انسان کی تاریخ گواہ ہے کہ خواہشات، جذبات، اور نفسانی لذتوں کی زنجیریں انسان کو ہمیشہ جکڑتی رہی ہیں۔ یہ زنجیریں وقت کے ساتھ صرف مضبوط ہوتی گئی ہیں، اور ان کی گرفت اتنی سخت ہو چکی ہے کہ آزادی کا خواب دیکھنا بھی محال ہو چکا ہے۔ جب ہم عورت کی بات کرتے ہیں، تو اس کی زندگی میں آزادی اور غلامی کا تصور معاشرتی رویوں اور نفسیاتی جکڑ بندیوں سے جڑا ہوا ہے۔
عورت، صدیوں سے، کبھی مذہب، کبھی ثقافت، اور کبھی روایات کی زنجیروں میں جکڑی رہی ہے۔ لیکن ان سب سے بڑھ کر، لذتِ نفس کے اصولوں نے اسے ایک جسمانی شے میں بدل دیا ہے۔ ایک ایسی شے جس کی قدر و قیمت صرف اس کی جسمانی خوبصورتی اور دوسرے کی خواہشات کی تکمیل کے لیے ہوتی ہے۔ معاشرتی نظام، جو خود کو عورت کے حقوق کا محافظ کہتا ہے، اسے آزادی دینے کے بجائے ایک مخصوص ڈھانچے میں محدود کر دیتا ہے۔ یہ ڈھانچہ عورت کو محض ایک "جسم” کے طور پر پیش کرتا ہے، جسے وہ خود بھی اکثر اپنا مقدر سمجھنے لگتی ہے۔
لذتِ نفس کی غلامی ایک ایسی زنجیر ہے جو دکھائی نہیں دیتی لیکن محسوس ہوتی ہے۔ یہ زنجیر اس وقت جڑ پکڑتی ہے جب عورت کو صرف ایک جسمانی کشش کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ میڈیا، اشتہارات، اور سوشل میڈیا جیسے ذرائع اس تصور کو مزید بڑھاوا دیتے ہیں۔ عورت کو خوبصورتی کے مصنوعی معیار پر پرکھا جاتا ہے، اور اس کی زندگی کا مقصد صرف دوسروں کو خوش کرنے تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ یہ غلامی اس وقت اور بھی گہری ہو جاتی ہے جب وہ خود بھی ان معیاروں کو قبول کر لیتی ہے اور اپنی اصل شخصیت کو بھول جاتی ہے۔
لذت کی غلام عورت وہ ہے جو اپنی ذات کو کھو چکی ہوتی ہے۔ وہ اپنی اہمیت کو دوسروں کی نظروں میں تلاش کرتی ہے اور اپنی خوشیوں کو دوسروں کی خواہشات کی تکمیل سے جوڑ دیتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی خودی، اپنی شناخت، اور اپنی روحانی آزادی کو مکمل طور پر گنوا دیتی ہے۔ اس غلامی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ عورت نہ صرف دوسروں کی خواہشات کا شکار بنتی ہے بلکہ وہ اپنی زندگی کے اصل مقاصد سے بھی دور ہو جاتی ہے۔
کیا لذتِ نفس کی غلامی سے آزادی ممکن ہے؟ اس کا جواب ہاں میں ہے، لیکن یہ آزادی آسان نہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ عورت اپنی خودی کو پہچانے، اپنے وجود کی اہمیت کو سمجھے، اور معاشرتی دباؤ کو مسترد کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ، معاشرے کو بھی اپنا رویہ بدلنا ہوگا۔ عورت کو صرف جسمانی حسن کے بجائے اس کی ذہانت، قابلیت، اور روحانی خوبصورتی کے لیے پہچاننے کی ضرورت ہے۔
لذتِ نفس کی غلام عورت ایک ایسا المیہ ہے جو نہ صرف اس کی اپنی زندگی کو محدود کر دیتا ہے بلکہ معاشرے کے مجموعی رویوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ عورت کو اس زنجیر سے آزاد کرنا صرف ایک فرد کی ذمہ داری نہیں بلکہ پورے معاشرے کی ضرورت ہے۔ آزادی، خودی، اور شناخت کی یہ جنگ طویل ہو سکتی ہے، لیکن اس کا اختتام ایک بہتر، آزاد، اور مضبوط عورت کی صورت میں ہونا چاہیے جو اپنی ذات کو پہچانے اور دنیا میں اپنی ایک الگ پہچان قائم کرے۔
شاکرہ نندنی