آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمزسید محمد زاہد

عمران خان کے حواس پر سوار موت کا خوف

سید زاہد کا ایک کالم

زندگی انسان کے ہاتھ سے یوں کھسک رہی ہے جیسے پانی کو چلو میں بھر لو تو وہ انگلی کی درزوں سے کھسک جاتا ہے۔ جو بچتا ہے وہ موت ہے۔

موت ایک ایسا معمہ ہے جو سمجھنے کا ہے، نہ سمجھانے کا۔ فلسفہ دانوں، شاعروں اور تخلیق کاروں نے موت اور اس کے ارد گرد پھیلے ہوئے غبار میں بہت ہاتھ پیر مارے ہیں لیکن حاصل ایک بے انت اداسی اور مایوسی ہے۔ یہ یاس و نراس خوف و اداسی کا باعث بنتے ہیں۔

پہلی صدی قبل مسیح کے لاطینی شاعر اور فلاسفر لیوریٹیس کا کہنا ہے موت کا خوف انسان میں انتہائی نامعقول خیالات و احساسات کو جنم دیتا ہے جو اس کے لیے اور معاشرے کے لیے بھی نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ انسان زندگی سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہے تو موت اس کے سان و گمان میں بھی نہیں ہوتی، وہ ذرا نہیں ڈرتا لیکن جب کسی بیماری یا خطرے کا سامنا ہوتا ہے تو وہ سہم جاتا ہے اور سوچنے لگتا ہے کہ مرنے کے بعد کیا ہو گا؟ بعد از موت کی ہیبت ناک کہانیاں اسے ڈراتی ہیں۔ زندگی میں کی گئی زیادتیاں اور گناہ خوف کے بھوت بن کر سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ اندیشے، یہ بیم و ہراس انسان کی زندگی کو داغدار کر دیتے ہیں۔ خوشی و امید دم توڑنے لگتی ہے اور بعض مرتبہ وہ زندگی سے نفرت کرنے لگتا ہے۔

وہم اسے مذہب کی طرف دھکیلتے ہیں، جو اسے مزید خوف زدہ کرتا ہے۔ بعض مذہبی عقائد اور خیالات اسے ذہنی مریض بنا دیتے ہیں۔ بہت سے نظریات سائنسی توجیہات پر پورے نہیں اترتے لہذا انہیں دھوکہ و فریب قرار دیا جاسکتا ہے۔ لیوریٹیس کا کہنا ہے کہ عام مذہبی خیالات انسان کو حوصلہ دیتے ہیں لیکن غیر معمولی اور خطرناک پتھالوجیکل خیالات کو ان عقائد سے علیحدہ کرنا کافی مشکل ہے۔ یہ مریضانہ وہم و خدشات ان لوگوں میں زیادہ در آتے ہیں جو کہ کسی حادثے کا شکار ہوئے ہوں یا پھر نشے کے عادی ہوں۔

جان کے ضائع ہونے کا خوف قدرتی ہے اور فائدہ مند بھی۔ جب تک وہ معمول کے طرز زندگی پر اثر انداز نہ ہو، انسان ذہنی مرض نہیں بنتا لیکن اگر متاثرہ شخص کا ردعمل خطرے کی شدت اور نوعیت کے مطابق ہونے کی بجائے بہت زیادہ ہو تو پھر یہ ایک فوبیا کہلاتا ہے۔

مثال کے طور پر بہت سے لوگ اپنے گھر میں چھپکلی، چمگادڑ یا مکڑی کو دیکھ کر برا محسوس کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی بندہ انہیں دیکھ کر خوفزدہ ہو جائے اور گھر چھوڑ کر بھاگ اٹھے۔ جنگلات اور ویران جگہوں پر جانے سے گریز کرے کہ وہاں وہ پائی جا سکتی ہیں تو اسے فوبیا کہیں گے۔ اسی طرح موت اور مردے ہر کسی کو غمگین کرتے ہیں لیکن اگر کوئی ان سے اتنا خوفزدہ ہو کہ جنازے والے گھر ہی نہ جائے تو اسے ذہنی بیماری کہیں گے۔

موت ایک پیچیدہ، حتمی اور قطعی عمل ہے۔ اس کی بدصورتی، تکلیف اور نحوست بنی نوع پر ہمیشہ سے مسلط ہے۔ اس بلا سے وہ خوف زدہ ہے۔

