کب میں گلشن میں باغ باغ رہا
میں تو جوں لالہ واں بھی داغ رہا
جو کہ ہستی کو نیستی سمجھا
اُس کو سب طرف سے فراغ رہا
ہے یہ کس عندلیب کی تربت
جس کا گُل ہی سدا چراغ رہا
سیرِ گلشن کریں ہم اُس بن کیا
اب نہ وہ دل نہ وہ دماغ رہا
طبعِ نازک کے ہاتھ سے اپنے
عمر بھر میں تو بے دماغ رہا
دور میں تیرے تشنہ لب ساقی
میرے ہی دل کا یہ ایاغ رہا
دل حسنؔ ایسے گم ہوئے کہ سدا
ایک کو ایک کا سُراغ رہا
میر حسن