- Advertisement -

تنہائی کا خالی سینہ اور باشک ناگ کا دل

سیّد محمد زاہد کا ایک اردو افسانہ

کاجل نے کیفے سے باہر دیکھا۔ برف پوش وادی چاندنی میں دھلی ہوئی تھی۔ بل کھاتی لمبی سڑک اور حد نظر تک پھیلے سبزہ زار سفید اوڑھنی اوڑھے درد انگیز خاموشی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ازلی دکھن و بے کلی سے آلودہ رات مرمریں روشنی میں چمکتی بے جان یخ بستہ تصویر کی طرح تھی۔ سر شام ہی بادل وادی میں گھومنا شروع ہو گئے تھے۔ چاند اب بادلوں کے ساتھ چھپن چھوت کھیل رہا تھا۔ پھر ہلکی سی پھوار بھی پڑنا شروع ہو گئی۔ دن کی روشنی میں شرماتی برف اب رات کو روئی کے گالوں پر سوار ہو کر زمین پر آنے کو تڑپ رہی تھی۔ کبھی کبھی کوئی مسافر جوڑا ایک دوسرے میں الجھا اس کے سامنے سے گزر جاتا۔ ان کے سرگوشی نما قہقہے سنائی دیتے تو یوں محسوس ہوتا کہ ماحول کی کبیدگی کو کم کرنے کے لیے تنہائی خود سرگوشیوں میں بول رہی ہے۔

وہ سوچوں میں غرق اپنی منجمد تنہائی سمیٹے دروازے پر کھڑی ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔

کاجل کالج ہاکی ٹیم کی کپتان تھی۔ کالج کے ہی ایک میچ کے دوران مخالف ٹیم نے اسے نشانہ بنا لیا۔ ہر کھلاڑی کی کوشش تھی کہ ہاکی، گیند یا ٹانگ اس کے بائیں ٹخنے سے ٹکرائے۔ وقفہ کے وقت وہ لنگڑاتی ہوئی میدان سے باہر آئی اور میچ ختم ہونے سے پہلے ہی ہسپتال پہنچ چکی تھی۔ ایکیلز زخمی ہو گیا اور وہ ساری عمر کے لیے کھیل کے میدان سے باہر۔

کالج سے فارغ ہوتے ہی اس نے ایک فارماسیوٹیکل کمپنی میں جاب کر لی۔ وہ ایک کامیاب سیلز گرل تھی۔ پارٹی کو ایک دو ملاقاتوں میں رام کر لیتی۔ شہر شہر گھومنا، فائیو سٹار ہوٹلوں کی زندگی سے مفت لطف اندوز ہونا۔ پانچ سال کامیابی سے گزر گئے۔ اپنے کام سے مطمئن تھی۔ وہ اکتسابی صلاحیتوں کی حامل سیدھی سادی محنتی عورت تھی۔ بدگمانی و وہم اس کی سرشت میں ہی نہیں تھا۔ غلطی اس کی ہی تھی کہ اس بار وہ تین دن کے دورے پر گئی اور پھر دوسرے دن ہی واپس آ گئی اور وہ بھی کسی کو بتائے بغیر۔ طلسم بے خبری کا الجھان کسی نعمت سے کم نہیں۔ کاش اس نے وہ سب نہ دیکھا ہوتا۔ وہ اپنی شادی کو کامیاب سمجھتی تھی۔ وہ تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس کا خاوند دھوکا دے گا۔ گھر پہنچی تو بستر پر اس کا خاوند لیٹا تھا اور اس کی عریاں بہن اوپر بیٹھی تھی۔

اسے کچھ یاد نہیں اس نے کیا دیکھا؟ اس کی نگاہیں اوپر نیچے حرکت کرتی چھاتیوں میں اٹک گئیں۔
وہ تو اب بھی اسے فریب نظر ہی سمجھتی تھی۔
وہ عورت تھی، کانوں کے بھروسے محبت کرنے والی، یہی کان دھپ دھپ کی گونج سے بہرے ہو گئے تھے۔
اس کے بعد وہ کبھی اپنے گھر نہیں گئی۔ استعفیٰ دیا اور ادھر آ گئی۔

