اردو غزلیاتشعر و شاعریمیر حسن

تعریف سُخن کی

میر حسن کی اردو غزل

پِلا مجه کو، ساقی! شرابِ سُخن
کہ مفتوح ہو جس سے بابِ سُخن
سُخن کی مجھے فکر دن رات ہے
سُخن ہی تو ہے، اور کیا بات ہے
سُخن کے طلب گار ہیں عقل مند
سُخن سے ہے نامِ نِکویاں بلند
سُخن کی کریں قدر مردانِ کار
سُخن، نام اُن کا رکھے برقرار
سُخن سے وہی شخص رکھتے ہیں کام
جنہیں چاہیے ساتھ نیکی کے نام
سُخن سے سلَف کی بھلائی رہی
زبانِ قلم سے بڑائی رہی
کہاں رُستم و گِیو و افراسیاب
سُخن سے رہی یاد یہ نقلِ خواب
سُخن کا صِلہ یار دیتے رہے
جواہِر سدا مول لیتے رہے
سُخن کا سدا گرم بازار ہے
سُخن سنج اُس کا خریدار ہے
رہے جب تلک داستانِ سُخن
اِلٰہی! رہیں قدر دانِ سُخن

میر حسن دہلوی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button