میر حسن

شعر و سخن کا ذوق موروثی تھا۔ بچپن سے شاعری کی طرف میلان تھا۔ لکھنؤ میں اسے اٹھان ملی۔ میر ضیاء الدین کے شاگرد ہوئے۔ دلی میں تھے تو خواجہ میر درد کو اپنا کلام دکھایا تھا۔ خواجہ صاحب ہی کی روحانی تعلیم اور فیض صحبت کے اثر سے مثنوی "رموز العارفین” لکھی۔ لکھنؤ میں وفات پائی۔ وہیں دفن ہوئے۔ میر حسن فطرتاً نہایت خوش مزاج و بدلہ سنج تھے۔ ان کا شاہکار ان کی مثنوی "سحر البیان” ہے۔ ان کا کلام تقریباً تمام اصناف سخن، مثنوی، غزلیات، ہجویات، قصائد، مرثیے، رباعیات، قطعات، ترکیب بند اور ترجیع بند وغیرہ پر مشتمل ہے۔ وہ قصیدے اور مرثیے کے مرد میدان نہیں البتہ ان کی غزلیں ادبی شان رکھتی ہیں۔ انھوں نے گیارہ مثنویاں لکھیں۔ مثنوی "سحر البیان” (قصہ بے نظیر و بدر منیر) نے اردو زبان میں جو شہرت حاصل کی ہے وہ نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد آج تک کسی مثنوی کو نصیب ہوئی۔ زبان و بیان، جزیات نگاری اور منظر نگاری میں یہ مثنوی اپنا جواب نہیں رکھتی۔ جامعیت، تاثیر اور بیان کی صفائی اور مناسبت یہ ایسی خوبیاں ہیں جو اس مثنوی کے برابر اردو کی کسی اور مثنوی میں نظر نہیں آتیں۔ محاورہ کا لطف، مضمون کی شوخی اور طرز ادا کی نزاکت اس مثنوی کی خصوصیات ہیں۔ زبان کی سادگی اور الفاظ کی بندش کا یہ حال ہے کہ سحر البیان کو لکھے دو سو برس سے زائد گزر چکے لیکن وہ آج کی بولی جانے والی زبان لگتی ہے۔ اسلوب میں پرکاری ہے۔ تکلف و تصنع کا شائبہ تک نہیں۔ یہ مثنوی کہنے کو تو ایک منظوم عشقیہ کہانی ہے لیکن اس میں اس دور کی زندگی، معاشرت، رسوم و رواج، شادی بیاہ کی رسمیں، زنانہ لباس، زیورات، ناچ رنگ وغیرہ کی دلچسپ تفصیلات و جزئیات موجود ہیں۔ اس اعتبار سے "سحر البیان” اپنے دور کی ثقافتی تاریخ کا معتبر ماخذ بھی ہے۔ دوسری قابل ذکر مثنوی "گلزار ارم” ہے جس میں میر حسن نے لکھنؤ کی ہجو اور فیض آباد کی تعریف جی کھول کر کی ہے۔ "تذکرہ شعرائے اردو” بھی میر حسن کی اہم تصنیف ہے۔ یہ تذکرہ فارسی میں ہے۔ اس کی اہمیت کا سبب یہ ہے کہ اس میں میر حسن نے قدیم شاعروں اور اپنے ہمعصر شاعروں کا حال معتبر حوالوں کے ساتھ لکھا ہے۔ میر حسن کے بیٹے میر مستحسن خلیق بھی اپنے زمانے کے نامی شاعر تھے۔ میر خلیق کے بیٹے یعنی میر حسن کے پوتے میر انیس اپنی مرثیہ نگاری کے باعث اردو شاعری کے آسمان پر آفتاب بن کر چمکے۔

Back to top button