اس ویران سی سڑک پر اس کی بوڑھی خالہ کا دو منزلہ مکان تھا۔ سامنے بڑے پتھروں سے اٹا چھوٹا سا پلاٹ جس میں دیودار اور چیڑ کے بوڑھے درخت جن پر پہاڑی بیلیں سانپوں کی طرح لٹکتی نظر آتی تھیں۔ نیچے وہ دکان کرتی تھی اور اوپر رہائش۔ بہت پرفضا جگہ تھی۔ ایک ندی پہاڑیوں کے نیچے تنہا پتھریلے راستوں پر شور مچاتی اور کنکروں سے ٹکراتی اس طرح چلتی تھی کہ جیسے کوئی الہڑ دوشیزہ سبک خرام ہو۔ گرمیوں میں ادھر سیاحوں کا اژدہام رہتا۔ پانی کی ہلکی ہلکی موجوں سے دھلے پتھروں پر نوخیز دوشیزائیں بال کھولے بیٹھی اپنے نرم نرم برہنہ پیروں سے پانی کی چھینٹیں اڑاتی نظر آتیں۔ سردیوں میں بھی کچھ مہم جو برف باری دیکھنے اتنی دور تک چلے آتے۔ وہ خود بھی کئی بار ادھر آ چکی تھی۔ یہ جگہ اس تنہائی کی ماری کی قیام گاہ بن سکتی تھی۔

خالہ کو یہ مکان اس کے ایک مرحوم دوست نے تحفے میں دیا تھا۔ اسی دوست کی وجہ سے سارا خاندان خالہ سے ناراض تھا۔ امی بھی اسے میل ملاپ سے منع کرتی تھی۔ اب وہ بہت بوڑھی ہو چکی تھی۔ کام کاج کے قابل نہیں تھی اس لیے یہ جگہ کرائے پر دینا چاہتی تھی۔ اس نے دکان لی اور کیفے بنا لیا۔ چھوٹے چھوٹے دو لڑکے ملازم رکھ لیے اور خود کچن میں دنیا جہاں سے چھپ کر بیٹھ گئی۔

کچھ دن تک کوئی گاہک نہ آیا۔ وہ فارغ برف باری میں بیٹھی گانے سنتی رہتی۔ ایک دن ہلکی ہلکی برف باری ہو رہی تھی اس نے دروازہ کھول دیا تو کچھ حرکت محسوس ہوئی اور پہلا گاہک سنہری بالوں والا ایک بلا میاؤں میاؤں کرتا اندر داخل ہو گیا۔ ہلکی بھوری آنکھوں سے لے کر منہ تک پتلی کالی لکیریں اس کو چیتے کا ہم شکل بنا رہی تھیں۔ بلا اپنے ساتھ خوش بختی لے کر آیا۔ اگلے دن ہی دھوپ نکل آئی اور گاہک بھی آنا شروع ہو گئے۔ اس نے بیرونی دروازے کے نچلے حصے میں ایک چھوٹا سا سوراخ بنا دیا تاکہ بلا اندر آ جا سکے۔

