آپ کا سلاماختصاریئےاردو تحاریر

لذتِ نفس کی غلام عورت

شاکرہ نندنی کی ایک اردو تحریر

انسان کی تاریخ گواہ ہے کہ خواہشات، جذبات، اور نفسانی لذتوں کی زنجیریں انسان کو ہمیشہ جکڑتی رہی ہیں۔ یہ زنجیریں وقت کے ساتھ صرف مضبوط ہوتی گئی ہیں، اور ان کی گرفت اتنی سخت ہو چکی ہے کہ آزادی کا خواب دیکھنا بھی محال ہو چکا ہے۔ جب ہم عورت کی بات کرتے ہیں، تو اس کی زندگی میں آزادی اور غلامی کا تصور معاشرتی رویوں اور نفسیاتی جکڑ بندیوں سے جڑا ہوا ہے۔

عورت، صدیوں سے، کبھی مذہب، کبھی ثقافت، اور کبھی روایات کی زنجیروں میں جکڑی رہی ہے۔ لیکن ان سب سے بڑھ کر، لذتِ نفس کے اصولوں نے اسے ایک جسمانی شے میں بدل دیا ہے۔ ایک ایسی شے جس کی قدر و قیمت صرف اس کی جسمانی خوبصورتی اور دوسرے کی خواہشات کی تکمیل کے لیے ہوتی ہے۔ معاشرتی نظام، جو خود کو عورت کے حقوق کا محافظ کہتا ہے، اسے آزادی دینے کے بجائے ایک مخصوص ڈھانچے میں محدود کر دیتا ہے۔ یہ ڈھانچہ عورت کو محض ایک "جسم” کے طور پر پیش کرتا ہے، جسے وہ خود بھی اکثر اپنا مقدر سمجھنے لگتی ہے۔

لذتِ نفس کی غلامی ایک ایسی زنجیر ہے جو دکھائی نہیں دیتی لیکن محسوس ہوتی ہے۔ یہ زنجیر اس وقت جڑ پکڑتی ہے جب عورت کو صرف ایک جسمانی کشش کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ میڈیا، اشتہارات، اور سوشل میڈیا جیسے ذرائع اس تصور کو مزید بڑھاوا دیتے ہیں۔ عورت کو خوبصورتی کے مصنوعی معیار پر پرکھا جاتا ہے، اور اس کی زندگی کا مقصد صرف دوسروں کو خوش کرنے تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ یہ غلامی اس وقت اور بھی گہری ہو جاتی ہے جب وہ خود بھی ان معیاروں کو قبول کر لیتی ہے اور اپنی اصل شخصیت کو بھول جاتی ہے۔

لذت کی غلام عورت وہ ہے جو اپنی ذات کو کھو چکی ہوتی ہے۔ وہ اپنی اہمیت کو دوسروں کی نظروں میں تلاش کرتی ہے اور اپنی خوشیوں کو دوسروں کی خواہشات کی تکمیل سے جوڑ دیتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی خودی، اپنی شناخت، اور اپنی روحانی آزادی کو مکمل طور پر گنوا دیتی ہے۔ اس غلامی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ عورت نہ صرف دوسروں کی خواہشات کا شکار بنتی ہے بلکہ وہ اپنی زندگی کے اصل مقاصد سے بھی دور ہو جاتی ہے۔

کیا لذتِ نفس کی غلامی سے آزادی ممکن ہے؟ اس کا جواب ہاں میں ہے، لیکن یہ آزادی آسان نہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ عورت اپنی خودی کو پہچانے، اپنے وجود کی اہمیت کو سمجھے، اور معاشرتی دباؤ کو مسترد کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ، معاشرے کو بھی اپنا رویہ بدلنا ہوگا۔ عورت کو صرف جسمانی حسن کے بجائے اس کی ذہانت، قابلیت، اور روحانی خوبصورتی کے لیے پہچاننے کی ضرورت ہے۔

لذتِ نفس کی غلام عورت ایک ایسا المیہ ہے جو نہ صرف اس کی اپنی زندگی کو محدود کر دیتا ہے بلکہ معاشرے کے مجموعی رویوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ عورت کو اس زنجیر سے آزاد کرنا صرف ایک فرد کی ذمہ داری نہیں بلکہ پورے معاشرے کی ضرورت ہے۔ آزادی، خودی، اور شناخت کی یہ جنگ طویل ہو سکتی ہے، لیکن اس کا اختتام ایک بہتر، آزاد، اور مضبوط عورت کی صورت میں ہونا چاہیے جو اپنی ذات کو پہچانے اور دنیا میں اپنی ایک الگ پہچان قائم کرے۔

شاکرہ نندنی

شاکرہ نندنی

میں شاکرہ نندنی ہوں، ایک ماڈل اور ڈانسر، جو اس وقت پورٹو، پرتگال میں مقیم ہوں۔ میری پیدائش لاہور، پاکستان میں ہوئی، اور میرے خاندانی پس منظر کی متنوع روایات میرے ثقافتی ورثے میں جھلکتی ہیں۔ میرے والد ایک مسلمان تھے، جن کا تعلق اصل میں بنگلور، بھارت سے تھا، اور وہ 1947 میں تقسیم کے دوران پاکستان منتقل ہوئے۔ میری مرحوم والدہ، جو بعد میں ہندو مت میں تبدیل ہوئیں، کا تعلق ڈھاکہ سے تھا، جو اس وقت سابقہ مشرقی پاکستان تھا۔ میرا بچپن روس میں گزرا، جہاں مجھے ایک ثقافتی طور پر بھرپور ماحول میں پروان چڑھنے کا موقع ملا۔ 12 سال کی عمر میں، میری زندگی میں ایک بڑا موڑ آیا جب میرے والدین میں علیحدگی ہوگئی، اور میری والدہ اور میں فلپائن منتقل ہوگئے۔ وہاں میں نے اپنی اعلیٰ ثانوی تعلیم مکمل کی، جو میرے مستقبل کے کیریئر کی بنیاد بنی۔ 2001 میں، میں نے سنگاپور میں ماڈلنگ کے شعبے میں اپنے پیشہ ورانہ سفر کا آغاز کیا۔ میرا شوق اور محنت جلد ہی مجھے مختلف ڈانس پروگراموں میں کارکردگی دکھانے کے مواقع فراہم کرنے لگی، جس کے بعد میں نے چیک ریپبلک میں اپنے کیریئر کو مزید آگے بڑھایا، جہاں میں نے سویٹ موڈلیک کے ساتھ اداکارہ، ڈانسر، اور ماڈل کے طور پر کام کیا۔ مجھے فخر ہے کہ میں پہلی پاکستانی ہوں جس نے سویڈن کی ایک نامور یونیورسٹی سے ماڈلنگ اور ڈانسنگ میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔ 2013 میں، میں نے ہندو مت کو اپنا لیا، جو میرے نقطہ نظر اور فنکارانہ اظہار میں گہرا اثر رکھتا ہے۔ آج، میں پورٹو میں بوم ماڈلنگ ایجنسی میں ڈپٹی مینیجر کے طور پر کام کر رہی ہوں۔ مجھے اپنے فن اور علم کو نوجوان ماڈلز اور ڈانسرز کے ساتھ شیئر کرنے اور انہیں متاثر کرنے کا موقع حاصل ہے۔ میری کہانی ایک منفرد ثقافتی رنگا رنگی اور عزم کی عکاس ہے، اور میں امید کرتی ہوں کہ یہ ماڈلنگ اور ڈانس کی دنیا میں اپنا خاص مقام بنائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button