زنگِ الم کا صیقل ہو کیوں نہ یار رونا
روشن دلی کا باعث ہے شمع وار رونا
جس جا پہ تم نے باتیں کی تھیں کھڑے ہو اک دن
جب دیکھنا وہ جاگہ بے اختیار رونا
آ لینے دے یہاں تک اُس گل کو ٹک تو رہ جا
پھر ساتھ میرے مل کر ابرِ بہار رونا
تو آ کے آستیں رکھ اس چشمِ تر پہ میری
پاوے جہاں میں میرا تا اشتہار رونا
محوِ خیال ہیں جو اُس شوخِ کم نما کے
درد و الم میں اُنکا ہے ننگ و عار رونا
جب سے جدا ہوا ہے وہ شوخ تب سے مجھ کو
نِت آہ آہ کرنا اور زار زار رونا
دم ہی نہیں ٹھہرتا آنسو کی کیا کہوں میں
جی سے حسنؔ پڑی ہے اب درکنار رونا
میر حسن