کچھ دنوں بعد ساغر اندر داخل ہوا۔ سارا کیفے خالی تھا۔ وہ مضبوط جسم کا مالک ادھیڑ عمر خوبصورت آدمی تھا۔ آدھے سے زیادہ سر گنجا، آنکھوں سے ہوشیاری اور بے خوفی ٹپکتی تھی۔ پہلے پہلے تو وہ اسے کوئی دادا گیر سمجھی اور خوف زدہ ہو گئی۔ وہ آگے بڑھتا ہوا سیڑھیوں کے نیچے موجود سٹول پر بیٹھ گیا۔ کافی کا آرڈر دیا اور بغل سے کتاب نکال کر پڑھنے لگا۔ پھر وہ اس کا مستقل گاہک بن گیا۔ ہفتے میں ایک دو بار ضرور آتا۔ وہ دراز قد تھا لیکن ہمیشہ اس جگہ پر بیٹھتا جہاں سیدھا کھڑا ہونے پر سر سیڑھیوں کی ڈھلان سے ٹکرانے کا احتمال موجود رہتا تھا۔ زیادہ تر صرف کافی یا چائے ہی پیتا، کبھی کبھار ہلکا پھلکا کھانا بھی کھا لیتا۔ سارا وقت خاموشی سے اپنے ساتھ لائی ہوئی کتاب پڑھتا رہتا۔ پھر وہ اس کی اتنا عادی ہو گئی کہ جانے کے بعد بھی کافی دیر تک کیفے میں اس کی موجودگی کا احساس برقرار رہتا۔

وہ کاجل کی طرح کم گو تھا۔ خاموشی سے بیٹھا اپنی کتاب پڑھتا رہتا۔

کئی ماہ تک وہ ساغر کا نام بھی نہ جان سکی۔ اس دن ہلکی ہلکی برف باری ہو رہی تھی۔ ملازم لڑکے بھی نہیں آئے تھے۔ شام ڈھل چکی تھی۔ کیفے میں صرف تین گاہک تھے۔ ایک وہ اور دو مضبوط طاقتور پہلوان نما غنڈے۔ دونوں مسلسل سگریٹ نوشی کر رہے تھے۔ پھر ان دونوں میں تو تکار شروع ہو گئی۔ کاجل کچن سے نکل کر باہر آئی اور انہیں خاموش رہنے کی درخواست کی۔ وہ لڑنا شروع ہو گئے۔ میز الٹا کر تمام برتن زمین پر گرا دیے۔ ساغر جو خاموشی سے کتاب پڑھ رہا تھا اٹھ کر ان کے پاس آیا اور کہنے لگا

”تم زیادتی کر رہے ہو اور مجھے ڈسٹرب بھی۔“
سامنے کھڑے آدمی نے غصے سے اس کی طرف دیکھا۔ ”او ہو! تو تم، اس کے!“
آدمی نے بات ادھوری چھوڑ دی۔

”میں ساغر ہوں۔ کافی پینے ادھر آ جاتا ہوں۔ اس پرسکون کیفے میں اک نشہ سا ہے جو کسی کو مدہوش کر دیتا ہے اور کسی کو پاگل۔“

ساغر اپنی آنکھیں اس کے ماتھے میں گاڑے کھڑا تھا۔ وہ دونوں مشتعل ہو کر گالی گلوچ پر اتر آئے۔
کاجل کے چہرے پر اضطراب کا پسینہ بہہ نکلا۔

ساغر نے اس کی طرف دیکھا پھر ان دونوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا ”ہم اس پرسکون کیفے کے ماحول کو خراب نہ کریں۔ آؤ! باہر جا کر بات کرتے ہیں۔“

اس نے کتاب کا ؤنٹر پر رکھی اور باہر چلا گیا۔ وہ دونوں پیچھے چل پڑے اور ان کے پیچھے بلا بھی۔
کاجل تھوڑی دیر ادھر ہی کھڑی رہی پھر دروازے تک گئی۔

شیشے کے دروازے پر کہر بکھر کر اسے اندھا کر چکا تھا۔ شیشے کو صاف کر کے اس نے باہر دیکھنے کی کوشش کی۔ باہر سڑک پر پژمردہ ملول روشنی بکھری ہوئی تھی۔ کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ باہر سے کوئی آواز بھی نہیں آ رہی تھی۔ وہ واپس آ کر کا ؤنٹر پر بیٹھ گئی۔

تھوڑی دیر بعد ساغر اندر آیا اس کے گیلے گنجے سر کے گرد بکھرے بالوں میں سفید برف چمکتی دکھائی دے رہی تھی۔ نیپکن لے کر سر صاف کیا اور اپنے سٹول پر جا کر بیٹھ گیا۔ کاؤنٹر سے کتاب اٹھائی اور پڑھنا شروع کر دیا۔

