شام و سحر کے رنگ نمایاں نہیں رہے
یا ہم شریک دیدہ حیراں نہیں رہے
پانی کی موج بن گیا انساں کا ہر لباس
عریاں ہوئے ہم اتنے کہ عریاں نہیں رہے
کیوں لفظ بے صدا ہوئے، کیوں حرف بجھ گئے
کیا ہم کسی فسانے کا عنواں نہیں رہے
باقیؔ قدم قدم پہ لہو مانگتے ہیں لوگ
اب مرحلے حیات کے آساں نہیں رہے
باقی صدیقی