موت کا خوف آفاقی ہے۔

انسان ایک سماجی جانور ہے۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ مل کر زندگی گزارتے ہیں۔ اکیلا پن سب سے بڑی تکلیف ہے، موت انسان کو اس کے پیاروں سے جدا کر دیتی ہے۔ انسان اکیلا جانے اور رہنے سے گھبراتا ہے۔ وہ قبر کی تنہائی سے ڈرتا ہے۔ موت کا ذہن میں خیال آتے ہی ان دیکھے مستقبل کا خوف، جسے مذہب دائمی زندگی کہتا ہے، جس میں ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں ہو گا، جس میں مصیبتوں سے پالا پڑ گیا تو کوئی شنوائی نہیں ہوگی، لمبی قید اور دوزخ کی سزائیں، سب کچھ ڈراتا ہے۔

موت کے خوف کی آٹھ جہتیں ہیں : مرنے کے عمل کا خوف، قبل از وقت موت کا خوف، پیاروں سے جدائی کا خوف، اپنے بعد پیاروں کی مشکلات کا خوف، تباہ ہونے کا خوف، موت کے بعد جسم کا خوف، نامعلوم کا خوف، اور مردہ حالت کا خوف۔

ان تمام بیم و ہول سے نجات پانے کے لیے یا ان کی شدت کو کم کرنے کے لیے تمام انسانی معاشروں نے مذاہب کا سہارا لیا ہے۔ اسی وجہ سے وفات پا چکے پیاروں کے لیے رسومات کا آغاز ہوا۔ موت کے عمل کو قابل قبول بنانے کے لیے ہی زندگی بعد از موت کا سہارا ڈھونڈا گیا۔ ابدی زندگی کی حکایات کا بیان ہوا۔ موجودہ حیاتی اور ’مابعد الموت‘ کی تصوراتی زندگی کے درمیان نئے روابط بنائے گئے۔

ان تصورات کو پذیرائی دلانے کے لیے موت کے بارے میں کہا گیا
ہے یہ شام زندگی، صبح دوام زندگی
فانی زندگی کی کمائی کو دائمی زندگی میں نفع کے طور پر پیش کیا گیا۔
یہ سارے نارمل رویے ہیں۔

اگر خوف زیادہ ہو اور ان رویوں پر انحصار کرنے کی بجائے نت نئے طریقوں کی تلاش شروع ہو جائے تو وہ ابنارمیلٹی ہے۔ یہی ذہنی مرض کا آغاز ہے۔ ان حالات میں انسان کا جھکاؤ مذہب کی طرف مزید بڑھ جاتا ہے تاکہ خدا کو خوش کر کے موت کو ٹالا جا سکے۔ وہ خود کو مشکل میں ڈال کر، خود کو سزا دے کرself flagelation اپنے گناہوں کا مداوا کرتا ہے۔ اس کام میں وہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی شامل کر کے زیادہ کامیابی محسوس کرتا ہے۔

وہ جادو، ٹونے، قربانیاں، جانداروں کا خون کرنا اور طرح طرح کے دوسرے طریقے اپناتا ہے۔ جادو سے انسان حالات کو اپنے قابو میں لانے کی امید رکھتا ہے۔ ان دیکھے دشمنوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جرمن ماہر نفسیات اوٹو رینک ( 1936 ) کے مطابق، دوسرے جانداروں کی قربانی انسان کے من میں بسے موت کے خوف کو کم کرتی ہے۔

اس کے علاوہ وہ مخالفین کے خوف سے اصول و ضوابط کو بلائے طاق رکھ کر جھوٹے سہارے ڈھونڈتا ہے تاکہ کسی نہ کسی طرح موت کے امکانات کو کم کیا جا سکے۔

حادثات، زخم اور خون موت کے خوف کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ بڑھاپے میں یہ خوف مزید بڑھ جاتا ہے۔

خوفزدہ انسان کا سب سے پہلا عمل موت کے خطرے سے دور بھاگنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مردوں اور قبروں سے ڈرنا، خود کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانا، جانوروں کی طرح اپنی کچھار میں چھپ کر بیٹھ جانا، ڈاکٹروں، اور حکیموں کو جمع کرلینا، اپنے گرد انسانوں کا حصار قائم کرنا، تاکہ حملے کی صورت میں مقابلہ کیا جا سکے اور اگر نقصان ہو بھی تو ان کا ہو۔ طاقتور لوگوں، جادوگروں اور مذہبی لیڈروں کی پناہ چاہنا اور دیگر کئی ایسے کام کرنا جو بعض مرتبہ مضحکہ خیز ہوتے ہیں۔