کاجل تھوڑی دیر اس کی طرف دیکھتی رہی پھر واپس دروازے کی طرف چل پڑی۔ دروازہ کھول کر باہر دیکھا۔ ویران سڑک پر دور دور کوئی حرکت نظر نہیں آ رہی تھی۔ ملگجی روشنی سے آلودہ اس سرد رات میں ہر چیز بے جان ہو چکی تھی۔ ماحول پر موت کی سی خاموشی طاری تھی۔ اس شام وہ کافی دیر بیٹھی رہی، کوئی گاہک نہ آیا اور بلا بھی۔

اور وہ دونوں پھر کبھی نظر نہ آئے۔

سردیاں ختم ہونے کو آ رہی تھیں۔ موسم خوشگوار ہو گیا۔ اب اکثر دھوپ برفانی چوٹیوں سے ٹکرا کر وادی کو روشن کر دیتی۔ سیزن کا آغاز ہوتے ہی سڑکوں پر رونق بڑھ گئی۔ شام کے وقت آکاش کی اپسرائیں دھرتی پر مٹلاتی نظر آتیں۔ شوخ و شنگ جوڑے ہنسی قہقہے لگاتے، خوشبو اڑاتے کیفے میں آتے۔ چائے کافی کی مانگ بڑھ گئی۔ ساغر آتا، رونق دیکھ کر جلد ہی غائب ہو جاتا اس سرمئی بادل کے آوارہ ٹکڑے کی طرح جو اونچے درختوں کی بیچ میں سے ہوتا ہوا چپکے سے نیچے آ کر گلعذرا حسیناؤں کے شہد بھرے سرخ ہونٹ چوم کر مدہوش ہو جاتا ہے اور پھر سڑک پر گرا پڑا نظر بھی نہیں آتا۔ اسے دیکھ کر کاجل کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی۔

ایک دن صبح وہ کیفے کا دروازہ کھول کر صفائی کر رہی تھی۔ ابھی ملازم بھی نہیں آئے تھے۔ سڑکیں ویران تھیں۔ بلا اس کے ساتھ ساتھ گھوم رہا تھا۔ دیکھا تو اس کا خاوند دروازے میں کھڑا تھا۔ وہ کا ؤنٹر کے پیچھے بیٹھ گئی اور خاوند سامنے سٹول پر ۔

وہ نیلا سوٹ پہنے ہوا تھا۔ یہ لباس اس نے نیا لیا تھا۔ پہلے سے زیادہ سمارٹ اور ہشاش دکھائی دے رہا تھا۔ ادھر ادھر دیکھ کر کہنے لگا ”بہت خوبصورت جگہ ہے! آرام دہ، صاف اور سکون بخش و سکوں ریز۔ تمہارے ذوق کے عین مطابق۔“ کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔

”ادھر کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو تمہیں یہ چھوڑ کر جانا پڑے۔“ کاجل سوچ رہی تھی کہ وہ اب یہ کہنا چاہ رہا ہے۔

”تم کیا لینا پسند کرو گے؟“
”بلیک کافی۔ تم جانتی ہی ہو۔“

”ہاں، یہ تو میں جانتی ہی ہوں۔“ وہ کافی بنا کر لائی تو بلا چھلانگ لگا کر اس کی گود میں بیٹھ گیا۔ کاجل نے اس کو کانوں کے پیچھے سہلانا شروع کر دیا۔ وہ گھور کر اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔

”میں معذرت خواہ ہوں۔“
”کس بات پر ؟“
”تمہیں تکلیف ہوئی ہوگی۔“

”ہاں شاید؟“ کچھ دیر سوچنے کے بعد بولی۔ ”میں بھی انسان ہوں۔ مجھے تکلیف ہوئی تھی، تھوڑی یا زیادہ کچھ کہہ نہیں سکتی۔“

