اردو غزلیاتباقی صدیقیشعر و شاعری

شام و سحر کے رنگ نمایاں نہیں رہے

باقی صدیقی کی ایک اردو غزل

شام و سحر کے رنگ نمایاں نہیں رہے
یا ہم شریک دیدہ حیراں نہیں رہے

پانی کی موج بن گیا انساں کا ہر لباس
عریاں ہوئے ہم اتنے کہ عریاں نہیں رہے

کیوں لفظ بے صدا ہوئے، کیوں حرف بجھ گئے
کیا ہم کسی فسانے کا عنواں نہیں رہے

باقیؔ قدم قدم پہ لہو مانگتے ہیں لوگ
اب مرحلے حیات کے آساں نہیں رہے

باقی صدیقی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button