یہ ساری بیہودہ و نامناسب کوششیں ذہنی مرض میں کمی کرنے کی بجائے اسے بڑھاوا دیتی ہیں۔

ہمارے ملک میں قتل اور بم دھماکوں کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ عوام اور سیاست دان سب نشانہ بنے ہیں۔ پولیس اور دفاعی ادارے قربانیاں دیے جا رہے ہیں۔ موت کے فرشتے گلیوں میں دندناتے پھرتے ہیں۔ عوام کبھی نہیں گھبرائے۔ دشمنوں نے ہمارے پیارے ملک کو رزم گاہ بنا دیا ہے جس میں ہر سیاسی پارٹی نے خون دیا ہے۔ لیڈر بھی مارے گئے اور ورکر بھی۔ لیکن کبھی کسی پر موت کا خوف اتنا حاوی نہیں ہوا جتنا خاں صاحب کی حرکات میں نظر آ رہا ہے۔

بی بی کارساز کے واقعہ کے اگلے دن ہی ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کو پہنچ گئی تھیں۔ مرتضیٰ بھٹو کے کارکنان شدید غصے میں تھے لیکن وہ ہسپتال پہنچیں۔ یہی حالات بی بی کی شہادت پر تھے۔ سب نے نواز شریف کو منع کیا لیکن وہ گنجان آباد شہر راولپنڈی کے مرکز میں واقع ہسپتال میں پہنچ گئے۔ یاد رہے کہ اسی دن نواز شریف پر بھی اسی شہر میں قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ زرداری صاحب تو خود کہہ چکے ہیں کہ میرا تو ایک ہی بیٹا ہے۔

بلاول کا نام ٹی ایل پی کی ٹارگٹ لسٹ پر ہے۔ اے این پی کے تو ہر گھر سے جنازہ اٹھا ہے پھر بھی اس نے سیاسی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔

مثال کسی بھی طرح مناسب نہیں لیکن کچھ اور سوجھتا بھی نہیں
کہاں راجہ بھوج کہاں گنگو تیلی

ہمارے خاں صاحب پہلے ہی مردہ دیکھنے سے گھبراتے تھے۔ مختلف واہموں کا بھی شکار ہیں۔ ایک قاتلانہ حملہ کے بعد اتنے خوفزدہ ہیں کہ جب بھی گھر سے نکلتے ہیں انسانوں کا حصار بنا کر چلتے ہیں۔ مخالفین کو ان کی اس کمزوری کا پتا چل گیا ہے۔ وہ کچھ دنوں کے بعد کوئی نہ کوئی ایسا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں کہ خاں صاحب کا خوف مزید مہمیز ہو جاتا ہے۔ خاں صاحب خود بھی کچھ کم نہیں۔ ہر دوسرے دن اپنے قتل کا خواب دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ نئے نئے قاتل اور قتل کے طریقے بھی ڈھونڈ لیتے ہیں۔ اگر یہی حالات رہے تو لگتا ہے کہ اگلے الیکشن میں کمپین کرنا مشکل ہو جائے گا کیونکہ ان کا دشمن اعلیٰ رانا ثنا اللہ نفسیاتی حملے کرتا رہے گا۔

وہ موٹی موٹی مونچھوں کے نیچے سے مسکراتے ہوئے ڈراتا رہے گا اور خاں جی خوفزدہ ہوتے رہیں گے۔
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں
روز اک موت نئے طرز کی ایجاد کرے

ابھی خاں صاحب خوش قسمت ہیں کہ خون کی ہولی کھیلنے والے ملک دشمن عناصر سے ان کی مخاصمت شروع نہیں ہوئی یا شاید اسی موت کے خوف کی وجہ سے خاں صاحب ان کے خلاف کوئی بات نہیں کرتے بلکہ ان کے ساتھ گاڑھی چھنتی ہے اور وہ ان قاتلوں کو ہیرو گردانتے ہیں۔

 

سید زاہد

سید محمد زاہد

ڈاکٹر سید محمد زاہد اردو کالم نگار، بلاگر اور افسانہ نگار ہیں۔ ان کا زیادہ تر کام موجودہ مسائل، مذہب، جنس اور طاقت کی سیاست پر مرکوز ہے۔ وہ ایک پریکٹس کرنے والے طبی ڈاکٹر بھی ہیں اور انہوں نے کئی این جی اوز کے ساتھ کام کیا ہے
Loading...
Back to top button