، جگر، فیض، ناصر، فراز اور جون ایلیا کے ہاں غالبؔیت کا رنگ سر چڑھ کے بول رہا ہے اور یہ رنگ اتنا پکا اور گہرا ہے کہ جب تک اُردو زبان باقی ہے اور شاعری کا ذوق ہے؛غالبؔ اور ممدوحین غالبؔ کی روایت جاری رہے گی۔

حوالہ جات
1۔ پرتھوی،چندر،جاگیر غَالِبؔ،لکشمی پرنٹنگ ورکس دِلّی،سن(ندارد)ص13
2۔ غلام رَسُول مہر،مولانا،غَالِبؔ،غَالِبؔ انسٹیٹیوٹ دہلی،2005، ص28
3۔ خلیق انجم ،ڈَاکٹر،غَالِبؔ کے خطوط،جلد دوم،انجمن ترقی اُردُو پاکستان،کراچی،1998،ص816
4۔ مالک رام،ذِکر غَالِبؔ،مکتبہ جامعہ،نئی دِلّی،1976،ص39
5۔ غَالِبؔؔ ،عود ہندی،عالمگیر الیکٹرک،پریس،لاہور،1912،ص103
6۔ فخر الحق نوری،ڈَاکٹر،مطالعات ،پولیمر پبلی کیشنز،لاہور،2000،ڈَاکٹر،ص:09
7۔ محمد اکرام،شیخ ،آثارِ غَالِبؔ (غَالِبؔ نامہ) ،احسان بک ڈپو،لَکھنؤ،سن (ندارد) ،ص373
8۔ عابِد علی عابِد ،سَیّد،اُصولِ انتقاد اَدَبیات،مجلس ترقی اَدَب،لاہور،1960،ص364
9۔ خلیق انجم،ڈَاکٹر غَالِبؔ کے خطوط،ص848
10۔ ایضاً،ص816
11۔ رام بابو سکسینہ، تاریخ اَدَب اُردُو، بک ٹاک،لاہور، ۴۱۰۲ء ص348
12۔ مقدمہ شعر و شاعری،مجلس ترقی ادب،لاہور،۲۱۰۲ ،ص:۴۲
13۔ رام بابو سکسینہ،تاریخ ادب اُردو، ،ص:۳۵۵
13۔ مقدمہ شعر و شاعری،مجلس ترقی ادب،لاہور،۲۱۰۲،مولانا حالی،ص:۴۲
14۔ جالبی،جمیل،ڈاکٹر، تاریخ ادب اُردو،جلد چہارم،طبع دوم،جون،۲۰۱۵ ،ص:۱۴۳
15۔ اُسلوب احمد انصاری،پروفیسر غالبؔ کا فن ،مسلم یونیورسٹی پریس،علی گڑھ،۱۹۷۰ء،ص:۲۲
16۔ اسلوب احمد انصاری،پروفیسر، غالبؔ کا فن، ،ص:۲۴
17۔ فرمان فتح پوری،ڈاکٹر۔ غالبؔ:شاعر امروز و فردا، ،اظہار سنز، لاہور۱۹۷۰ء،ص:۱۸۷
18۔ جمیل جالبی،ڈاکٹر، تاریخ ادب اُردو، ، مجلس ترقی ادب اُردو،لاہور،۲۰۱۴،ص: ۱۳۶
19۔ عبدالرحمن بجنوری،ڈاکٹر، محاسن الفاظ غالبؔ، ، انجمن ترقی اُردو،ہند،ص:۴۵
20۔ ، رام بابو سکسینہ ،تاریخ ادب اُردو ،ص:۳۵۷
21۔ محمد اکرام خالد،پروفیسر، اُردو کے نمائندہ کلاسیکی غزل گو، ،عبداللہ برادرز،لاہور،، ص:۳۱۷
22۔ غالبؔ،مرزا،خاں،اسداللہ،دیوان غالبؔ(المعروف نسخہ حمیدیہ)،ص:۱۵۰
23۔ سجاد باقر ۔رضوی،سید، معروضات، ،نصرت پبلی کیشنز،لکھنو،سن(ندارد)ص:۵۸

 

پروفیسر محسن خالد محسنؔ
شعبہ اُردو،
گورنمنٹ شاہ حسین ایسوسی ایٹ کالج،لاہور

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
تحریر: ابو مدثر