شجاع شاذ – تغیر و تبدل کا شاعر
صدیق صائب کا شجاع شاذ کے متعلق ایک اردو مضمون
تغیر و تبدل کا شاعر
شاذ جیسے لوگ شاذ ہی ہوا کرتے ہیں کہ جو کسی کام کا ارادہ کر لیں تو اسے مکمل کر کے ہی دم لیتے ہیں۔ یوں بھی اگر کسی کام کا عزم مصمم کر لیا جائے تو اس کے آغاز ہی سے اس کی تکمیل کے اشارے ملنا شروع ہو جاتے ہیں۔ شاعری ایک تخلیقی عمل ہے جس میں آورد سے زیادہ آمد کو دخل ہے۔ یعنی کوئی بھی شخص ارادتاً بھی اس وقت تک اچھا شعر نہیں کہہ سکتا جب تک کہ قدرت اس پر مہربان نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہر اچھے شعر کا خیال شاعر کے دل میں اچانک پیدا ہوتا ہے جس کے بعد وہ اس کی ترتیب و تہذیب کے ارادے کے ساتھ مناسب الفاظ کا انتخاب کرتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کچھ اشعار کہے نہیں جاتے بلکہ وہ سرزرد ہو جاتے ہیں۔
ہمارے شاذ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے کہ ایک دن اچانک اس کے دل میں شعر کہنے کا خیال پیدا ہوا تھا کہ اس نے اس بات کا پختہ ارادہ کر لیا کہ وہ ضرورشاعری کرے گا۔ شاعری اس پر کب طاری ہوئی اس کا اندازہ تو اسے ہی ہو سکتاہے۔ لیکن جہاں تک میرے مشاہدے کی بات ہے تو میں نے کسی کو بھی اتنے محدود عرصے میں اس فن میں اس قدر کامیابی حاصل کرتے نہیں دیکھا جتنی شاذ کے حصے میں آئی۔ یقینا اس کے پیچھے اُس کی سچی لگن اور اس کی مربی جناب شاہد ذکی کی کامل راہنمائی کارفرما ہے۔
”محبت بدلتی رہتی ہے“ شجاع شاذ کا پہلا مجموعہ ہے اور یہ اس کی شاعری کے لیے سنگِ میل کی حیثیت بھی رکھتا ہے اور بقولِ شاہد ذکی کامیابی کا زینہ اول بھی ہے۔ جس کی بنا پر وہ نہ صرف اپنی شاعری کے لیے ایک واضع سمت متعین کر سکتا ہے بلکہ اپنی منزل کے حصول کے لیے باقاعدہ او ر پر عزم سفر کا آغاز بھی کر سکتا ہے۔ اس مجموعے میں شامل کتنی ہی غزلیں ایسی ہیں جو شاذ نے کہی نہیں بلکہ اس سے سرزرد ہوئی ہیں اور یقینا یہی وہ غزلیں ہیں جنہوں نے شاذ کو اس مجموعہ غزل کی اشاعت کا فیصلہ کرنے پر مجبور کیا۔
شجاع شاذ کی شاعری مین تغیر وتبدل کو بہت اہمیت حاصل ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہی تغیر و تبدل کائنات کے فطری حسن میں نکھار پیدا کرتا ہے۔ لیکن اسی کائنات میں کچھ چیزیں اور رشتے ایسے ہیں جن سے انسان ہمیشہ یہی توقع کرتا ہے کہ وہ اپنی یکسانیت کو برقرار رکھیں۔ جیسے سورج سے ہمیشہ روشنی ہی کی توقع کی جاتی ہے اور ماں سے ہمیشہ محبت ہی کی اُمید کی ہوتی ہے۔ اسی طرح شاذ بھی اسی بات کا قائل ہے کہ جن لوگوں سے ہمیں ایک بار محبت نصیب ہوئی ہو ان سے ہمیں ہر بار محبت ہی ملنی چاہیے۔ لیکن جب لوگوں کے رویوں میں ذرا سا بھی تغیر پیدا ہوتا ہے تو وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ
مجھے یہ غم نہیں کوئی نہیں ہے ساتھ مرے
مجھے یہ غم ہے محبت بدلتی رہتی ہے
یہاں پہ کون کس کا یقیں کرے کہ یہاں
قدم قدم پہ حقیقت بدلتی رہتی ہے
ان رویوں کی تبدیلی پر تاسف اور مایوسی کا اظہار شاذ کی شاعری کا لازمی جزو ہے۔ دعا گو ہوں کہ اس کی شاعری معاشرے میں مثبت تبدیلیوں کا باعث بنے اور اسے قبولیتِ دوام حاصل ہوا۔
صدیق صائب