وہ سوچ رہی تھی، اسے اپنی بہن سے گلہ تھا کہ خاوند سے۔ زندگی کا سفر تو ابھی شروع ہی ہوا تھا۔ کالج جاب اور گھر، ہر جگہ سب کچھ اس کی دسترس میں تھا لیکن نصیب میں محرومیاں لکھی تھیں۔

اسے سوچ میں ڈوبا دیکھ کر بولا۔
”میں معافی کا خواستگار ہوں۔“
”تم شرمندہ ہو، یہی کافی ہے۔ مزید فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔“
” میں کچھ کہنا چاہتا ہوں لیکن الفاظ نہیں مل رہے۔“ وہ سر جھکائے کافی کے گھونٹ لیتے ہوئے بول رہا تھا۔
”مجھے الفاظ مل چکے ہیں۔ تم طلاق دے کر آزاد ہو جاؤ۔“
”بات یہاں تک نہیں پہنچنی چاہیے تھی۔“

”ہاں، غلطی میری تھی۔ مجھے ایک دن پہلے نہیں آنا چاہیے تھا۔ یا کم از کم تمہیں بتا کر آتی۔ اب پچھتانے سے کیا حاصل۔“

اس نے جواب دینے کی بجائے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی۔
کاجل نے بات جاری رکھی ”تمہارے میری بہن سے تعلقات کب بنے؟“
”اس کا جواب دینا ضروری ہے؟“ وہ استفہامیہ لہجے میں بولا۔

اسے افسردہ دیکھ کر پھر کہنے لگا ”تم نے بڑی پر رونق جگہ پر ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ یہاں تمہیں کوئی اچھا ساتھی مل جائے گا۔“

”ابھی تو میں نے سوچا بھی نہیں۔ لیکن تمہیں کیا ملا؟ وہی میرے جیسی میری بہن۔ تم نے کوئی رنگ رس بھری ضیافت نہ اڑائی۔ وہی باسی ایک رکابی طعام اور بس۔“

وہ طلاق دے کر چلا گیا۔
اس سے اگلے ہفتے ہی کاجل نے ایک گاہک سے مجامعت کی۔

اس کی عمر کم و بیش تیس سال ہوگی۔ اسے خوبصورت تو نہیں کہا جاسکتا تھا لیکن کاجل کو بھاتا تھا۔ کیفے میں کئی بار آ چکا تھا۔ ہمیشہ ایک بھدی سی موٹی عورت کے ساتھ جو بے اندازہ میک اپ تھوپے لجاتی بل کھاتی کنواری چال چلنے کی کوشش کرتی تھی۔ وہ بڑے ٹھسے سے میز پر بیٹھ کر حکم چلاتی۔ دونوں میں سخت الفاظ کا تبادلہ بھی جاری رہتا اور پیار محبت کی باتیں بھی۔ اکثر چھٹی سے پہلے والی رات آتے۔ نوجوان جوڑوں کو تاڑتے رہتے۔ ان کی باتیں اور حرکتیں جنسی انگیخت اور بھاؤ تاؤ کو واضح کرتی تھیں۔ کبھی بھی زیادہ دیر نہ ٹھہرتے۔ کاجل سوچتی تھی کہ ملاپ کی رات وہ اکساؤ کو بڑھاوا دینے باہر نکلتے ہیں۔

کاجل ان سے دور ہی رہتی۔ ملازم ہی انہیں خدمات مہیا کرتے۔ کبھی کبھار وہ خود اسے بلاتے۔ لیکن جب وہ مرد سے بات کرتی تو موٹی عورت تیوریاں چڑھا لیتی۔

اس رات وہ مرد اکیلا ہی کیفے آیا۔ باہر بارش ہو رہی تھی اور گاہک بھی کوئی نہیں تھا۔ کیفے بند ہی کرنے والی تھی کہ وہ آتا دکھائی دیا۔ دروازہ بند ہوتے دیکھا تو واپس چل پڑا۔ کاجل نے اسے آواز دی۔ وہ صرف ایک کپ کافی لینا چاہتا تھا۔ کافی بنا کر لائی تو کہنے لگا ”آج وہ قسی القلب مجھ سے ناراض ہو کر چلی گئی۔“ کاجل نے دیکھا اس کے چہرے پر نچنے کے نشانات تھے۔ ہاتھوں کی دریدہ پشت ساری کہانی بیان کر رہی تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے پوچھ لیا ”یہ کیا ہوا؟“

”اس کی عادت ہے۔“ کہہ کر اس نے اپنی جیکٹ اتار دی۔ منہ دوسری طرف کیا اور قمیض بھی اوپر کر دی۔ ساری کمر پر نئے پرانے زخموں کے نشانات تھے۔ کچھ سے ابھی بھی خون رس رہا تھا۔ وہ حیران ہو کر بولی

”نشانات تو ایسے لگتے ہیں جیسے زنجیر زنی کی گئی ہے۔“

”ہاں، وہ جذباتی ہو کر ناخنوں سے میری کمر زخمی کر دیتی ہے اور پھر ہر بار اسی جگہ کو کھرچتی ہے۔ نیا زخم بن جائے تو اس پر شامت سوار ہو جاتی ہے۔“ پھر وہ سیدھا ہوا تو سامنے سینے پر بھی نشانات موجود تھے۔ آگے بڑھ کر ان کو سہلانے لگی تو اس نے کاجل کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا۔ ہاتھ کی گرمی ایسی تھی کہ اگلے ہی لمحے وہ اس کی گود میں تھی۔

پھر وہ اوپر والے کمرے میں آ گئے۔ بیڈ تک پہنچنا بھی محال دکھائی دے رہا تھا۔ پیار نہ مساس، اس نے کاجل کو اٹھا کر بیڈ پر پھینک دیا۔ باہر بارش زور و شور سے برس رہی تھی اور اندر بھوگ بلاس کی سمٹی ہوئی سسکیوں کی پھنکار تھی۔ وہ سدھ بدھ کھو چکی تھی لیکن بے ہوشی میں بھی ہاتھوں کی جلتی پوریں زخموں کو سہلا رہی تھیں۔ ہوش تب آیا جب اس نے کاجل کو نیچے سے نکال کر اپنے اوپر بٹھا لیا۔ اس کے بعد وہ ٹھنڈی پڑ گئی۔

وہ کب گیا؟ اسے کچھ خبر نہیں۔ وہ دونوں ہاتھوں سے اپنی چھاتیاں تھامے بیڈ کے کنارے پر بیٹھی تھی اور اس کے کان دھپ دھپ کی گونج سے بہرے ہو گئے تھے۔

کچھ دنوں کے بعد وہ آیا تو موٹی بھدی عورت اس کے ساتھ تھی۔ تھوڑی دیر بیٹھے اور واپس چل دیے۔ پھر ان کا پرانا معمول بحال ہو گیا۔ کاجل کی کوشش ہوتی کہ ان کی موجودگی میں کچن کے اندر ہی رہے۔ وہ آدمی اگر کبھی اس سے بات کرتا تو اسی لہجے میں جیسے اس رات کچھ ہوا ہی نہیں۔

پھر بلا بھی غائب ہو گیا۔ گرچہ ابھی تک اس نے بلے کو کوئی نام نہیں دیا تھا لیکن وہ اس کی عادی ہو چکی تھی۔ یہ اس کی خوش گمانی تھی یا وشواس کہ بلا اس کے لیے خوش بختی لے کر آیا تھا۔ ایک دو دن پہلے اسے ایک بلی شور مچاتی دکھائی دی تھی۔ اسے پتا تھا اب وہ ہفتہ دس دن واپس نہیں آئے گا لیکن جب بلے کو غائب ہوئے تین ہفتے ہو گئے تو فکر مند ہوئی۔

(ہاروکی موراکمی کے افسانے کینو سے ماخوذ)

سید محمد زاہد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
شیخ خالد زاہد کا اردو کالم